حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

 تحریر: نعیم الرّحمان شائق

اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ ِ کربلا تاریخِ اسلام کا اتنا خوں چکاں واقعہ ہے کہ جس کی شدّت آج تک محسوس کی جاتی ہے۔ کربلا کی بے آب وگیاہ زمین پر نواسہ ِ رسول ﷺ اور ان کے رشتے داروں اور چاہنے والوں کو بے دردی سے شہید کر دینا ایک ایسی درد بھری کہانی ہے، جسے قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ وہ کیسے شقی القلب لوگ ہوں گے، جنھوں نے اپنے نبیﷺ کے نواسے کو بھی نہیں بخشا ! وہ بھی محض سیاست  اور اقتدار کے لیے۔ یہ لوگ قیامت کے دن حضور ﷺ کا سامنا کیسے کریں گے؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اگر غیر مسلموں کے ہاتھوں ہوتی تو شاید اتنا دکھ اور کرب محسوس نہ کیا جا تا، مگر کس قدر افسوس ناک بات ہے انھیں انھی لوگوں نے بے دردی کے ساتھ شہید کیا ، جو ان کے نانا کے کلمہ پڑھتے تھے۔

 


ظلم کا بدلہ ظلم ہی ہوتا ہے۔  حضرت امام حسین اور ان کے کنبے کو کربلا کی تپتی زمین پر شہید کرنے والوں کا انجام بھی دنیا نے دیکھا۔ جنھوں نے محض اقتدار کی خاطر ظلم کا بازار گرم کیا تھا، انھیں وہ نہ مل سکا اور محض چند سالوں کے بعد اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

 

مختار ثقفی کون تھا؟

سانحہ کربلا کے بعد مختار ثقفی نے قاتلین ِ امام حسین رضی اللہ عنہ کو چن چن کربڑی بے دردی سے  قتل کیا۔ مختار ثقفی سن 1 ہجری میں طائف میں پیدا ہوا۔اس کی کنیت ابو اسحا ق تھی اور لقب کیساں تھا۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے دور ِ خلافت میں مختاران کے ساتھ  کوفہ میں چلا گیا۔ خلیفہ ِ چہارم کی شہادت کے بعد بصرہ میں سکونت اختیار کر لی۔ سن 60ہجری کے آخر میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام پر حضرت مسلم بن عقیل کی مدد کرنے کی پاداش میں ابن زیاد نے اسے گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دیا۔جس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ پہنچے تو اس وقت مختار ثقفی عبید اللہ ابن زیاد کی قید میں تھا۔ شہادت ِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد آزاد کر دیا گیا۔ اہل ِ بیت سے اسے خاص محبت تھی۔ جب امام ِ حسین اور ان کے کنبے کی شہادت کے بارے میں اسے معلوم ہوا تواس نے اپنی زندگی کا مشن ہی یہ بنا لیا کہ وہ قاتلین ِ حسین سے انتقام لے گا۔ قریباً تمام کے تما م قاتلین کو اس نے قتل کروا دیا اور عبرت کا نشان بنا دیا۔

ایک انتباہ

ہو سکتا ہے کہ درج ذیل واقعات میں آپ کو کسی حد تک مبالغہ آمیزی محسوس ہو، لیکن ان میں سے کوئی بھی واقعہ میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھا۔اس سلسلے میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے، ان کے نام مع مصنف آخر میں تحریر کردیے جائیں گے۔

 

مختار ثقفی اور اس کے لوگوں نے جن قاتلین ِ حسین رضی اللہ عنہ کا نشان ِ عبرت بنایا ، ان میں سے چند کا ذکر درج ذیل ہے:

 

1۔ شمر بن ذی الجوشن:

شمر بن ذی الجوشن نے میدانِ کربلا میں  کند شمشیر کی بارہ ضربوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نہایت بے دردی سے شہید کیا تھا۔کربلا کا احوال بتاتا ہے کہ عین موقع پر امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے تبدیل کر دی تھی۔انھوں نے  عبید اللہ ابن ِ زیاد (کوفہ کا گورنر)کی فوج کے  سپہ سالار عمر بن سعد کو اپنی شرائط سے آگاہ کیا۔وہ شرائط یہ تھیں:

·        میں جہاں سے آیا ہوں ، وہیں واپس چلا جاؤں۔

·        یا میں یزید کے پاس پہنچ جاؤں اور خود اس سے معاملہ طے کروں۔

·        یا مجھے مسلمانوں  کی کسی سرحد پر پہنچا دو ۔ جو حال وہاں کے عام لوگوں کا ہوگا ، میں اسی میں بسر کروں گا۔

