بچوں کو پڑھانے کےچار بنیادی طریقے

 تحریر: نعیم الرّحمان شائق

ایک استاذ کو پڑھاتے ہوئے مختلف قسم کی  حکمت عملیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ ایک جماعت میں مختلف قسم کے بچے ہوتے ہیں۔ جماعت میں موجود ہر بچے کی ذہانت کا معیار ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ بچے بات کو بہت جلد سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ بچے جلدی نہیں سمجھتے۔ اچھا استاذ وہ ہوتا ہے، جو بچوں کو سمجھانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔ اگر بچوں کو ایک طریقے سے بات سمجھ میں نہیں آتی تو وہ دوسرا طریقہ اختیار کرکے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔

 


ماہرین ِ تعلیم نے بچوں کو پڑھانے کے مختلف طریقے وضع کیے ہیں۔ ان کو "تدریسی مقولے" کہا جاتا ہے۔ویسے تو بہت سارے تدریسی مقولے ہیں، لیکن ان میں سے چار بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ آسان سے طریقے ہیں، جن کو ہر استاذ اپنی جماعت میں عمل میں لا سکتا ہے۔ ایک استاذ کو ان بنیادی  تدریسی مقولوں کے بارے میں ضرور معلوم ہونا چاہیے، تاکہ اسے پڑھانے میں آسانی ہو۔ واضح رہے کہ یہ طریقے ابتدائی جماعت کے بچوں کے لیے ہیں۔

 

آئیے ان تدریسی مقولوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

 

1۔ معلوم سے نا معلوم

اس مقولے کے مطابق پڑھانے کا آغاز ان باتوں سے کیا جائے، جو بچوں کو پہلے سے معلوم ہوں۔ جب ہم تدریس کا آغاز ان باتوں سے کریں گے، جو بچوں کو پہلے سے معلوم ہیں،تو وہ محسوس کریں گےکہ استاذ کی فراہم کردہ معلومات اور ان کی معلومات میں کافی حد تک  یک سانیت پائی جاتی ہے۔ اس طرح وہ بات کو جلد سمجھ لیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بچہ  اسکو ل آتا ہے تو اسے کچھ چیزوں کے بارے میں پہلے سے  معلوم ہوتا ہے۔ یہ چیزیں وہ ماحول اور گھر سے سیکھتا ہے۔ ایک اچھا استاذ بچوں کی معلومات کو اپنی معلومات سے بڑی مہارت کے ساتھ جوڑتا ہے اور بچوں کو نئی نئی چیزیں سکھا تا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچے کی معلومات  میخ یا کیل کی حیثیت رکھتی ہیں، جب کہ استاذ کی فراہم کردہ معلومات اس کیل پر لٹکی ہوئی چیزوں کی مثل ہوتی ہیں۔ جب میخ ہی نہیں ہو گی تو چیزں کو کیوں کر لٹکایا جا سکے گا؟

مثلاً

·        ریاضی میں بچے کو نفع و نقصان کے بارے میں پڑھانے سے پہلے بتایا جائے یا پوچھا جائے کہ ایک دکان دار کس طرح کماتا ہے۔ اسے فائدہ اور نقصان کس طرح ہوتا ہے۔

·        انگریزی میں عام استعمال ہونے والی چیزوں کے نام بچے کو اپنی یا قومی زبان میں پہلے سے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر استاذ بچے کو انگریزی کا کوئی نیا لفظ بتا رہا ہے تو مادری یا قومی زبان کا حوالہ دے کر بتا ئے۔ مثلاً پانی کو water  کہتے ہیں اور بلی کو cat کہتے ہیں۔

 

2۔ آسان سے مشکل:

اس مقولے کے مطابق پڑھانے کا آغاز ان معلومات اور مہارتوں سے کیا جائے جو آسان اور سادہ ہوں۔ استاذ کو چاہیے کہ پہلے بچوں کو آسان چیزیں سکھائیں ۔ پھر مشکل کی طرف جائے۔ استاذ کہتے ہی اسے ہیں جو مشکل سبق کو آسان کر کے پڑھا دے۔جس سے بچوں کو بات سمجھ میں آسکے۔استاذ کو چاہیے کہ پہلے ان چیزوں کا حوالہ دے جو آسان بھی ہوں اور دل چسپ بھی ہوں۔ جب بچوں  میں کسی حد تک دل چسپی پیدا ہو جائے تو پھر وہ مشکل تصورات کی طرف جائے۔ اگر استاذ فوراً مشکل چیزیں سمجھا نا شروع کر دے گا تو بچوں کو بات سمجھ ہی نہیں آئے گی۔دیکھا جائے تو ہماری نصابی کتابیں بھی اسی اصول پر چلتی ہیں۔ پہلی جماعت، دوسری جماعت سے آسان ہوتی ہے اور دوسری جماعت، تیسری جماعت سے آسان ہوتی ہے۔ جوں جوں نصاب آگے بڑھتا جاتا ہے،تعلیم مشکل ہوتی جاتی ہے۔

