اشاعتیں

جون, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنان ِ بہشت !

اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنانِ بہشت ! میرے دامن میں ایسا کچھ نہیں ہے ، جو میں تمھاری نذر کر سکوں ۔ سوائے چند الفاظ کے ۔ میں کوئی سیاست دان نہیں ، جو بیان بازیاں کروں ۔ کوئی سکہ بند شاعر نہیں جو قافیوں پر قافیے ملا کر تمھارے لیے کوئی مرثیہ نظم کروں ۔ فقیہ ِ وقت نہیں کہ فتوے رقم کروں ۔ واعظ ِ شہر نہیں کہ تمھاری مدح میں وعظ کر کے خلقت کا دل لبھا سکوں ۔ میں ایک چھوٹا سا قلم کار ہوں۔ سو میری آج کی  تحریر کے سارے الفاظ تمھارے لیے وقف ہیں ۔ اسے تم میرے دل کی آواز کہو یا اپنے لیے خراج ِ عقیدت ۔ یہ تم پر انحصار کرتا ہے ۔ 

نریندر مودی کا فون اور مسئلہ ِ کشمیر

پچھلے دنوں بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کیا ۔ انھوں نے وزیر ِ اعظم نواز شریف کو رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد دی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستانی مچھیروں کی رہائی کی  نوید بھی سنائی ۔ دونوں رہنماؤں نے  متانازعہ بیانات نہ دینے پر اتفاق کیا ۔ یہ گفتگو پانچ منٹ تک جاری رہی ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نے اس گفتگو میں کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ۔ اس موقع پر پاکستانی وزیر ِ اعظم نے  اپنےبھارتی ہم منصب کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ اور اختلافات کی بہ جائے امن و محبت کی طرف جانا چاہیے ۔ تاکہ دونوں ملکوں کے عوام اپنے لیڈروں کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں ۔ قوموں کے حکم ران گھر کے سربراہ کی طر ح ہوتے ہیں ، جو اپنے خاندان کو لڑائی جھگڑوں سے بچا کر امن کی طرف لے جاتے ہیں اور ہر آفت سے ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں کنبے کی فلاح ہر حال میں مقدم ہوتی ہے۔ 

"بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی "

اگر آپ کے سامنے کوئی اس بات کا اعتراف کر لے کہ آپ کے وطن کو برسوں پہلے دو لخت کرنے میں ہمارا ہاتھ تھا تو آپ کو یقینا بہت دکھ ہوگا ۔ حب الوطنی اسی کا نام ہے ۔ پھر اگر یہ بات کرنے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ ایک پورے اسٹیٹ کا وزیر ِ اعظم ہو تو آپ اور زیادہ تاسف کا اظہار کریں گے ۔ افسوس کے ساتھ ساتھ آپ کو غصہ بھی آئے گا ۔ یعنی آپ غم اور غصے دونوں میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی کیفیت سے دوچار اس وقت ہمارے ملک کے باشندے ہیں ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کے  پاکستان مخالف بیان کے بعد پاکستان کے عام اور خاص دونوں طبقے کے لوگ  بہت زیادہ  غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اب بھارت پر حملے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح بھارت  کے وزیر ِ اعظم نے  تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا اعتراف کیا ہے ، بالکل اسی طرح پاکستان کے وزیر ِ اعظم کو بھی دو ٹوک بات کرنی چاہیے ۔ انھیں کسی  طرح کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔دوسرے الفاظ میں وزیر ِ اعظم کا  مصلحت سے عاری اور جذباتی ردِ عمل فی الواقع عوام کا حقیقی ترجمانی ہوگی ۔ 

مسلم دنیا کا ایک دکھتا نا سور

3 مارچ، 1924 ء ۔۔ یہ وہ دن ہے ،جس دن ترکی میں خلافت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ خلافت کے خاتمے میں اپنوں اور غیروں ، دونوں کا ہاتھ تھا ۔ خلافت متحرک نہیں تھی ۔ خلافت کے جسم میں وہ طاقت ختم ہو گئی تھی ، جو مسلمانان ِ عالم کے مسائل حل کر سکتی ہو ۔ ترکی میں قائم خلافت سے کوئی خوش نہیں تھا ۔ انگریز بر صغیر پر چڑھ دوڑے ۔ وہاں کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے کردی ۔ مظالم کی انتہا کر دی ۔ مگر ترکی میں صدیوں سے قائم خلافت مسلمانان ِ بر صغیر کے لیے کچھ کام نہ آئی ۔دوسری طرف عرب بھی ترکی خلافت سے سخت نالاں تھا ۔ انھوں نےپہلی جنگ ِ عظیم کے دوران  ترکی کے خلاف بغاوت کر دی ۔