اشاعتیں

معاشرتی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ایک پچانوے سالہ شخص کے سبق آموز پچاس اقوال

تصویر
تحریر و انتخاب: نعیم الرّحمان شائق کبھی کبھار انٹرنیٹ پر ایسا مواد مل جاتا ہے، جسے بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں ایک پچانوے سالہ شخص کے پچاس اقوال تھے، جو واقعی حکمت سے بھر پور تھے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں پر مشتمل یہ سبق آموز باتیں ہماری زندگی کو آسان بنا سکتی ہیں۔ آج کی تحریر میں وہی پچاس اقوال آپ کے سامنے لا رہاہوں۔

پہلے تربیت، پھر تعلیم

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق سورۃ آل ِ عمران میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: "بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انھیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہےاور انھیں پاک کرتا ہےاور انھیں کتاب و حکمت سکھا تا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔" (3:164)  

غیبت معمولی گناہ نہیں ہے

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق غیبت کو بہت معمولی گناہ سمجھا جاتا ہے، بلکہ بہت سے لوگ تو اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔عوام و خواص سب اس گناہ ِ عظیم میں مبتلا ہیں۔افسر ماتحت کی غیبت میں لگا ہوا ہے اور ماتحت افسر کی غیبت میں مصروف ہے۔ یاد رکھیے کہ غیبت ایک کبیرہ گناہ ہے۔ اس لیے اسے معمولی برائی نہیں سمجھنا چاہیےاور اس سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہماری محافل اس کبیرہ گناہ سے آلودہ نظر آتی ہیں، بلکہ غیبت کے بغیر محفل بے لطف اور نامکمل   محسوس ہوتی ہے۔خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اپنی مسدّس میں کیا خوب منظر کشی کی ہے:

حضرت واصف علی واصف کے سو اقوال

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق کچھ لوگ مر کر   بھی امر رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگیوں میں ایسے کارہائے نمایا ں سر انجام دیے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے انھیں مرنے کے بعد بھی یاد رکھا جاتا ہے۔یاد رکھیے کہ شہرت کی دو قسمیں ہوتی ہیں: اچھی شہرت اور بری شہرت۔ جو عظیم لوگ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ   کر کے جاتے ہیں، انھیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے اور ان کے حصے میں اچھی شہرت آتی ہے۔ اس کے بر خلاف جو لوگ انسانیت کے منافی کچھ کرکے جاتے ہیں، تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرتی اور ان کو بری شہرت نصیب ہوتی ہے۔

بانو قدسیہ کے اقوال

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق میرے پیارے دوست شائف راشد حسین لکھتے ہیں: "بابا اشفاق احمد اور آپا بانو قدسیہ جب ایک دوسرے کی زوجیت میں بندھ گئے تب سے لیکر بابا کے انتقال یعنی جب تک دونوں حیات رہے ایک دوسرے کے سچے رفیق اور ساتھی رہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ ایک قدامت پسند بلکہ قدامت پرست بابا نے اپنی زوجہ کو پوری آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جس سے چاہے ملے، جیسا چاہے پہنے اور جو سمجھ آئے لکھے۔ ہمیشہ بانو قدسیہ صاحبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایک پڑھی لکھی، زمانے کے ساتھ قدم بقدم چلنے کاعزم رکھنے والی بانو قدسیہ بھی اشفاق احمد کی اسیر رہیں مگر وہ جانتی تھیں    کہ اس دیو قامت شخصیت والے بابا کو کیسے اپنا داس بنائے رکھنا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ ایک دفعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک ادبی محفل کے اختتام پر جب لوگ اٹھ کر جانے لگے، میں اور بانو آپا باتیں کرتے آگے آگے چلتے ہوئے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ دہلیز پر پہنچ کر آپا رک گئی اور مڑ کر اشفاق صاحب کو دیکھنے لگی۔ میں نے بانو آپا سے کہا "آپا چلیں۔ " وہ بولیں کہ "خان صاحب مصروف ہیں۔ وہ پہلے نکلیں گے، پھر میں۔ "

