اشاعتیں

تاریخی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی کا احوال

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق عقیدہ ِ ختم نبوت مسلمانوں کا بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ اس عقیدے کے مطابق حضور ِ اکرم ﷺ اللہ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد تا قیامت کوئی نبی کسی بھی صورت میں نہیں آسکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جھوٹے مدعیان ِ نبوت کے خلاف جہاد کے لیے لشکر بھیجے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو خلیفہ ِ اول پہلے مجاہد ِ ختم ِ نبوت ہیں۔   1900ء میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ہندوستان کی سرزمین پر نبوت کا اعلان کیا۔ چوں کہ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی، اس لیے مسلمان ان کے خلاف خلاف علانیہ کارروائی نہ کر سکے، لیکن علمی میدان میں کافی کام کیا۔ بہت سے علماء کرام نے اپنے آپ کو دفاع ِ ختم ِ نبوت کے لیے وقف کر دیا۔  

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ ِ کربلا تاریخِ اسلام کا اتنا خوں چکاں واقعہ ہے کہ جس کی شدّت آج تک محسوس کی جاتی ہے۔ کربلا کی بے آب وگیاہ زمین پر نواسہ ِ رسول ﷺ اور ان کے رشتے داروں اور چاہنے والوں کو بے دردی سے شہید کر دینا ایک ایسی درد بھری کہانی ہے، جسے قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ وہ کیسے شقی القلب لوگ ہوں گے، جنھوں نے اپنے نبیﷺ کے نواسے کو بھی نہیں بخشا ! وہ بھی محض سیاست   اور اقتدار کے لیے۔ یہ لوگ قیامت کے دن حضور ﷺ کا سامنا کیسے کریں گے؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اگر غیر مسلموں کے ہاتھوں ہوتی تو شاید اتنا دکھ اور کرب محسوس نہ کیا جا تا، مگر کس قدر افسوس ناک بات ہے انھیں انھی لوگوں نے بے دردی کے ساتھ شہید کیا ، جو ان کے نانا کے کلمہ پڑھتے تھے۔  

اردو کی اہم کتابیں مفت میں ڈاؤن لوڈ کریں

تصویر
  یادش بخیر۔۔یہ کم و بیش سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔ میں نے blogger.com پر asquirepdfs.bogspot.com کے نام سے ایک بلاگ بنایا تھا۔ اس بلاگ پر میں اردو کی مشہور کتابیں پی ڈی ایف  کی صورت میں پوسٹ کرتا تھا۔ طریقہ یہ تھا کہ سب سے پہلے میں mediafire.com پر کتاب اپ لوڈ کر دیتا تھا۔ پھر اس کا لنک بلاگ پوسٹ کے ساتھ acquirepdfs.blogspot.com پر رکھ دیتا تھا۔

6 ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ

تصویر
  ہم چھے ستمبر کا دن یوم ِ دفاع کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن ہم اپنی فوج کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہیں۔   دراصل 6 ستمبر 1965ء کورات کی تاریکی میں   بھارتی فوج نے میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں لاہور پر تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ بھارت پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ہماری فوج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بھارتی فوج کو واپس اپنے ملک جانے پر مجبور کر دیا۔

چودہ اگست کا پیغام

14 اگست 1947ء کو ہمارا پیارا وطن پاکستان معرض ِ وجود میں آیا۔ یہ وہ عظیم دن ہے ، جس دن مسلمانان ِ ہند کو آزادی ملی ۔ آزادی کی اس تحریک میں بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ، شاعر ِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، سرسید احمد خان ، نواب محسن الملک ، نواب وقارالملک ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی جوہر ، اے کے فضل الحق ، چوہدری رحمت علی اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے قائدین کی انتہائی اہم خدمات ہیں ۔ جو خواب حکیم الامت ، شاعر ِ مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تھا ، بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کو شرمندہ ِ تعبیر کیا ۔ پاکستان کی بنیاد "دو قومی نظریہ" پر رکھی گئی تھی ۔ اس نظریے کے بانی سر سید احمد خان تھے ۔ سر سید احمد خان کے قائم کردہ علی گڑھ کالج کے طالب علموں نے تحریک ِپاکستان میں انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں ۔ اس طرح مسلمانان ِ ہند کی آزادی میں سر سید احمد خان نے اہم کردار ادا کیا  تھا ۔

یولو جیس کی جنونی تحریک کا احوال

اندلس کے چوتھے اموی سلطان عبد الرحمان دوم کے عہد ِ حکومت میں اندلس میں ایک عجیب و غریب جنونی تحریک کا آغاز ہوا ۔ اگر چہ بہت سے مورخین نے اس کو "مذہبی جنون" قرار دیا ہے ۔ مگر میں اسے "مذہبی جنون" نہیں ، بلکہ "جنونی تحریک" کہوں گا ۔ کیوں کہ کوئی مذہب اس طرح کے جنون کی اجازت نہیں دیتا ۔ اگر چہ اس جنون کو اپنانے والا کتنا ہی مذہب کا نام لے ۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام ہو چکی ہے ۔ جب لوگ مذہب کے نام پر شدت کو اپناتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں کو "مذہبی شدت پسند" قرار دے دیتے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ مذہب سے بر گشتہ ہو جاتے ہیں  اور نا دانستہ طور پر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ واقعی مذہب ایسا ہی ہوتا ہے ۔ دانشور طبقے کو چاہیے کہ مذہب کا نام لیتے ہوئے ذرا احتیاط سے کام لے۔

"کس قوم کو للکارا ہے؟"

6 ستمبر 1965 ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔  کیوں کہ  آ ج سے ٹھیک پچاس سال قبل اس دن پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست دے دی تھی ۔ پوری دنیا ورطہ ِ حیرت میں تھی کہ پاکستان نے اتنا بڑا کا م کیسے کر دیا ۔  کیوں کہ بھارت ہم سے ہر لحاظ سے بہتر تھا ۔  اس کے پاس فوج بھی زیادہ تھی ۔ اسلحہ بھی زیادہ تھا ۔ لیکن اس کے  باوجود وہ پاکستان کے ایک علاقے پر بھی قبضہ نہ کر سکا ۔ اسے ہر جگہ منھ کی کھانی پڑی ۔ 17 دنوں تک جنگ جاری رہی ۔ بالآخر پاکستان کو فتح حاصل ہو گئی ۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ بعض شعبے ایسے بھی تھے جس  میں بھارت ہم پر 11 گنا برتری کا حامل تھا ۔پاکستان نے مصلحت کا ثبوت دیتے ہوئے اس جنگ میں پہل کرنے سے گریز برتا ۔ یہ بھارت تھا ، جس نے جنگ میں پہل کرتے ہوئے زندہ ولوں کے شہر لاہور پر دھاوا بول دیا ۔ مگر اس کے قبضے کی کوشش نا کام ہو گئی ۔   

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے

درحقیقت کتابت ِ حدیث کا آغاز عہد ِ رسالت ماٰب ﷺ میں شروع ہو گیا تھا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ نے  نہ صرف  کتابت ِ حدیث کے کام کی حوصلہ افزائی کی ، بلکہ آپ ﷺ نے چند مواقع پر خود اپنی سرپرستی میں احادیث لکھوائیں ۔   رسول اللہ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھی گئیں چند احادیث کی کتابیں درج ذیل ہیں:  1۔ صحیفہ ِ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ 2۔ الصحیفۃ الصادقہ 3۔ کتاب الصدقہ ِ 4۔   صحیفہِ علی رضی اللہ عنہ  

"بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی "

اگر آپ کے سامنے کوئی اس بات کا اعتراف کر لے کہ آپ کے وطن کو برسوں پہلے دو لخت کرنے میں ہمارا ہاتھ تھا تو آپ کو یقینا بہت دکھ ہوگا ۔ حب الوطنی اسی کا نام ہے ۔ پھر اگر یہ بات کرنے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ ایک پورے اسٹیٹ کا وزیر ِ اعظم ہو تو آپ اور زیادہ تاسف کا اظہار کریں گے ۔ افسوس کے ساتھ ساتھ آپ کو غصہ بھی آئے گا ۔ یعنی آپ غم اور غصے دونوں میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی کیفیت سے دوچار اس وقت ہمارے ملک کے باشندے ہیں ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کے  پاکستان مخالف بیان کے بعد پاکستان کے عام اور خاص دونوں طبقے کے لوگ  بہت زیادہ  غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اب بھارت پر حملے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح بھارت  کے وزیر ِ اعظم نے  تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا اعتراف کیا ہے ، بالکل اسی طرح پاکستان کے وزیر ِ اعظم کو بھی دو ٹوک بات کرنی چاہیے ۔ انھیں کسی  طرح کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔دوسرے الفاظ میں وزیر ِ اعظم کا  مصلحت سے عاری اور جذباتی ردِ عمل فی الواقع عوام کا حقیقی ترجمانی ہوگی ۔ 

مسلم دنیا کا ایک دکھتا نا سور

3 مارچ، 1924 ء ۔۔ یہ وہ دن ہے ،جس دن ترکی میں خلافت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ خلافت کے خاتمے میں اپنوں اور غیروں ، دونوں کا ہاتھ تھا ۔ خلافت متحرک نہیں تھی ۔ خلافت کے جسم میں وہ طاقت ختم ہو گئی تھی ، جو مسلمانان ِ عالم کے مسائل حل کر سکتی ہو ۔ ترکی میں قائم خلافت سے کوئی خوش نہیں تھا ۔ انگریز بر صغیر پر چڑھ دوڑے ۔ وہاں کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے کردی ۔ مظالم کی انتہا کر دی ۔ مگر ترکی میں صدیوں سے قائم خلافت مسلمانان ِ بر صغیر کے لیے کچھ کام نہ آئی ۔دوسری طرف عرب بھی ترکی خلافت سے سخت نالاں تھا ۔ انھوں نےپہلی جنگ ِ عظیم کے دوران  ترکی کے خلاف بغاوت کر دی ۔ 

ہیں تلخ بہت بندہ ِ مزدور کے اوقات

یکم  مئی کو بہت گر می تھی ۔ درجہ ِ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ سے متجاوز تھا ۔یہ مزدوروں اور محنت کشوں کا عالمی دن تھا ۔ مگر اس دن بھی ہم نے دیکھا کہ مزدور اور محنت کش طبقہ تو  اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا ، لیکن امیر  طبقہ گھروں میں اے سی اور پنکھوں کے مزے لوٹ رہا تھا ۔ بازار حسب ِ معمول کھلے تھے ۔سبزیوں اور پھلوں کے ٹھیلے لگے ہوئے تھے ۔ گلی کے نکڑ پر شدید گرمی سے بے نیاز بچوں کی چیزیں بیچنے والا محنت کش اپنے کام میں جتا ہوا تھا ۔ کھدائی کا کام کرنے والا مزدور پسینے میں شرابور تھا ، مگر  شدید گرمی میں بھی اپنا کا م جاری رکھے ہوئے تھا ۔عورتیں ،جو گھروں میں سلائی اور کڑھائی وغیرہ کا کام کرتی ہیں ، ان کی بھی کوئی چھٹی نہیں تھی ۔سرکار نےتو چھٹی دے رکھی تھی، مگر کئی نجی ادارے کھلے ہوئے تھے اور وہاں کام کرنے والے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے ۔