یہ شرائط سننے کے بعد عمر بن سعد نے ابن زیاد کو خط لکھا، جس میں اسے امام حسین رضی اللہ عنہ کی شرائط سے آگاہ کیا۔ یہ شرائط ابن زیاد نے قبول کر لیں، لیکن شمر نے عین اس وقت مخالفت کی، جب مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح ہونے والی تھی۔ اس نے ابن ِ زیاد سے کہا کہ کیا آپ حسین رضی اللہ عنہ کو مہلت دینا چاہتے ہیں؟ وہ اگر آج ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کبھی آپ کے ہاتھ نہیں آئیں گے۔ مجھے اس خط میں عمر بن سعد کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ابن زیاد شمر کی باتوں میں آگیا۔

ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سانحہ کربلا میں شمر کا اہم کردار تھا۔ جب مختار ثقفی چن چن کر قاتلین ِ حسین رضی اللہ عنہ کو عبرت کانشانہ بنا رہا تھا  تو شمر نے کوفہ سے راہ ِ فرار اختیارکرنے میں عافیت جانی، مگر پکڑا گیا۔اس کو عبد اللہ کامل نے پکڑا اور مختار کے سامنے پیش کیا۔مختار نے قتل کا حکم دیا تو عبد اللہ نے التماس کی کہ شمر کو اس کے حوالے کر دیا جائے۔عبد اللہ نے زیتون کے تیل سے بھری ہوئی ایک بڑی دیگ آگ پر رکھوائی۔ جب تیل کھولنے لگاتو اس میں شمر کو ڈال دیا۔ جب وہ نیم مردہ ہو گیا تو اسے نکال کر اس کے ناخن اکھاڑ دیے۔ پھر اس کی کھال کھینچ لی اور رگیں کاٹ دیں۔پھر اس کی زبان کھینچ لی گئی۔ جب وہ مرنے کے قریب پہنچا تو اس کا سر کاٹ کر جامع مسجد کے سامنے لٹکا دیا اور جسم کو آگ میں جلا دیا۔

 

2۔ سنان بن انس نخعی

سنان بن انس نے حضرت امام حسین رضی اللہ کو نیزہ مارا تھا۔ایک قول کے مطابق اسی نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کیا تھا۔مختار ثقفی کے خوف سے یہ بصرہ بھاگ گیا تھا۔ بصرہ سے واپسی پر عذیب اور قادسیہ کے درمیان مختار کے لشکر نے اسے گرفتار کیا اور مختار کے حوالے کر دیا۔ مختار کے ایک دوست جناب ابراہیم نے پہلے اس کی دونوں آنکھیں نکلوائیں۔ پھر اس کے ہاتھوں کے ناخنوں کا اکھڑوایا۔پھر دونوں ہاتھوں کو تڑوا دیا۔جب وہ مرنے کے قریب پہنچا تو اس پر پتھر برسوائے۔ آخر میں اسے زبح کرکے آگ میں جلا دیااور اس کی خاک ہوا میں اڑا دی۔

 

3۔ عبید اللہ ابن زیاد

عبید اللہ ابن زیاد کوفہ کا گورنر تھا۔ اسی کے حکم سے پہلے مسلم بن عقیل اور پھر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا۔سن 66 یا 67 ہجری میں  مختار کے لشکراور اس کے لشکر کے مابین جنگ ہوئی ، جس میں اسے شکست ِ فاش ہو ئی اور ابراہیم بن اشتر نے اسے قتل کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جس روز ابن زیاد کا قتل ہوا وہ دن بھی دس محرم کا تھا۔ابرہیم بن اشتر نے ابن زیاد کو قتل کرنے کے بعد حکم دیا کہ اس کا سر تن سے جدا کیا جائے۔پھر اس کے جسم کو پہلے الٹا سولی پر لٹکوایا۔ بعد ازاں اسے نذر آتش کر دیا گیا۔ پھر ابراہیم نے اس کا سر مختار کے پاس بھجوا دیا۔جب ابن زیاد کا سر مختار کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کھانا کھانے میں مشغول تھا۔وہ اٹھا اور اس کے منھ پر لاتیں ماریں۔پھر جوتا اتار کرغلام کو دیا اور کہا کہ اسے پاک کرو، کیوں کہ میں نےاسے ایک نجس کافر  کے منھ کے ساتھ چھوا ہے۔ پھر حکم دیا کہ عبید اللہ بن زیاد کے سر کو وہاں رکھا جائے جہاں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک رکھا گیا تھا۔ چناں چہ ایسا ہی کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب ابن زیاد کا سر مختار کے سامنے رکھا گیا تو ایک باریک سانپ آیا جو اس کے منھ میں داخل ہوا اور ناک کے سوراخ سے نکل گیا۔ پھر ناک سے داخل ہوا اور منھ سے نکل گیا۔ اس نے کئی بار ایسا ہی کیا۔ جب سر سولی پر لٹکا ہوا تھا تو پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ تین دن تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