جب فرقہ واریت یہاں تک پہنچ جائے۔۔۔۔

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق فیض احمد فیض نے کہا تھا: جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے دل پہ گزری ہوئی کورقم کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔ پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں، پرانےزخم ہرے ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے ماضی میں کھوجاتا ہے۔ مگر: یاد ِ ماضی عذاب ہےیارب! چھین لے مجھ سے حافظہ میرا میں تمہید کو طول دے کر آپ کی بوریت کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ آج کی میری تحریر دراصل میری یادوں کے ایلبم کی ایک تصویر ہے، جسے میں لفظی جامہ پہنا کر آپ کی نذر کر رہا ہوں۔  

نو عادتیں جن کو چھوڑ دینا چاہیے

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق   ) میری   یہ تحریر 21 ستمبر 2014ء کو "ہماری ویب" پر شائع ہوئی تھی۔ پچھلے دنوں میں مذکورہ ویب سائٹ پر اپنی تحریریں دیکھ رہا تھا۔ یہ تحریر دیکھی تو بھلی اور مفید محسوس ہوئی۔ اس لیے اسے اپنے بلاگ کی زینت بنا رہا ہوں۔ چوں کہ یہ تحریر  چند سال پرانی ہے، لہٰذ مِن و عن تحریر نہیں کر رہا،بلکہ کسی حد تک ترمیم کر کے لکھ رہا ہوں۔ (     کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ تحریر معلوماتی ہو ۔ اور وہ معلومات سود مند بھی ہوں ۔ اصلاح اسی کا نام ہے ۔ یاد رکھیے کہ اصلاح پر کسی جماعت یا قوم کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ ہر وہ شخص جو اچھی باتیں سامنے لاتا ہے ، مصلح ہے ۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ یوں ہر شخص اپنے اپنے دائرہ ِ کار میں رہتے ہوئے یہ فرض انجام دے سکتا ہے ۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اچھی بات جو بھی کرے ، سن لینی چاہیے ۔ پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے ۔ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ بات کس نے کہی ہے ۔ اس کا کس مذہب ، ملک یا قوم سے تعلق ہے ۔ بہ صورت ِ دیگر اصلاح کا عمل رک جائے گا ۔

کاروبار بمقابلہ نوکری

تصویر
اگرآپ کسی یونی ورسٹی میں جائیں اور وہاں کے طلبہ وطالبات سے پوچھیں کہ آپ کیوں پڑھ رہے ہیں۔یقین کیجیے ، 98 فی صد کا جواب ہوگا کہ ہم ایک اچھی نوکری کے حصول کے لیے پڑھ رہے ہیں۔ دو فی صد ہی ایسے بچے ہوں گے، جن کی سوچ اپنے کاروبار کی طرف مائل ہو گی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم نوکر بننے کے لیے پڑھتے ہیں۔ بڑا نوکر بننے سے چھوٹا مالک ہونا بہتر ہے۔نوکر ہمیشہ نوکر ہی رہتا ہے۔ اسے اپنے مالک کی ہر بات ماننی پڑتی ہے۔ اس کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی مرضی نہیں چلا سکتا ۔اسے اپنے مالک کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ وہ   نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سب کچھ کرتا ہے، جس کا اسے حکم   دیا جاتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اپنا کام بہتر ہے نوکری سے۔

آقا علیہ السلام کے چند ارشادات ِ عالیہ

تصویر
آج 12 ربیع الاول ہے۔ عُشّاق آں حضرت ﷺ کا ذکر ِ خیر کر رہے ہیں۔ نعتوں کی محفلیں سجائی جارہی ہیں۔ فضائیں ذکرِ حبیب اللہ ﷺ سے معطّر ہیں۔قرآن ِ حکیم میں صدیوں قبل الہامی اعلان کیا گیا: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک یعنی (اے محمد ﷺ) ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کردیا۔ بے شک یہ انھیں الہامی الفاظ کی سچائی کی دلیل ہے کہ کئی صدیاں بیت گئیں، مگر آج بھی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کا ذکر بڑی شان  کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اور قیامت تک یہ ذکر ِ خیر جوں کا توں جاری و ساری رہے گا۔

