اشاعتیں

مارچ, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

بانو قدسیہ کے اقوال

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق میرے پیارے دوست شائف راشد حسین لکھتے ہیں: "بابا اشفاق احمد اور آپا بانو قدسیہ جب ایک دوسرے کی زوجیت میں بندھ گئے تب سے لیکر بابا کے انتقال یعنی جب تک دونوں حیات رہے ایک دوسرے کے سچے رفیق اور ساتھی رہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ ایک قدامت پسند بلکہ قدامت پرست بابا نے اپنی زوجہ کو پوری آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جس سے چاہے ملے، جیسا چاہے پہنے اور جو سمجھ آئے لکھے۔ ہمیشہ بانو قدسیہ صاحبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایک پڑھی لکھی، زمانے کے ساتھ قدم بقدم چلنے کاعزم رکھنے والی بانو قدسیہ بھی اشفاق احمد کی اسیر رہیں مگر وہ جانتی تھیں    کہ اس دیو قامت شخصیت والے بابا کو کیسے اپنا داس بنائے رکھنا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ ایک دفعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک ادبی محفل کے اختتام پر جب لوگ اٹھ کر جانے لگے، میں اور بانو آپا باتیں کرتے آگے آگے چلتے ہوئے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ دہلیز پر پہنچ کر آپا رک گئی اور مڑ کر اشفاق صاحب کو دیکھنے لگی۔ میں نے بانو آپا سے کہا "آپا چلیں۔ " وہ بولیں کہ "خان صاحب مصروف ہیں۔ وہ پہلے نکلیں گے، پھر میں۔ "

جب فرقہ واریت یہاں تک پہنچ جائے۔۔۔۔

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق فیض احمد فیض نے کہا تھا: جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے دل پہ گزری ہوئی کورقم کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔ پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں، پرانےزخم ہرے ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے ماضی میں کھوجاتا ہے۔ مگر: یاد ِ ماضی عذاب ہےیارب! چھین لے مجھ سے حافظہ میرا میں تمہید کو طول دے کر آپ کی بوریت کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ آج کی میری تحریر دراصل میری یادوں کے ایلبم کی ایک تصویر ہے، جسے میں لفظی جامہ پہنا کر آپ کی نذر کر رہا ہوں۔  

غزل

  شاعر: نعیم الرحمان شائق رات بھر جاگا ہوں اپنے شہر میں کیسےسوتا جلتے بجھتے شہر میں   میرے یارو ! گر یہی صورت رہی کون آئے گا ہمارے شہر میں؟  

غزل

تصویر
شاعر: نعیم الرحمان شائق جو ہونا ہے، وہ ہوکر ہی رہے گا اسی بستی سے اب طوفاں اٹھے گا   وہ انساں کیسے دنیا میں جیے گا جو اپنی آگ میں ہر دم جلے گا  

نو عادتیں جن کو چھوڑ دینا چاہیے

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق   ) میری   یہ تحریر 21 ستمبر 2014ء کو "ہماری ویب" پر شائع ہوئی تھی۔ پچھلے دنوں میں مذکورہ ویب سائٹ پر اپنی تحریریں دیکھ رہا تھا۔ یہ تحریر دیکھی تو بھلی اور مفید محسوس ہوئی۔ اس لیے اسے اپنے بلاگ کی زینت بنا رہا ہوں۔ چوں کہ یہ تحریر  چند سال پرانی ہے، لہٰذ مِن و عن تحریر نہیں کر رہا،بلکہ کسی حد تک ترمیم کر کے لکھ رہا ہوں۔ (     کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ تحریر معلوماتی ہو ۔ اور وہ معلومات سود مند بھی ہوں ۔ اصلاح اسی کا نام ہے ۔ یاد رکھیے کہ اصلاح پر کسی جماعت یا قوم کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ ہر وہ شخص جو اچھی باتیں سامنے لاتا ہے ، مصلح ہے ۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ یوں ہر شخص اپنے اپنے دائرہ ِ کار میں رہتے ہوئے یہ فرض انجام دے سکتا ہے ۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اچھی بات جو بھی کرے ، سن لینی چاہیے ۔ پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے ۔ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ بات کس نے کہی ہے ۔ اس کا کس مذہب ، ملک یا قوم سے تعلق ہے ۔ بہ صورت ِ دیگر اصلاح کا عمل رک جائے گا ۔

غزل

تصویر
  شاعر: نعیم الرحمان شائق اتنی نفرت تھی کب گھرانوں میں اتنی ظلمت تھی کب گھٹاؤں میں   موسمِ ہجر جب سے چھایا ہے زندگی ڈھل گئی عذابوں میں  

غزل

تصویر
  شاعر: نعیم الرحمان شائق کس سمت مری آنکھ لگی ہے دل فکرِ د و عالم سے بری ہے   سینے میں ترا درد نہاں ہے آنکھوں میں تری یاد بچھی ہے  

ادھوری محبت

  شاعر: نعیم الرحمان شائق ادھورا ہوں میں ادھوری ہے وہ ادھورے ہیں لوگ ادھورا سماج ادھورا ہے سب کچھ ادھوروں کے بیچ ادھوری محبت کے سائے میں ہم جی رہے ہیں فقط جی رہے ہیں !  

خود کلامی

  شاعر: نعیم الرحمان شائق " یہ جو شور اٹھا ہے مری روح میں کوئی لاش گری؟ یا دکھا ہے لہو؟ یا بجھی ہے وفا؟ یا ہوئی ہے جفا؟ " " کوئی بولے خدا را کوئی بول دے " " نہیں چپ ہی رہو یونہی چپ ہی رہو مری بات سنو مرے دل میں نہاں سبھی راز سنو یونہی چپ ہی رہو مرا درد سنو، مری آہ سنو مرا عشق سنو، مری چاہ سنو یونہی چپ ہی رہو "  

خود کشی کرنے والے اردو شعرا

تصویر
نعیم الرحمان شائق جب انسان زندگی سے بہت زیادہ مایوس ہوجاتا ہے تو وہ حیات پر موت کو ترجیح دے دیتا ہے۔ ظاہر ہے، جب زندگی کے رنگ پھیکے پڑجائیں تو جینے کا کیا فائدہ۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو زندگی سے نفرت ہو جاتی ہے تو وہ   بھی موت کو گلےلگا لیتے ہیں۔