اشاعتیں

شخصیات لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

قرآن و حدیث کی روشنی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق خلیفہ ِ اوّل، جانشینِ پیغمبر اعظم ﷺ، یار ِ غار،صاحب ِ مزار،    تاج دار ِ امامت، حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   تاریخ ِ اسلام کی وہ عظیم ترین شخصیت ہیں، جنھیں   ان کی لازوال قربانیوں اور رسول ِ کریم ﷺ سے بے مثل دوستی   کی وجہ سے تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔قبول ِ اسلام کے بعد انھوں نے سب کچھ محبت ِ رسول ﷺ   میں لٹا دیا۔ پھرسول کریم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد آپ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس طرح غم زدہ اُمّت کو سہارا دیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔اس میں شک نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آں حضرت ﷺ کی نیابت کا حق ادا کردیا۔پوری امت ِ مسلمہ ان کے احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ بے   شک آپ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیا کے عظیم ترین اور کام یاب ترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ گووہ رسول کریم ﷺ کے   دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد محض ڈھائی سال تک حیات رہے، لیکن ان کا یہ دور ِ خلافت سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاعر ِ مشرق علامہ محمد اقبالؔ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا:

عبد العزیز آسکانی کی کتاب "یادوں کی دنیا " پر تبصرہ

تصویر
تحریر: نعیم الرّحمان شائق انٹرنیٹ،ملٹی میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے اور لکھنے کی روایت رفتہ رفتہ دم توڑ رہی ہے۔ یقیناً یہ ایک قابل ِ تشویش بات ہے۔ کتابوں سے علم پروان چڑھتا ہے۔ کتابیں انسانوں کو شعور دیتی ہیں۔ کتابیں انسانوں کو مہذب بناتی ہیں۔اس لیے کتابوں سے رشتہ قطع کردینا   اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم   نہ علم دوست ہیں، نہ شعور و آگہی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں۔ مغرب ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے، لیکن وہاں اب بھی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور خوب پڑھی جاتی ہیں۔  

مصوّر علی بلوچ مرحوم۔۔۔کچھ یادیں کچھ باتیں

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق پچھلے چند ہفتوں سے میں سورۃ الحجرات پر لکھ رہا تھا، مگر اب کے ایک سانحہِ جاں کاہ نے میری ساری توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیاہے۔ یہ سانحہ صحافی، ادیب، شاعر اور استاد   ، محترم سر مصور علی بلوچ کی   مرگ ِ نا گہاں کا ہے۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں ان کے بارے میں   لکھوں۔ آج کی تحریر میں کوشش کروں گا کہ وہ لکھوں، جو میرے ذہن میں ان کے بارے میں محفوظ ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی کا احوال

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق عقیدہ ِ ختم نبوت مسلمانوں کا بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ اس عقیدے کے مطابق حضور ِ اکرم ﷺ اللہ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد تا قیامت کوئی نبی کسی بھی صورت میں نہیں آسکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جھوٹے مدعیان ِ نبوت کے خلاف جہاد کے لیے لشکر بھیجے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو خلیفہ ِ اول پہلے مجاہد ِ ختم ِ نبوت ہیں۔   1900ء میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ہندوستان کی سرزمین پر نبوت کا اعلان کیا۔ چوں کہ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی، اس لیے مسلمان ان کے خلاف خلاف علانیہ کارروائی نہ کر سکے، لیکن علمی میدان میں کافی کام کیا۔ بہت سے علماء کرام نے اپنے آپ کو دفاع ِ ختم ِ نبوت کے لیے وقف کر دیا۔  