 

5۔ عمر بن سعد:

عمر بن سعد واقعہ کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے مخالف لشکر کا سپہ سالار تھا۔امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت میں اس کا اہم کردار تھا۔مختار نے عمر کو بھی عبرت کا نشانہ بنایا۔شروع میں مختار نے عمر کو امان دے دی تھی، مگر ایک شرط ایسی رکھ دی ، جس کا پورا ہونا محال تھا۔ وہ شرط یہ تھی کہ عمر نہ اپنے گھر سے نکلے گا نہ کسی نئی بات کا مرتکب ہوگا۔ عمر کو یہ امان عبد اللہ بن جعدہ بن ہبیرہ کے ذریعے ملی تھی، جو حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے۔ عمر بن سعد مختار کی شرائط پوری نہ کر سکا۔مختار کو بھی معلوم ہوگیا کہ عمر نے اس کا معاہدہ توڑ دیا ہے۔ عمر کی بیوی مختار کی بہن تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ مختار کے پاس جاکر اس کی  امان طلب کرے۔ مختار کے پاس اس کی بہن پہنچی تو اس نے اپنی بہن کووہیں روک لیا۔ پھر اس نے اپنی آدمیوں کو بھیجا کہ وہ عمر کو لے آئیں۔ مختار نے باقی قاتلین ِ حسین کی طرح عمر بن سعد کو بھی بھیانک طریقے سے اور سخت اذیتیں دے کر قتل کیا۔ اس کے دانتوں کو اکھڑوا دیا۔ پھر اس کی ساری انگلیوں کو ہر گرہ سے کاٹا۔ پھر جسم کے گوشت کاٹے۔ پھر آنکھیں نکلوائیں۔ پھر مٹی کا تیل پلایا۔ جب وہ پینے سے انکا ر کر تا تھاتو اس کو نیزے سے اذیت دی جاتی تھی۔ آخر میں اُس کو قتل کر کے آگ میں جلا دیا۔

 

6۔خولی بن یزید اصبحی:

یہ وہی شخص ہے، جو کربلا سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر اقدس کوفہ لایا تھا اور رات کو اپنے گھر میں رکھ دیا تھا۔اس کی بیوی عیوف بنت مالک  آل ِ رسول ﷺ سے محبت رکھتی تھی۔ اس نے اپنے شوہر کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ مال و زر لائے ہیں  ۔ اور تم فرزند ِ رسول کا سر لائے ہو؟بعد میں اسی نے خولی کو گرفتار کروایا۔اسے عبد اللہ کامل نے گرفتار کرکے مختار کے سامنے پیش کیا۔مختار نے پہلے اس سے ان جرائم کا عتراف کروایا، جو اس سے میدان ِ کربلا میں سرزد ہوئے تھے۔پھر  حکم دیا کہ اس کے دونوں ہاتھ پاؤں قطع کر دیے جائیں اور اس کو آگ میں جلا دیا جائے۔ چناں چہ حکم کی تعمیل کی گئی۔

 

7۔ عمر بن الحجاج زبیدی

یہ نہر ِ فرات پر متعین فوج کا افسر تھا۔اس نے ابن زیاد کے حکم سے نہر پر اس لیے پہرہ لگا یا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے بچوں تک پانی نہ پہنچ پائے۔قدرت کا انصاف دیکھیے کہ جس طرح اس نے آل ِ رسول کو پیاسا رکھا، اسی طرح یہ بھی پیاسا ہی مرا۔یہ شخص مختار کے خوف سے بصرہ کی جانب بھاگ کر جا رہا تھا ۔ راستے میں اسے خیال آیا کہ بصرہ کے لوگ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اسے ملامت کریں گے۔لہذا کسی اور طرف جانا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ شراف کے طرف چلا ۔ مگر وہاں کے لوگوں نے بھی اسے نکال دیا۔ اب یہ مختار کے خوف سے چل پڑا اور چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ وہ مقام "بیضہ" میں پہنچا۔ا ب اسے پیاس ستانے لگی۔ مگر پانی نہیں تھا۔ مختار کے لوگ وہاں پہنچ گئے تھے۔ ان لوگوں نے اسی مقام پر اس کو قتل کر دیا اور اس کا سر مختار کے پاس لے گئے۔