میں ستر سال کا ہوگیا

تصویر
میرا نام پاکستان ہے۔ آج 14 اگست، 2017 کا دن ہے۔ آج سے ٹھیک ستر سال پہلے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے ہاں میری پیدائش ہوئی تھی۔ آج میری عمر ستر سال ہے۔ لیکن میں اب بھی جوان ہوں، پر امید ہوں، پر سکون ہوں۔ کیوں کہ میں کوئی انسان تو نہیں کہ بوڑھا ہو جاؤں گا۔ میری بنیاد عظیم لوگوں نے رکھی تھی۔ جن میں حضرت قائدِ اعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، چوہدری رحمت علی، اے۔ کے فضل الحق، مولانا محمد علی جوہر، سرسید احمد خان سر ِ فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مخلص لوگوں نے میری بنیاد میں اہم کردار ادا کیا۔ میں ان مخلص اور عظیم لوگوں کی وجہ سے ، ان شاء اللہ، ہمیشہ قائم و دائم رہوں گا۔ 

اردو کی بیس عام غلطیاں

تصویر
            اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ اس کی حفاظت اور درست اشاعت ہماری ذمہ داری ہے ۔پاکستان کے حالیہ آئین کی دفعہ 251 اردو کی اہمیت واضح کرتی ہے ۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔ حالیہ آئین 1973ء میں نافذ ہوا تھا ۔ اب 2017ء چل رہا ہے ، مگر اب تک صحیح معنوں میں اردو زبان رائج نہ ہو سکی ۔

چند خیالات

تصویر
بچپن میں ہم سے پوچھا جاتا تھا: عقل بڑی ہوتی ہے یا بھینس؟ ہم کہتے تھے: بھینس پوچھنے والے بزرگ ہمیں بتاتے تھے : دکھنے میں بھینس بڑی ہوتی ہے ، سوچنے میں عقل بڑی ہوتی ہے۔ اس وقت ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی ، لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، شعور کو پختگی ملتی گئی ۔ اب سمجھ آیا کہ بزرگ صحیح کہتے تھے ۔ انسانی ذہن بہت وسیع ہوتا ہے ۔ اس میں ہر لمحے طرح طرح کے خیالات ابلتے رہتے ہیں ۔ کچھ خیالات اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ ان پر قوموں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں ۔کچھ خیالات انسان کے کردار کے تعمیر میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔کچھ الفاظ اتنے میٹھے ہوتے ہیں کہ ان کو باربار چکھنے کو جی چاہتا ہے ۔ سیاہ رنگ میں لکھے ہوئے ان الفاظ میں چھپے رنگا رنگ خیالات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ ان سے روشنی لینی چاہیے ۔

اور اس بار میرا بہاولپور۔۔۔

تصویر
اور اس بار میرا بہاولپور بدقسمت نصیب کی نذر ہو گیا ۔ ڈیرھ سو سے زائد لوگ زندہ جل گئے ۔ سو سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے ۔ واقعہ چھبیس جون کا ہے ۔ یعنی عید سے ایک دن پہلے کا۔جب پاکستان کے عوام عید کے چاند کا انتظار کر رہے تھے اور خوش تھے کہ کل عید ہوگی ، کیوں کہ سعودی عرب میں عید تھی ۔جب سعودی عرب میں عید ہوتی ہے تو دوسرے دن ہماری عید ہوتی ہے ۔ لیکن اس سانحے کے بعد ہماری خوشیوں پر بڑی حد تک اوس پڑ گئی ۔ ان حرماں نصیبوں نے کس طرح عید منائی ہوگی ، جن کے عزیز واقارب زندہ جل گئے !