کریم بلال عظیمی، لیاری کے عظیم باکسر، فن کار اور شاعر

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائقؔ یہ 2011ء کی بات ہے۔ میں ، کریم بلال ؔعظیمی، سانی ؔسیداور میرے بھائی وسیم ہاشمی ہر شب ِ جمعہ کو بعد نماز عشاء ایک بیٹھک میں بیٹھتے۔ ان دنوں ہمیں شاعری کا نیا نیاشوق چڑھا تھا۔ سو ہم تقریباً ہر ہفتے ایک محفل ِ مشاعرہ منعقد کرتے۔ کبھی کبھار اور دوست بھی آجاتے۔ محفل ِ مشاعرہ کے ساتھ ساتھ ادبی باتیں بھی ہوتیں۔ ان نشستوں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔   گو سانیؔ سید اور وسیمؔ ہاشمی کا مطالعہ بھی خاصا وسیع تھا، مگر کریم بلالؔ عظیمی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے    اب تک یاد ہے کہ ان دنوں میں دیوان ِ غالبؔ پڑھ رہا تھا۔ غالبؔ کا یہ شعر میری سمجھ سے باہر تھا: نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا میں نے اس سلسلے میں کریم بلال صاحب سے رہنمائی مانگی تو انھوں نے اس کی بڑی اچھی تشریح کی۔ میں کسی کے جواب سے مطمئن ذرا دیر سے ہوتا ہوں۔لیکن کریم بلال ؔ عظیمی نے ایک ہی لمحے میں مجھے مطمئن کر دیا۔  

ایم اسلم صدیقی۔۔۔ لیاری کے جواں مرگ صحافی و ادیب

تصویر
تحریر: نعیم الرّحمان شائق پچھلے دنوں میرے ایک فیس بک دوست عطاء اللہ لاسی صاحب نے ایم اسلم صدیقی کے بارے میں پوسٹ   کی۔   مجھےا س پوسٹ کی وساطت سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ موصوف لیاری ٹائمز کے بانی تھے اور ان کو بچھڑے ہوئے 28 سال بیت گئے۔تصویر ایک خوب صورت نوجوان کی تھی، جس سے پتا چلتا تھا کہ مرحوم جوانی میں ہی داغ ِ مفارقت دے گئے تھے۔  

منٹو کا نادر ونایاب خط، لیاری کے ذوقی بلوچ کے نام

تصویر
  تحریر و تحقیق: نعیم الرّحمان شائق ا یک مرتبہ ایک اخبار کے دفتر میں جانا ہوا۔ مدیر صاحب نے مجھے اخبار دکھایا۔میری ایک   بُری عادت یہ ہے کہ میں ہر شے کوتنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ مصلحت   آڑے نہ آئے تو بلا جھجھک کہہ دیتا ہوں کہ صاحب آپ نے یہاں غلطی فرمائی ہے۔ تصحیح کر لیجیے۔ بعض اوقات شرمندگی اٹھانی پڑ جاتی ہے، مگر عادت سے مجبور ہوں۔ کیا کروں؟مدیر صاحب نے جب مجھے اخبار دکھا یا تو اس میں سعادت حسن منٹو کے افسانے کا ایک اقتباس بھی شامل تھا، مگر غلطی یہ تھی کہ "سعادت حسن منٹو" کی بہ جائے "سعادت حسین منٹو" لکھا ہوا تھا۔ یعنی "حسن" کو "حسین" لکھ دیا گیا۔ میں نے فوراً مدیر صاحب کی توجہ اس غلطی کی جانب مبذول کرائی۔ انھوں نے کمپوزر کو بتایا کہ اس نے یہ غلطی کی۔ کمپوزر نے ہنستے ہوئے جواب دیا،"سر کیا ہو ا جو میں نے "حسن " کی جگہ" حسین " لکھ دیا۔ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں بھائی ہی تو تھے۔ "اس پر سب ہنس پڑے۔ میں سعادت حسن منٹو کے خطوط سے متعلق تحریر   کا پلاٹ بنا رہا تھا تو یہ واقعہ   یاد آگیا۔ سوچا، یہ شگوفہ یہاں سجا

آہ! مولانا وحید الدین خان!موت انھیں بھی اچک کر لے گئی

تصویر
        تحریر: نعیم الرحمان شائق   نہ جانے جب بھی کوئی اہل ِ علم اٹھتا ہے تو مجھے کیوں شورش کاشمیری کا وہ درد بھر مرثیہ یاد آجاتا ہے ، جو انھوں نے مولانا ابوالکلام آز اد کی وفات پر لکھا تھا۔ابوالکلا م جب اس دنیا سے اٹھے تو شورش نے تڑپ کر کہا تھا: عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے زمیں کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے تری جدائی پہ مرنے والے وہ کو ن ہے جو حزیں نہیں ہے مگر تری مرگ ِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے  