مثلاً:

·        بچوں کو الجبر ا پڑھانے سے پہلے جمع ، تفریق، ضرب، تقسیم وغیرہ  کے تصورات پختہ کر ا دیے جائیں اور کسی حد تک ان کا اعادہ بھی کر دیا جائے۔

·        اردو اور انگریزی کا سبق پڑھاتے ہوئے جو مشکل الفاظ آئیں، ان کے معانی آسان کر کے بچوں کو بتائے جائیں۔

·        سائنس میں کوئی نیاموضوع شروع کرنے سے پہلے اس کے بارے میں آسان معلومات فراہم کی جائیں، کیوں کہ سائنس میں جزئیات بہت ہوتے ہیں۔  مثلاً: مادّے کے بارے میں بتاتے ہوئے پہلے ایٹم کے بارے میں معلومات فراہم کر دی جائیں یا بچوں سے پہلے پوچھ لیا جائے کہ وہ متعلقہ موضوع کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔

 

3۔ محسوس سے غیر محسوس:

اس   طریقے کو مقرون سے مجرد بھی کہتے ہیں۔ اس مقولے کے مطابق بچہ ہر اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے، جسے وہ محسوس کر سکے۔ معلومات کو ٹھوس اور حقیقی انداز سے پیش کیا جائے تو نہ صرف یہ معلومات بچوں تک منتقل ہو جائیں گی، بلکہ وہ تعلیم میں دلچسپی بھی لینا شروع کردیں گے۔ یہ طریقہ بچوں میں دل چسپی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تصورات بھی واضح کر دیتا ہے۔اس ضمن میں انگریزی کی ایک عام کہاوت ہے، جس کا ترجمہ ہے: "پہلے چیزیں ، پھر الفاظ"۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی جماعتوں میں جو کتابیں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں ان میں الفاظ سے زیادہ تصویریں ہوتی ہیں۔ یعنی شروع میں بچے لفظوں سے زیادہ تصویروں سے سیکھتے ہیں۔استاذ کو چاہیے کہ وہ جس حد تک ممکن ہو، جماعت میں وہ اشیاء لے جائے، جن سے سبق سمجھ میں آسکے۔

مثلاً:

·        جمع، تفریق سکھاتے ہوئے جماعت میں ٹافیاں لائی جائیں اور ان کی مدد سے بچوں کو جمع تفریق سکھائی جائے۔

·        جغرافیہ پڑھاتے ہوئے جماعت میں نقشہ لایا جائے۔

·        ہمارے ایک دوست سندھی کا ایک سبق "اجرک" پڑھانے گئے تو جماعت میں اجرک بھی لے گئے اور بچوں کو اجرک کے رنگوں اور ٹھپوں سے آگاہ کیا۔

 

4۔ خاص سے عام:

اس مقولے کے مطابق بچے  کوکوئی اصول یا قاعدہ سمجھانے سے پہلے کچھ مثالیں دے دی جائیں۔ پھر ان مثالوں کی روشنی میں اصول یا  قاعدہ بتایا جائے۔ مثالوں کے ذریعے سمجھانے سے بچے کو بڑی حد تک بات سمجھ میں آجاتی ہے۔اس سے بچوں میں دل چسپی اور تجسس ، دونوں پروان چڑھتے ہیں۔ ہمارے ہاں پہلے تصور دیا جاتا ہے،پھر مثال دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں کو بسا اوقات بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ اگر پہلے مثالیں دی جائیں اور پھر بات سمجھائی جائے تو بچوں کے لیے آسانی ہوگی۔ سائنسی مضامین کی تدریس میں یہ طریقہ کافی حد تک کار گر ثابت ہو سکتا ہے۔

مثلاً:

·        گرامر میں ماضی ، حال اور مستقبل کا تصور واضح کرنے سے پہلے ان کی مثالیں دے دی جائیں۔ پھر ان مثالوں کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے متعلقہ تصور کی توضیح کی جائے۔

·        کشش ِ ثقل کا قانون سمجھانے سے پہلے بتایا جائے  یا پوچھا جائے کہ ہر شے زمین پر ہی کیوں گرتی ہے؟ آسمان پر کیوں نہیں جاتی؟ درمیان میں معلق کیوں نہیں ہوتی؟

میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے