اشاعتیں

اگست, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

لیبیا۔۔۔قذافی کے بعد

بی بی سی کے مطابق، "اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے لیبیا میں جاری لڑائی کو فوری طور پر روکنے کی قراداد منظور کرتے ہوئے لیبیا کے حریف ملیشیا گروپوں کے درمیان تشدد کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف پابندی عائد کرنے کی تجویز دی ہے ۔ اقوام ِ متحد ہ کی سلامتی کونسل نے لیبیا کے ملیشیا گروپوں اور فوج کے دھڑوں  کے درمیان تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ سلامتی کونسل نے بدھ کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ، جس میں ان لوگوں اور گروہوں پر پابندی کی دھمکی دی گئی، جو لیبیا کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کر رہے ہیں یا سیاسی تبدیلی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد یا گروہوں کے کی جائداد فروخت کی جاسکتی ہے یا ان پر سفری پابندی عائد کی جا سکتی ہے ۔  "

نائن الیون سے داعش تک

11  ستمبر 2001 کو امریکا میں 4  فضائی حملے ہوئے ۔ ان میں سے دو حملےنیو یارک کی بلند وبالا عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہوئے ۔  ان حملوں کے نتیجے میں 2974 لوگ ہلاک ہوئے ۔ یہ سانحہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ سمجھا جاتا ہے ۔ امریکا نے ان حملوں کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹھہرایا ۔ 9/11 کے حادثات نے امریکا کو پورے عالم میں اپنی بالادستی قائم کرنے کا جواز فراہم کیا ۔ امریکا نے "وار آن ٹیرر" کی ابتدا کردی ۔ اس وقت صدر جاج بش کے غیض و غضب سے بھر پور آراء نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ جارج بش ایک موقع پر یہ بھی کہہ بیٹھے کہ جو ملک امریکی پالیسیوں کو سپورٹ نہیں کرے گا ، اس کے ساتھ امریکا اپنے دشمنوں جیسا سلوک کرے گا ۔ جارج بش کے اس طرح کے سخت احکامات کے سامنے سارے ملک دم بہ خود ہوگئے ۔ اس طرح جو ملک امریکا کی وار آن ٹیرر کے خلاف تھے ، وہ بھی اس کے حامی بن گئے ۔ 9/11 کے بعد دنیا کا جو ملک سب سے پہلے امریکی بربریت کا نشان بنا ، وہ افغانستان تھا ۔

مسلم امہ۔۔۔نا اتفاقی کی زد میں

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ نا اتفاقی ہے ۔ اگر ہم اس عفریت پر قابو پالیتے ہیں تو ہمارے سارے مسائل چٹکیوں میں حل ہو سکتے ہیں ۔ ورنہ ہم جہاں ہیں ، وہیں رہیں گے ۔ اکیسویں صدی کے مسلمان کئی قسم کی نا اتفاقیوں میں جی رہے ہیں ۔ کہیں وطنیت اس امت ِ مرحومہ کا شیرازہ بکھیر رہی ہے تو کہیں فرقہ واریت نے اس کا جینا عذاب کیا ہوا ہے ۔ کہیں عدم برداشت ہے تو کہیں متشددانہ نظریاتی اختلاف ۔ صورت حال گمبھیر سے گمبھیر  ہوتی جار ہی ہے ، مگر کوئی بھی اس امت ِ مرحومہ کی حالت ِ زار پر رحم کھانے کو تیار نہیں۔ ہر ایک نا اتفاقی کو بڑھاوا دینے کی ہمہ تن کوششوں میں مصروف ہے ۔ کفر اور گم راہی کے فتوؤں نے الگ سے قیامت برپا کر رکھی ہے ۔ امت کے ہر ہر ٹولے کا الگ الگ "نظریاتی پیمانہ " ہے ۔ جس کی مدد سے وہ دن رات ۔۔۔ دن رات کیا ، ساری زندگی ، مومن و کافر کا پتا لگانے میں لگا رہتا ہے ۔ جو نظریاتی سوچ پر پورا اترا ، وہ مومن ۔ جو ذرا سا ادھر ادھر ہوا ، وہ گم راہ اور کافر۔حسد کی آگ نے پوری مسلم امہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ تعصب ہے کہ تھمتا نہیں۔