بابائے بلوچی مولانا خیر محمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق  یادش بخیر۔۔۔۔ جب شاہد حیات ایڈیشنل آئی جی سندھ تھے تو ایک دن وہ لیاری میں آئے اور خطاب کیا۔ دوران ِ خطاب انھوں نے لیاری کی سربرآوردہ شخصیات کا نام لیا، جن میں سے ایک نام مولانا خیر محمد ندوی کا تھا۔ لیاری سے تعلق ہونے کے باوجود میں ان کا نام پہلی بار سن رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے ذہن میں ہی خاکہ بنا دیا کہ یہ شخص ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی کے علاقے لیاری میں آبسے ہوں گے۔ ندوۃ العلماء کے طالب ِ علم ہونے کی وجہ سے بہت سارےعلمی کام کیے ہوں گے۔ لیکن میرا یہ خیال اس وقت مفروضہ ثابت ہوا، جب میں نےبلوچ سیکنڈری اسکول لیاری سے ملحق مدنی مسجد میں ایک کتاب دیکھی۔کتاب کا نام تھا: عملانی فضیلتاں۔ یہ دراصل مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب "فضائل اعمال" کا بلوچی ترجمہ تھا۔  پھر میں نے انٹرنیٹ نگری کا رخ کیا تو اقبال کلمتی کے بلاگ پر  "بلوچی ءِ اولی کتاب" کے نام سے ان کی ایک تصنیف سر سری طور پر پڑھنے کا موقع ملا۔ میں بلوچی سے تاحال نا بلد ہوں۔ سو اس کتاب سے مکمل طور پر استفادہ نہ کرسکا۔

اطہر ہاشمی کے کالم کتابی صورت میں شایع کیے جائیں

تصویر
  نعیم   الرحمان شائق بہت سال پہلے میں نے اخبار کےایک ٹھیلے سے مشہور ہفت روزہ رسالہ"فرائیڈے اسپیشل" خریدا۔رسالہ پڑھتے ہوئے جب میں آخری صفحے پر پہنچاتو اطہر ہاشمی کا کالم بعنوان "خبر لیجے زباں بگڑی" ملا۔ میں پہلی بار ان کا کالم پڑھ رہا تھا۔ یہ کالم   معاصر اخبارات اور نیوز چینلوں میں ہونے والی اردو کی غلطیوں کی تصحیح پر مشتمل تھا۔ میں حیران رہ گیا کہ پاکستان میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے، جو اردو زبان پر اتنی مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ کالم خشک قسم کی معلومات پر مشتمل تھا، مگر اتنا خوب صورتی سے تحریر کیا گیا تھا کہ میں پڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ پورا مضمون ختم ہوگیا۔پھر میں نے یہ عادت بنالی تھی کہ محض اطہر ہاشمی کا کالم پڑھنے کےلیے ہر ہفتے "فرائیڈے اسپیشل" خریدتا۔

مسعود احمد برکاتی ہم میں نہیں رہے

تصویر
بچوں کے معروف اور مقبول ترین ماہ نامے "نونہال " کے مدیر ِ اعلیٰ جناب مسعود احمد برکاتی 11 دسمبر 2017 کو 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ گزشتہ 65 سالوں سے "نونہال" کی ادارت سنبھال رہے تھے۔ ہمدرد نونہال 1953ء میں حکیم محمد سعید شہید کی سرپرستی میں شروع ہوا تھا۔ برکاتی صاحب شروع سے اس معیاری رسالے کی ادارت سنبھال رہے تھے۔بچوں کے ادب میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بچوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ 

