اشاعتیں

طنز و مزاح لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مسکرائیے

سیاست کی گرم بازاری میں مسکرانا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ بہت سے موضوعات بکھرے پڑے ہیں ۔ لیکن سچ پوچھیں تو حالات ِ حاضرہ پر لکھنے کا جی ہی نہیں چاہتا ۔ میں نے پچھلے چند مہینوں سے حالات ِ حاضرہ پر نہیں لکھا ۔ میری کوشش رہی کہ قارئین کو کوئی معلوماتی تحریر پڑھنے کو دے سکوں ۔ آج دل کر رہا ہے کہ اپنے قارئین کے چہروں پر مسکراہٹوں کو سجاؤں۔لطیفوں کے سلسلے میں میرا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ مذاق کی آڑ لے کر کسی مخصوص قوم کو نشانہ بنانا اچھی بات نہیں ہے ۔ ہمارا دین بھی اس سے منع کرتاہے ۔ ہمارے ہاں بہت سے ایسے لطیفے رائج ہیں ، جن میں 'سردار' اور 'پٹھان' کا ذکر ہوتا ہے ۔ اور خاص طور پر ان دونوں کو سخت طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس سے احتراز برتنا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ ایسے لطائف جن سے ابتذال ٹپکتا ہو ، اچھے نہیں ہوتے ۔ یہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں ۔ ایسے لطیفوں سے  بچنا  بھی بے حدضروری ہے ۔  چند لطیفے پیش ِ خدمت ہیں ۔یہ سارے لطیفے میں نے انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹوں سے نکالے ہیں ۔ یعنی اس میں میرا کوئی 'کمال' نہیں ۔ 

نقل بھی ایک آرٹ ہے

جب سے ہمارے ہونہار طلبہ و طالبات کے امتحانات شروع ہوئےہیں ، اخبارات نے "پکڑے گئے" جیسے لاحقے والی خبریں شائع کرنا شروع کر دی ہیں ۔ مثال کے طور پر،"اردو کے پرچے میں 24 طلبہ نقل کرتےہوئے پکڑے گئے " ، "حیاتیات کے پر چے میں 10 طلبہ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے" وغیرہ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں ایسی خبریں بالکل اچھی نہیں لگتیں اور اچھی لگنی بھی نہیں چاہئیں ۔ کیوں کہ ان خبروں سےہمارے ذہین ، ہو ش یار ، لائق اور ہونہار طلبہ و طالبات کی شرمندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ، مگر مستقبل کے معماروں کی ایسی بے عزتی ہر گز ۔۔ہر گز برداشت نہیں کر سکتے ۔

نقل امریکا اور بھارت میں

یقین جانیے ، اگر ہمیں امریکا اور انڈیا میں ہونے والی نقل کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہوتا تو ہم پچھلے ہفتے "نقل کی روک تھام " کے عنوان سے کوئی کالم زیر ِ تحریر نہ لاتے ۔ بھارت کے طلبہ کہتے ہیں کہ نقل کرنا ان کا جمہوری ہی نہیں ، بلکہ پیدائشی حق ہے ۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں ، چاہے وہ انڈیا کے ہوں یا پاکستان کے۔ جب نقل کرنا بھارت کے بچوں کابنیادی حق ہے تو ہمارے بچوں کا کیوں نہیں ہے ۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟اگر  ہم اپنی  تحریروں کے ذریعےاپنے طلبہ و طالبات کو ان کے پیدائشی اور جمہوری حق سے محروم کر نے کی بات کریں  تو یہ بالکل  اچھی بات نہیں ہے ۔اس لیے ہم اپنی پچھلی تحریر سے برات کا اظہار کرتے ہیں ۔ در اصل امتحان کے گرم موسم میں جب ہم نے چند ہونہار بچوں کو کھیلتے دیکھا تو ہمارا خون کھول اٹھا ۔ہمارے حساس  دل میں قوم کا جذبہ تو یوں ہی موج زن ہے ۔ اس لیے  ہم نے ایک جذباتی کالم لکھ مارا ۔کیوں کہ ہمارے  لاشعور میں یہ بات رقص در رقص کر رہی تھی کہ نقل "صرف " ہمارے بچے  کرتے ہیں ۔ لیکن  جب ہمیں معلوم ہوا کہ نقل امریکا اور بھارت میں بھی کی جاتی ہےتو ہمارے لا شعور کو خیال میں ایک چ

عجیب و غریب خبریں

آج کوشش ہوگی کہ کچھ عجیب و غریب خبریں آپ کے سامنے لاؤں ۔ حالات ِ حاضرہ پر بہت کچھ لکھ لیا ۔ہمارے ہاں  عجیب وغریب خبریں پڑھنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اخبارات اور ہماری نیوز ویب سائیٹیں اس طرح کی خبریں بھی آئے روز شائع کرتی رہتی ہیں ۔ یہ بڑی اچھی بات ہے ۔ کیوں کہ لوگ سیاسی اور حالات ِ حاضرہ پر خبریں پڑھتے پڑھتے بور ہو جاتے ہیں ۔اور بعض لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں ، جو خبریں پڑھتے ہی محض اس لیے ہیں ، تاکہ وہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز خبریں پڑھ کر لطف اندوز ہو سکیں ۔ وہ اس بات کے جاننے کے بالکل شائق نہیں ہوتے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ سیلاب نے کتنی تباہی مچائی ہے ؟ دھرنوں کا کیا بنا؟ ہمارے وزیر ِاعظم کب ، کس ملک میں اپنا نیا دورہ کریں گے ؟