کرکٹ کی جیت سے پارا چنار کے دھماکوں تک

تصویر
شاید جب سے یہ دنیا بنی ہے ، کبھی خوشی ،کبھی غم یا کبھی بہار ، کبھی خزاں کا کھیل جاری وساری ہے ۔ ابھی اتوار تک ہم خوشیاں منار ہے تھے کہ ہم نے اپنے سب سے بڑے حریف کو ۔۔۔ اصل میدانوں میں نہیں تو ۔۔۔ کھیل کے میدان میں ضرور رام کر دیا ۔ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ۔ ہم نے مٹھائیاں بانٹیں ، سڑکوں کو گلنار کیا ، آسمان کو آتشیں گولوں سے سجایا  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے خوشی کے عالم میں فائرنگ بھی کی ۔ ہمیں خوشی اس بات کی نہیں تھی کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے آئی سی سی چیمپئن ٹرافی جیتی اور عالمی رینکنگ میں آٹھویں سے چوتھے نمبر پر آگئی ، بلکہ ہماری پوری قوم اس بات پر خوش تھی کہ ہماری بظاہر "بچوں کی ٹیم " نے انڈیا جیسی مضبوط ٹیم کو ہرا دیا ۔

قارئین سے معذرت چاہتا ہوں

قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ حد سے زیادہ مصروفیات نے ایک بار پھر تسلسل توڑ دیا ۔ تسلسل کی بات آئے تو محسن بھوپالی کو ضرور یاد کرنا چاہیے ، جس نے کہا تھا : نہ چھیڑو کھلتی کلیوں ، ہنستے پھولوں کو ان اُڑتی تتلیوں ، آوارہ بھنوروں کو ، تسلسل ٹوٹ جائے گا ! فضا محو سماعت ہے ، حسین ہونٹوں کو نغمہ ریز رہنے دو ، نگاہیں نیچی رکھو اور مجسم گوش بن جاؤ

چودہ اگست کا پیغام

14 اگست 1947ء کو ہمارا پیارا وطن پاکستان معرض ِ وجود میں آیا۔ یہ وہ عظیم دن ہے ، جس دن مسلمانان ِ ہند کو آزادی ملی ۔ آزادی کی اس تحریک میں بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ، شاعر ِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، سرسید احمد خان ، نواب محسن الملک ، نواب وقارالملک ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی جوہر ، اے کے فضل الحق ، چوہدری رحمت علی اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے قائدین کی انتہائی اہم خدمات ہیں ۔ جو خواب حکیم الامت ، شاعر ِ مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تھا ، بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کو شرمندہ ِ تعبیر کیا ۔ پاکستان کی بنیاد "دو قومی نظریہ" پر رکھی گئی تھی ۔ اس نظریے کے بانی سر سید احمد خان تھے ۔ سر سید احمد خان کے قائم کردہ علی گڑھ کالج کے طالب علموں نے تحریک ِپاکستان میں انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں ۔ اس طرح مسلمانان ِ ہند کی آزادی میں سر سید احمد خان نے اہم کردار ادا کیا  تھا ۔

مظلوم انسانیت کے حق میں اٹھنے والی آوازیں

کچھ لوگوں کی نظر میں سب سے اہم شے انسانیت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ بغیر کسی مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی تفریق کے ، انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔ یہ لوگ واقعی عظیم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ بہادر بھی ہوتے ہیں  کہ گھٹن زدہ ماحول میں انسانیت کے حق میں آوازیں بلند کرتے ہیں ۔ دراصل انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ مظلوم چاہے اپنوں میں سے ہو، یا غیروں میں سے ۔۔مظلوم ، مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ ناانصافی ہے کہ اپنے مظلوم کے خلاف تو آواز بلند کی جائے ، لیکن جو اپنا مظلوم نہ ہو ، اس کو مظلوم ہی نہ سمجھا جائے ۔ اسی طرح اپنا ظالم ، ظالم نہ لگے ۔ لیکن دوسروں کے ظلم کی خوب تشہیر کی جائے ۔ بہت سے مظلوم سیاست کی آڑ میں ، ظلم کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور انھیں خبر ہی نہیں ہوتی ۔ سیاست ایک خونی کھیل ہے ۔ میرے خیال میں تاریخ ِ انسانیت میں جتنا ظلم سیاست کے نام پرہوا ، کسی اور نام پر نہیں ہوا ۔ بہر حال انسان پر ہونے والے ظلم کے خلاف جو آواز بھی بلند ہو ، ہمیں اس کو سراہنا چاہیے ۔ چاہے وہ آواز اپنے بلند کریں یا غیر ۔

بِاَىِّ ذَنبٍ قُتِلَتۡ

وطن ِ عزیز میں پے در پے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں ، جن کا ہماری تہذیب و تمدن سے نہ کوئی واسطہ ہے ، نہ ہمارے دین سے ان کا کوئی تعلق ہے ۔لگتا ہے ، عورت کی مظلومیت کا سلسلہ زمانہ ِ جاہلیت کی طرح آج بھی جاری و ساری ہے ۔یہ سلسلہ ابھی تک نہیں ٹوٹا ۔ نہ جانے یہ کب ٹوٹے گا ۔پے در پے وطن ِ عزیز میں تین ایسے واقعات پیش آچکے ہیں ، جن کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ یعنی لڑکیوں کو زندہ جلا دینے کے واقعات ۔ہم نے سنا ہے ، ماؤں کے سینوں میں اولاد کی محبت سے لبریز دل دھڑکتے ہیں ۔ مگر یہ کیا ہو رہا ہے کہ ایک ماں اپنی سترہ سالہ بیٹی کو زندہ جلادیتی ہے ۔ سنا ہے ، باپ سارا دن محنت ہی اس لیے کرتا ہے ، تاکہ اس کی اولاد پروان چڑھے ، ان کی اچھی تربیت ہوسکے اور ان کی تعلیم کا بندوبست ہوسکے ۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ ایک والد اپنی سگی بیٹی کو قتل کرکے خود کو پولیس کے حوالے کر رہا ہے ۔

لیاری والے

یہ کوئی چودہ پندرہ سال کا بچہ ہوگا ۔جو چند معزز مہمانوں کے سامنے انگریزی میں تقریر کر رہا تھا ۔ بچہ فر فر بول رہا تھا ۔ یوں لگتا تھا ، جیسے انگریزی اس کی مادری زبان ہے ۔ وہ علم کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا ۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو اس کے استاد نے دوبارہ تقریر کرنے کا حکم دیا  ۔ کیوں کہ اس کے استاد نے اس کی تقریر نہیں سنی تھی ۔ بچے نے دوبارہ تقریر کی ۔ لیکن تغیر و تبدل کے ساتھ ۔ جس سے واضح ہو گیا کہ بچہ کچھ حد تک فی البدیہہ تقریر کر رہا تھا ۔ اس نے کسی انگریزی کتاب یا کسی ویب سائٹ سے  سو فی صد تقریر نہیں رٹی تھی ۔ بلکہ بہت ساری باتیں اس کی اپنی تھیں ۔ بچے نے تقریر میں ولیم شیکسپئیر اور نیلسن منڈیلا کے اقوال بھی حاضرین کا بتائے ۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ بچے کا مطالعہ بھی وسیع ہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بچہ لیاری کے ایک غیر معروف پرائیویٹ اسکول میں جماعت ِ ہفتم کا طالب ِ علم ہے ۔

اسلام یا سکیولر ازم؟

بلجیم کا دارالحکومت برسلز دھماکوں سے لرز اٹھا ۔ نتیجے میں 37 ہلاک  اور 200 زخمی ہوئے ۔ برسلز کا شہر اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ نیٹو کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے  ۔ مبصر کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ دوسرا نائین الیون ثابت ہوگا ۔  ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ امت ِ مسلمہ پر رحم فرمائے ۔ آمین  14 اگست ہو یا 23 مارچ یا کوئی اور قومی دن ہو ، نظریاتی بحث میں الجھنا ہمارے دانش وروں کی عادت بن چکی ہے ۔ نظریاتی جنگ بھی بہت بڑی جنگ ہوتی ہے ۔ اس سے انسانوں کا خون تو نہیں بہتا ۔ البتہ نفرتیں ضرور پروان چڑھتی ہیں۔ہم کئی اقسام میں منقسم ہیں ۔ اس لیے آج کل ہمیں قوم نہیں ، بلکہ جتھا یا ریوڑ کہا جاتا ہے ۔ان دنوں فرقہ وارانہ بحث سے زیادہ "اسلام یا سکیولر ازم" پر بحث ہوتی ہے ۔