چند خیالات

بچپن میں ہم سے پوچھا جاتا تھا: عقل بڑی ہوتی ہے یا بھینس؟
ہم کہتے تھے: بھینس
پوچھنے والے بزرگ ہمیں بتاتے تھے : دکھنے میں بھینس بڑی ہوتی ہے ، سوچنے میں عقل بڑی ہوتی ہے۔
اس وقت ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی ، لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، شعور کو پختگی ملتی گئی ۔ اب سمجھ آیا کہ بزرگ صحیح کہتے تھے ۔ انسانی ذہن بہت وسیع ہوتا ہے ۔ اس میں ہر لمحے طرح طرح کے خیالات ابلتے رہتے ہیں ۔ کچھ خیالات اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ ان پر قوموں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں ۔کچھ خیالات انسان کے کردار کے تعمیر میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔کچھ الفاظ اتنے میٹھے ہوتے ہیں کہ ان کو باربار چکھنے کو جی چاہتا ہے ۔ سیاہ رنگ میں لکھے ہوئے ان الفاظ میں چھپے رنگا رنگ خیالات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ ان سے روشنی لینی چاہیے ۔

          ہرانسان کی طرح میرے ذہن میں بھی کئی خیالات آتے ہیں ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ ان خیالات میں سے اچھے خیالات کو کشید کرکے دوسروں تک پہنچاؤں ۔ کیوں کہ دوسروں تک اچھی بات پہنچانا نیکی ہے ۔ نیکی کی قدر اس دنیا میں کم ہوتی ہے ۔ آنکھ بند ہونے کے بعد معلوم ہوگا کہ نیکی کس قدر قیمتی چیز ہوتی ہے ۔



          میں نے اپنے اچھے خیالات کو فیس بک کے ذریعے دوسروں تک پہنچایا ۔ آج اپنی فیس بک دیکھنے کا اتفاق ہوا تو یہاں کئی خیالات بکھرے ہوئے ملے ۔ دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ، انھیں ایک جگہ جمع کر دیا جائے ۔ سوان میں سے چند نذر ِ قارئین ہیں ۔

٭ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ لوگوں پر احسان کیا جائے ۔
٭انسان خلوص کے ساتھ اولین قدم اٹھائے تو آگے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کی ہم سفر بن جاتی ہے ۔
٭جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں ، وہ دیر تک جیتے ہیں ۔
٭تاریخ جتنی پرانی ہوتی جاتی ہے ، دلچسپ ہوتی جاتی ہے ۔
٭لکھنے سے زیادہ مشکل یہ سوچنا ہوتا ہے کہ کیا لکھا جائے ۔
٭کچھ بولنے سے پہلے کم سے کم ایک بار یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم کیا بولنے والے ہیں ۔
٭ذمہ داریاں انسان کو سنجیدہ بنا دیتی ہیں ۔
٭لا دینیت کا مقابلہ دماغ سے زیادہ دل سے کرنے کی ضرورت ہے ۔
٭اللہ کا سچا ولی ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیتا ہے ۔ تبھی تو وہ ہر خوف اور حزن سے بے نیاز ہوتا ہے۔
٭انبیاء اکرام علیہم السلام نے دماغوں پر نہیں ، دلوں پر محنت کی تھی ۔
٭عقیدے اور عقیدت کا مذاق اڑانا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہے ۔ 
٭کچھ لوگ گھریلو زندگی پر پیشورانہ زندگی کو ترجیح دے دیتے ہیں ۔ پس یہیں سے بدمزگی کا آغاز ہو جاتا ہے ۔
٭بے شک آدمی اپنے اخلاق اور کردار سے پہچانا جاتا ہے ۔
٭ہمیں افراط و تفریط کی نہیں ، اعتدال کی ضرورت ہے ۔ ویسے بھی ہم 'امت ِ وسط' ہیں ۔
٭انسان کو دوسروں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کی بھی فکر کرنی چاہیے ۔
٭تکبر کا علاج یہ ہے کہ انسان چند ایسے معمولی کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دے دے، جن کو وہ اپنے شایان ِ شاں نہ سمجھتا ہو ۔ 
٭کون سی بات کب کہنی ہے؟ کاش، ہمیں یہ فن آجائے !
٭ہم دوسروں کی خوبیوں سے زیادہ خامیاں دیکھنے کے عادی ہیں ۔
٭کچھ لوگ خوب صورت نہیں ہوتے ، مگر ان کی خوب سیرتی انھیں زمانے بھر کی ممتاز شخصیت بنادیتی ہے ۔
٭یہ قول و فعل کے تضاد کا شاخسانہ ہے کہ ہماری نصیحتیں ، ہمارا وعظ ، ہمارا خدا کی طرف بلانا ، ہماری قرآنی نصائح سے بھر پور تقریر کچھ اثر نہیں کرتی، ذرا بھی رنگ نہیں لاتی۔
٭اگر ہمارے دلوں میں پنہاں بغض کو خدا قوت ِ گویائی عطا کر دیتا تو نہ جانے ہر روز کتنی قیامتیں برپا ہوتیں !!
٭انسان کو پہلی نظر میں کسی کے بارے میں بد ظنی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کو پہلی نظر میں بھانپ کر اس کے بارے میں برے سے برے تخمینے لگانے شروع کر دیتے ہیں ۔ حالاں کہ وہ ایک اچھا انسان ہوتا ہے ۔ یہ ہمیں اس وقت معلوم ہوتا ہے ، جب ہم اس شخص سے ملتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں ۔
٭مقام ِ شکر کے حصول کے لیے اپنے سے کم تر لوگوں پر نظر کیجیے ۔۔ ہمیشہ اپنے سے برتر لوگوں پر نظر کرنے سے نا شکرے پن کے جذبات ابھرتے ہیں ۔
٭جب نیند نہ آئے تو دل کی گہرائیوں سے اللہ کو یاد کیجیے ۔ یعنی ذکر اللہ کیجیے ۔
٭جب بھی اداس ہوں تو دل کی گہرائیوں سے درود ِ پاک کی ورد کیجیے ۔
٭جب مقدار بڑھتی ہے تو معیار کم ہو جاتا ہے ۔
٭سو فی صد سچے خلوص کے ساتھ کام کرنے سے ہی قبولیت اور مقبولیت کے در وا ہوتے ہیں ۔۔ رب تعالیٰ کے ہاں وہ کام قبولیت حاصل کر لیتا ہے اور انسانوں کے ہاں مقبولیت ۔
٭تکبر اور غصہ انسان کو پاگل کر دیتے ہیں ۔
٭دل و دماغ سے کدورت نکل جائے تو چہرہ ہمہ وقت خوشی سے تمتماتا رہتا ہے ۔
٭جب دل و دماغ دنیا کی محبتوں سے بھر جائیں ، تو انسان، زندگی کا شدید حریص اور موت سے سخت خائف ہوجاتا ہے ۔
٭خدا تعالیٰ سے رزق میں کثرت نہیں ، برکت مانگنی چاہیے ۔۔
٭روحانیت اور خلوص کی خوش بو سے معطر عبادت ہی سچی خوشی اور سچا سکون بخشتی ہے ۔
٭جب طنز و مزاح ذاتیات تک پہنچ جائے ، تو نفرت کے الاؤ روشن ہوتے ہیں ۔۔ خدا ایسے طنز و مزاح سے ہم سب کو محفوظ رکھے ۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے