اشاعتیں

جولائی, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

فیس بک سے پیسے کمانے کے چار طریقے

تصویر
کیا فیس بک کے ذریعے پیسے کمائے جا سکتے ہیں ؟اس سوال کا جواب ہے :جی ہاں ۔فیس بک کے عملے نے اب تک بذات خود کوئی ایسا طریقہ وضع نہیں کیا ، جس کے ذریعے اس کے صارفین کسی حد تک کچھ نہ کچھ کما سکیں ۔ اس کے باوجود چند ایسے طریقے ہیں ، جس کے ذریعے اس عظیم ویب سائٹ سے پیسے کمائے جاسکتے ہیں ۔ یہ طریقے مشکل نہیں ہیں ، لیکن محنت طلب ہیں ۔ ابتدا میں بے حد محنت کرنی پڑے گی ۔ بعد میں آسانیاں ہوتی جائیں گی ۔

انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کمانے کے چار بنیادی اصول

تصویر
 انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کمانے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں پیسے کمانا اتنا آسان نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں ابتدا ہوئی ، وہاں ڈالروں کی بھرمار شروع ہوگئی ۔ یہاں بڑی محنت اور تگ ودو کرنی پڑتی ہے ۔ تب جا کر کچھ نہ کچھ ملتا ہے ۔ دراصل ہمارے عوام بڑے سادہ ہیں ۔ جب وہ انٹرنیٹ اور اخبارات میں آن لائن کمائی والے اشتہارات ، جن میں سے اکثر میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے ، دیکھتے ہیں  تو ان کا جی للچااٹھتا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں، یہاں پیسے کمانا بہ نسبت دوسرے ذرائع کے بڑا آسان ہے ۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہوتا ۔

اردو کی بیس عام غلطیاں

تصویر
            اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ اس کی حفاظت اور درست اشاعت ہماری ذمہ داری ہے ۔پاکستان کے حالیہ آئین کی دفعہ 251 اردو کی اہمیت واضح کرتی ہے ۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔ حالیہ آئین 1973ء میں نافذ ہوا تھا ۔ اب 2017ء چل رہا ہے ، مگر اب تک صحیح معنوں میں اردو زبان رائج نہ ہو سکی ۔

انگریز بچوں کو ابتدائی تعلیم کیسے دیتے ہیں؟

تصویر
جب والدین بچوں کو اسکول میں داخل کرتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی سیکھے ۔ اچھا استا د وہ ہوتا ہے ، جو بچے کی تعلیم اور تربیت دونوں پر توجہ دیتا ہے ۔ بچے کی تربیت میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے ۔ استاد کا کردار دوسرا درجہ رکھتا ہے ۔ اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار بحسن و خوبی سر انجام دینا چاہیے ۔

چند خیالات

تصویر
بچپن میں ہم سے پوچھا جاتا تھا: عقل بڑی ہوتی ہے یا بھینس؟ ہم کہتے تھے: بھینس پوچھنے والے بزرگ ہمیں بتاتے تھے : دکھنے میں بھینس بڑی ہوتی ہے ، سوچنے میں عقل بڑی ہوتی ہے۔ اس وقت ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی ، لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، شعور کو پختگی ملتی گئی ۔ اب سمجھ آیا کہ بزرگ صحیح کہتے تھے ۔ انسانی ذہن بہت وسیع ہوتا ہے ۔ اس میں ہر لمحے طرح طرح کے خیالات ابلتے رہتے ہیں ۔ کچھ خیالات اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ ان پر قوموں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں ۔کچھ خیالات انسان کے کردار کے تعمیر میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔کچھ الفاظ اتنے میٹھے ہوتے ہیں کہ ان کو باربار چکھنے کو جی چاہتا ہے ۔ سیاہ رنگ میں لکھے ہوئے ان الفاظ میں چھپے رنگا رنگ خیالات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ ان سے روشنی لینی چاہیے ۔

اور اس بار میرا بہاولپور۔۔۔

تصویر
اور اس بار میرا بہاولپور بدقسمت نصیب کی نذر ہو گیا ۔ ڈیرھ سو سے زائد لوگ زندہ جل گئے ۔ سو سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے ۔ واقعہ چھبیس جون کا ہے ۔ یعنی عید سے ایک دن پہلے کا۔جب پاکستان کے عوام عید کے چاند کا انتظار کر رہے تھے اور خوش تھے کہ کل عید ہوگی ، کیوں کہ سعودی عرب میں عید تھی ۔جب سعودی عرب میں عید ہوتی ہے تو دوسرے دن ہماری عید ہوتی ہے ۔ لیکن اس سانحے کے بعد ہماری خوشیوں پر بڑی حد تک اوس پڑ گئی ۔ ان حرماں نصیبوں نے کس طرح عید منائی ہوگی ، جن کے عزیز واقارب زندہ جل گئے !