اشاعتیں

میری شاعری لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مزدور

  شاعر: نعیم الرحمان شائق میں اک مزدور ہوں مجھے ہر روز میلوں کا سفر کر کے کسی صاحب کے ہاں کچھ کام ہوتے ہیں میں ان کاموں کی اجرت سے شکم بھرتا ہوں اپنا اور بچوں کا  

حسرت

  شاعر: نعیم الرحمان شائق جب اس کی یادوں کا نشہ مجھ پر چڑھتاہے دل میں لہر سی اٹھتی ہے چاہت کی لہر  

غزل

  شاعر: نعیم الرحمان شائق رات بھر جاگا ہوں اپنے شہر میں کیسےسوتا جلتے بجھتے شہر میں   میرے یارو ! گر یہی صورت رہی کون آئے گا ہمارے شہر میں؟  

غزل

تصویر
شاعر: نعیم الرحمان شائق جو ہونا ہے، وہ ہوکر ہی رہے گا اسی بستی سے اب طوفاں اٹھے گا   وہ انساں کیسے دنیا میں جیے گا جو اپنی آگ میں ہر دم جلے گا  

غزل

تصویر
  شاعر: نعیم الرحمان شائق اتنی نفرت تھی کب گھرانوں میں اتنی ظلمت تھی کب گھٹاؤں میں   موسمِ ہجر جب سے چھایا ہے زندگی ڈھل گئی عذابوں میں  

غزل

تصویر
  شاعر: نعیم الرحمان شائق کس سمت مری آنکھ لگی ہے دل فکرِ د و عالم سے بری ہے   سینے میں ترا درد نہاں ہے آنکھوں میں تری یاد بچھی ہے  

ادھوری محبت

  شاعر: نعیم الرحمان شائق ادھورا ہوں میں ادھوری ہے وہ ادھورے ہیں لوگ ادھورا سماج ادھورا ہے سب کچھ ادھوروں کے بیچ ادھوری محبت کے سائے میں ہم جی رہے ہیں فقط جی رہے ہیں !  

خود کلامی

  شاعر: نعیم الرحمان شائق " یہ جو شور اٹھا ہے مری روح میں کوئی لاش گری؟ یا دکھا ہے لہو؟ یا بجھی ہے وفا؟ یا ہوئی ہے جفا؟ " " کوئی بولے خدا را کوئی بول دے " " نہیں چپ ہی رہو یونہی چپ ہی رہو مری بات سنو مرے دل میں نہاں سبھی راز سنو یونہی چپ ہی رہو مرا درد سنو، مری آہ سنو مرا عشق سنو، مری چاہ سنو یونہی چپ ہی رہو "  

غزل

  وہ نشہ پھر نہیں چھایا، بڑی مدت ہوئی ساقی! کسی نے پھر نہیں چاہا ، بڑی مدت ہوئی ساقی!   ڈبویا ساری خلقت کو کسی سفاک طوفاں نے کوئی پھر بھی نہیں جاگا، بڑی مدت ہو ئی ساقی!   ابھی تک عطر افشاں میرے رستے، میری گلیاں ہیں کوئی اس اور آیا تھا، بڑی مدت ہوئی ساقی!   نہ پھوٹا عقلِ حیراں سے، نہ اُبلا قلبِ انساں سے کوئی افکار کا دھارا، بڑی مدت ہوئی ساقی!   اگر چہ علم کے چرچے ہیں عالم میں مگر پھر بھی نہیں اٹھاکوئی دانا، بڑی مدت ہوئی ساقی!                                                                         شاعر: نعیم الرحمان شائق

نامِ احمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

  نام ِاحمد قلم سے ہوا کیا ادا روشنی چھا گئی، ظلمتیں چھٹ گئیں، قلبِ مضطر کو تسکیں ملی