 

8۔حرملہ بن کاہل اسدی

حرملہ بن کاہل اسدی نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے چھوٹے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن حسین رضی اللہ عنہ کو ، جو علی اصغر کے نام سے مشہور ہیں، تیر مار کر شہید کر دیا تھا۔جنگ کے دوران جب مالک بن نسیر نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر پر تلوار سے حملہ کیا تو آپ شدید زخمی ہو گئے۔اس وقت آپ نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ حرملہ نے تیر مار کر اس معصوم کی زندگی کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کر دیا۔اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے دعا کی: یا اللہ! تو ہی ان ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔

ایک دن مختار کہیں جانے کے ارادے سے روانہ ہوا تو کسی نے اطلاع دی کہ حرملا گرفتار ہو گیا۔ مختار یہ سن کر بہت خوش ہو گیا۔جو وہ مختار کے سامنے لایا گیا تو اس نے جلادوں کو بلوایا اور حکم دیا کہ پہلے اس کے ہاتھ کاٹے جائیں، پھر اس پر تیر برسائے جائیں۔ اس کے بعد آگ میں جلا دیا جائے۔ مختار کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ اس طرح یہ شخص بھی اپنے برے انجام کو پہنچا۔


اوپر جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقابلے میں آنے والے سر کردہ افراد ہیں۔ مختار نے تقریباً ہر اس شخص کو عبرت کانشانہ بنایا، جس کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ شہادت ِ حسین سے تھے۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو ان کےاونٹ کو زبح کر دیا گیا۔ شمر نے اس اونٹ کا گوشت لوگوں کے گھروں میں بھیج دیا۔ مختار نے ان گھروں کا منہدم کرا دیا۔ یہ اہل ِبیت کا دیوانہ تھا اور امام حسین کے قاتلوں کا بدلہ لینے میں بڑاسخت واقع ہو ا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس شخص کو قدرت نے اسی کام کے لیے چنا تھا۔ مختار نے اٹھارہ مہینوں میں قاتلین ِ امام حسین میں سے اٹھارہ ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ آخر میں خود بھی جنگ کرتے ہوئے قتل ہوگیا۔

 

خدائی انتقام:

اب ذرا خدائی انتقام کا ذکر ہو جائے۔

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو جو لوگ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک ہوئے، وہ سب دنیا ہی میں خدائی انتقام کی لپیٹ میں آئے، ان میں سے کچھ قتل ہوئے، کچھ بینائی سے محروم ہوئے، کچھ کے چہرے سیاہ ہوگئے اور کچھ تھوڑی ہی مدت میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔(الصواعق)

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے خدائی انتقام کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں، وہ اکثر صحیح ہیں ۔ جو جو لوگ اس قتل ِ ناحق میں شریک رہے، ان میں سے شاید ہی کوئی دنیوی زندگی میں آفت اور مصیبت سے بچا ہو، ان میں سے ہر شخص دنیا ہی میں کسی خوف ناک مرض میں مبتلا ہوئے اور اکثر تو پاگل ہو گئے۔(الصواعق)

 

سدی کا بیان ہے کہ میں کربلا میں ایک شخص کے ہاں مہمان تھا، مجلس میں یہ بات چل نکلی کہ جس جس نے قتل ِ حسین رضی اللہ عنہ میں اعانت کی،موت سے پہلے گرفتار ِ بلا ہواور بد ترین موت مرا۔

میزبان نے کہا : بالکل غلط ہے، میں بھی شریک تھا، مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔

یہ شخص آخر شب چراغ درست کرنے کے لیے اٹھا، چراغ درست کر رہا تھا کہ آگ نے اُسے پکڑ لیا ، آگ آگ چلّاتےہوئے دریائے فرات میں چھلانگ لگا دی، لیکن آگ دریا میں بھی نہ بجھی! آخر مر گیا۔

سدّی کہتے ہیں: واللہ میں نے اسے دیکھا، لگتا تھا جیسے کوئلہ ہے۔(الصواعق)

 

شہادت سے تین دن پہلے امام حسین رضی اللہ عنہ اور اصحاب پر پانی بند کرنے کا حکم جاری ہوا۔عبد اللہ بن ابی حصین ازدی آیا اور بