شاعر: نعیم الرحمان شائق میں اک مزدور ہوں مجھے ہر روز میلوں کا سفر کر کے کسی صاحب کے ہاں کچھ کام ہوتے ہیں میں ان کاموں کی اجرت سے شکم بھرتا ہوں اپنا اور بچوں کا
شاعر: نعیم الرحمان شائق ادھورا ہوں میں ادھوری ہے وہ ادھورے ہیں لوگ ادھورا سماج ادھورا ہے سب کچھ ادھوروں کے بیچ ادھوری محبت کے سائے میں ہم جی رہے ہیں فقط جی رہے ہیں !
شاعر: نعیم الرحمان شائق " یہ جو شور اٹھا ہے مری روح میں کوئی لاش گری؟ یا دکھا ہے لہو؟ یا بجھی ہے وفا؟ یا ہوئی ہے جفا؟ " " کوئی بولے خدا را کوئی بول دے " " نہیں چپ ہی رہو یونہی چپ ہی رہو مری بات سنو مرے دل میں نہاں سبھی راز سنو یونہی چپ ہی رہو مرا درد سنو، مری آہ سنو مرا عشق سنو، مری چاہ سنو یونہی چپ ہی رہو "
وہ نشہ پھر نہیں چھایا، بڑی مدت ہوئی ساقی! کسی نے پھر نہیں چاہا ، بڑی مدت ہوئی ساقی! ڈبویا ساری خلقت کو کسی سفاک طوفاں نے کوئی پھر بھی نہیں جاگا، بڑی مدت ہو ئی ساقی! ابھی تک عطر افشاں میرے رستے، میری گلیاں ہیں کوئی اس اور آیا تھا، بڑی مدت ہوئی ساقی! نہ پھوٹا عقلِ حیراں سے، نہ اُبلا قلبِ انساں سے کوئی افکار کا دھارا، بڑی مدت ہوئی ساقی! اگر چہ علم کے چرچے ہیں عالم میں مگر پھر بھی نہیں اٹھاکوئی دانا، بڑی مدت ہوئی ساقی! شاعر: نعیم الرحمان شائق