محمد احمد سبزواری نہیں رہے

کل کی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک کی 'سوشل میڈیا  سلیبریٹی' قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا ہے ۔میڈیا بتاتا ہے کہ ان کو ان کے بھائی نے غیرت  کے نام پر قتل کیا ۔وہ متنازعہ تو تھیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو یوں ہی قتل کر دیا جاتا ۔ بہر حال اب وہ دنیا میں نہیں رہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ کل ایک  اور افسوس ناک خبر بھی آئی ۔مگر یہ افسوس ناک صرف مجھ جیسے لوگوں کے لیے ہوسکتی ہے ۔ ہوسکتا ہے ، آپ بھی یہ 'افسوس ناک'خبر پڑھ کر مسکرا دیں ۔ خبر یہ ہے کہ محمد احمد سبزواری ، جو کہ معروف کالم نگار اور میعشت دان تھے ، 104 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس اخبار کے لیے انھوں نے 23 سال تک کالم نگاری کی تھی ، اس میں دوسرے صفحے پر ایک یک کالمی   خبر شائع ہوئی ۔ مجھے کل فیس بک پر  ڈاکٹر رئیس صمدانی صاحب کی ایک پوسٹ کی وساطت سے اس خبر کا علم ہوا ۔ درحقیقت محمد احمد سبزواری جیسے لوگ ہمارے لیے اصل اور حقیقی سلیبریٹی کی حیثیت رکھتے  ہیں ۔

ہمارے ایدھی بابا چلے گئے

ہمارے ایدھی بابا چلے گئے ۔ جانا تو سب کو ہوتا ہے۔سب کی منزل وہی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ جا کر بھی نہیں جاتے ۔پتا ہے ، وہ کون لوگ ہوتے ہیں ؟ ہمارے بابا جیسے لوگ ۔یعنی وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں ۔ جن کی خواہشیں ، جن کی امنگیں، جن کی خوشیاں ۔۔غرض سب کچھ دوسروں کے لیے وقف ہوتا ہے ۔ بابا ایدھی کا پورا نام عبدالستار ایدھی تھا ۔لیکن وہ ہمارے بابا تھے ۔ پوری قوم کے بابا ۔غریب بستیوں کے رہنےوالوں کے  بابا۔سچ پوچھیے تو پوری انسانیت کے بابا ۔اس لیے میں ان کو بابا ایدھی کہوں گا ۔ تاریخ ِ پاکستان میں ہم نے ایسا بابا نہیں دیکھا ۔ ہمارے قومی شاعر نے کہا تھا ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

جنرل حمید گل بھی "مرحوم" ہو گئے

موت قدرت کا اٹل فیصلہ ہے ۔ موت بر حق ہے ۔ چودہ صدیاں قبل دنیا کی سب سے اہم ترین کتاب نے انسانوں کو ان کے خالق کا یہ پیغام سنایاکہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ کئی لوگ روزانہ مر جاتے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں ۔ لا ریب ان کا جسم فانی ہو جاتا ہے ۔ لیکن وہ کتابوں میں، نصابوں  میں اور لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہتے ہیں ۔ ان کے زندہ رہنے کی وجہ ان کے کار نامے ہوتے ہیں ۔ ملک و قوم کے ضمن میں ان کی خدمات ہوتی ہیں ۔ انھوں نے انسانیت کے دکھوں کی چارہ جوئی کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوتی ہے ۔

شاہ عبد اللہ بھی رخصت ہوئے

یہ خبر پوری مسلم دنیا میں   غم اور افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ خادم ِ حرمین الشریفین اور سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبد اللہ 90 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد جمعرات اور جمعۃ المبارک کی درمیانی شب خالق ِ حقیقی سے جا ملے ۔وہ ایک عرصے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔پھیپھڑوں کے انفیکشن کے باعث انھیں پچھلے کئی دنوں سےمصنوعی طریقے سے سانس دیا جا رہا تھا ۔ان کی نماز ِ جنازہ پرنس ترکی بن عبد اللہ جامع مسجد میں ادا کی گئی۔جس میں کئی مسلم ممالک کی اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی ۔پاکستان کے وزیر ِ اعظم اور ترک صدر رجب طیب  اردوان نے بھی نماز ِ جنازہ میں شرکت کی ۔سعودی عرب کی تمام مساجد میں بھی شاہ کی غائبانہ نماز ِ جنازہ ادا کی گئی ۔دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم رہنماؤں نے شاہ کی وفات پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ اسرائیلی سابق صدر شمعون پیریز بھی کہہ اٹھے کہ شاہ عبد اللہ کی موت مشرق ِ وسطی ٰ کے امن کے لیے حقیقی نقصان ہے ، جس کی تلافی نا ممکن ہے ۔