اشاعتیں

فروری, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

تعلیم اور ہم

کسی بھی قوم میں تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اقوام ِمغرب کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ تعلیم ہے ۔ تعلیم شعور و آگہی بخشتی ہے ۔ یہ تعلیم ہی ہے ، جس کے بل بوتے پر آج انسان کی رسائی چاند تک ہو چکی ہے ۔انسان اپنے سیارے یعنی زمین کو تو مسخر کر ہی چکا ہے ، لیکن اب دوسرے سیاروں پر بھی کمندیں ڈالنے کو ہے ۔ میں تعلیم اور علم کے مابین فرق کا قائل نہیں ہوں ۔  دونوں کو ایک ہی چیز سمجھتا ہوں ۔تعلیم یا علم ہر بچے کا بنیادی حق ہے ، جو اسے ضرور ملنا چاہیے ۔ 

امریکا اور مسلم دنیا

امریکی صدر نے دنیا کو باور کرایا کہ مغرب اور اسلام میں جنگ کو تائثر سفید جھوٹ ہے ۔ دنیا پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ناسور کے خلاف متحد ہے ۔ بین الاقوامی برادری دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں غیر متزلزل عزم کا اظہار کرے ۔ جہادی یہ غلط تائثر پیش کر رہے ہیں کہ یہ تہذیبوں کے درمیان لڑائی ہے ۔ مگر یہ بات کھلی دروغ گوئی ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف صف آراء ہے ۔ بغیر کسی مذہبی تفریق کے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس تائثر کو مسترد کریں ۔ ہم اسلام کے خلاف لڑائی نہیں کر رہے ، ہم ان عناصر سے لڑ رہے ہیں ، جنھوں نے اسلام کو مسخ کیا ہے ۔ 

دو منفی خبریں

پھر وہی خون ۔ پھر وہی لہو زدہ تحریر ۔ سمجھ نہیں آتا ، کب تک ایسی تحریریں لکھنے کی نوبت آتی رہے گی ۔ ذہن ماؤف ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عنقا ہے ۔ بے ربط سے جملے دماغ پر مسلط ہیں ۔ پس وہی زیر ِ قلم ہیں ۔پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا ہے ۔ آرمی پبلک اسکول کے بعد دوسرا بڑا حملہ ، جو اس شہر میں وقوع پزیر ہوا ۔ ہر ہفتے سوچتا ہوں ، کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ مگر کیوں کر ؟ جہاں پشاور ایسے سانحات منہ چڑا رہے ہوں ، وہاں کیسے مثبت موضوعات پر لکھا جا سکتا ہے ؟

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

5 فروری آیا اور چلا گیا ۔یہ ہر سال آتا ہے ۔ اہلیان ِ پاکستان کو سوگ وار کرتا ہے ۔ پھر چلا جاتا ہے ۔ اس دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ کشمیری بھائیوں سے اظہار ِ یک جہتی کے لیے  جلوس نکلتے ہیں ۔ "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے بازی ہوتی ہے ۔ ایوان ِ بالا و زیریں میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں ۔ سیاست دان ایوانوں میں ، عوام سڑکوں پر جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ زبان ِ قال و حال سے کہا جاتا ہے : "ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔"جارحانہ بیان بازی ہوتی ہے ۔یہ دن 1990ء سے منایا جا رہا ہے ۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا، اس دن کا مشاہدہ کر رہا ہوں ۔ یہی کچھ دیکھ رہا ہوں ، جو اوپر بیان کیا ۔ 

پھر ایک سانحہ ِ خوں چکاں

پھر ایک سانحہ ِ خوں چکاں ہو گیا ۔ پھر ایک بار معصوم انسانیت کا قتل ِ عام کیا گیا ۔ نماز ِ جمعہ کا احترام بھی ملحوظ نہ رکھا گیا ۔ اب بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اُ ن کا تعلق مذہب سے ہے تو خام خیالی ہے ۔ابھی تک پشاور کا سانحہ ذہن سے محو نہیں ہوا ۔ ایک اور سانحے نے مغموم کر دیا ۔ اس دفعہ اُ ن کا نشانہ سندھ دھرتی کا ایک گم نام علاقہ بنا ۔ علاقے کا نام لکھی در ہے اور ضلع شکار پور ۔ امام صاحب نے ، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ،خطبہ ِ جمعہ ختم کیا ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکا ہوا  اور امام بارگا ہ کی چھت زمین بوس ہو گئی ۔