اشاعتیں

جنوری, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

غربت کی ایک بڑی وجہ اور اس کا سد ِ باب

ان دنوں سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان  'مک مکا ' کا میچ جاری ہے۔ جب کہ خیبر پختون خوا کی حکومت اس میچ کے انجام کی بڑی شدت سے منتظر ہے ۔ ہمارے وفاقی وزیر ِ داخلہ پچھلے کچھ دنوں سے بیمار تھے ۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا بر ملا اظہار کر دیا کہ قائد ِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاقی حکومت سے مک مکا کیا تھا ۔ دوسری طرف ہمارے قائد ِ حزب اختلاف بھی بڑی جوشیلی طبیعت کے مالک ہیں ۔ انھوں نے چوہدری صاحب کو وزیر ِ اعظم کے آستینوں کے سانپوں میں سے ایک سانپ کہہ دیا ۔ تیسری طرف خان صاحب کو موقع مل گیا ۔ انھوں نے مک مکا کی قیمت کی  بابت دریافت کر لیا ۔انھوں نے سوال کر دیا کہ حکومت نے خورشید شاہ کو خریدنے کے لیے کتنی قیمت ادا کی ؟بہر حال ایک عجیب تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ تناؤ دو طرفہ نہیں ، سہ طرفہ ہے ۔ 'مک مکا' فی الوقت پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے ۔ کالم نگار کی حیثیت سے مجھے بھی حالات ِ حاظرہ  کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے 'مک مکا' پر لکھنا چاہیے ۔ لیکن اس ساری صورت حال کے باوجود میں جان بوجھ کر آج کے کالم میں کوئی اور موضوع اٹھا رہا ہوں

سانحہ ِ چار سدہ ۔۔۔۔ دورہ ِ عرب و ایران

سو فی صد توجہ اس طرف مر تکز تھی کہ اس بار وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ ِ عرب و ایران پر لکھوں گا ۔ لیکن کیا کروں  اس خزاں رت کا ۔۔۔ جو وطن ِ عزیز میں  بہار کو پنپنے ہی نہیں دیتی ۔ کیا کروں اس حادثے کا ۔۔۔جس نے پوری قوم کو سوگ وار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سو آج کی میری تحریر دو موضوعات پر مشتمل ہوگی ۔ یعنی سانحہ ِ چارہ سدہ اور اور وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کا دورہ ِ عرب و ایران۔ بدھ کی صبح نو بجے چار مسلح لوگ پشاور کے ضلع چار سدہ میں با چا خان یو نی ورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی ۔ جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 لوگ شہید ہوگئے ہیں ۔ ان 21 شہیدوں میں سے 19 طلبہ تھے ۔ ایک لیب اسسٹنٹ تھا اور ایک پروفیسر تھے ۔

شام میں ظلم کی شام کب ڈھلے گی؟

شام ، جہاں پچھلے کئی سالوں سے موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ، نہ جانے وہاں کب ظلم کی شام ڈھلے گی ۔ جتنے منھ ہیں ، اتنی باتیں ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ،بڑی طاقتیں روس اور امریکا یہ جنگ کر وارہی ہیں ، تاکہ ان کا اسلحہ بک سکے ۔ کوئی کہتا ہے ، یہ شیعہ سنی قضیہ ہے ۔  کوئی کہتا ہے ، یہ عرب و عجم کی لڑائی ہے ۔ کوئی کیا کہتا ہے ، اور کوئی کیا ۔  جو کچھ بھی ہے ، ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ ان بد نصیبوں پر جو ظلم کی کالی رات چھائی ہوئی ہو ، جلد از جلدامن و سلامتی کی سحر میں تبدیل ہو جائے ۔ امت ِ مرحومہ کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔ پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسائل تھے ۔ اب شام کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی ، ایران کا مسئلہ بھی  خطرناک صورت حال پیش کر رہا ہے ۔ جب تک مسلم امہ نا اتفاقی کا شکار رہے گی ، اس کے مسائل بڑھتے جائیں گے ۔ 

ڈی ایف اے ساؤتھ کی مثبت پیش رفت

کسی پس ماندہ علاقے سے مثبت خبر آئے تو اس کی ضرور تشہیر کرنی چاہیے ۔ غریب کی بستی میں روٹی تقسیم ہورہی ہو تو خوب ڈھنڈورا پیٹنا چاہیے ۔ جہاں سے ہر وقت منفیت کی گونج سنائی دے ، اگر وہاں سے اثبا ت کی تھوڑی سی مہک بھی محسوس ہو ، اسی وقت سارے عالم کو بتا دینا چاہیے ۔ تاکہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو ، جو یہ کار  ہائے خیر سر انجام دے رہے ہوں ۔ ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی مثبت خبر کو موضوع ِ سخن بناؤں ، لیکن یہ کوشش ہمیشہ نہیں تو اکثر اکارت جاتی ہے ۔ اب تو ہمارے لوگ بھی ایسے موضوعات پسند کرنے لگے ہیں ، جن میں مہنگائی کا رونا ہو ، غربت کی دہائی ہو ، لاشوں کے سانحے ہوں ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا مصالحہ ہو  یا ان موضوعات سے ملتا جلتا کوئی موضوع ہو ۔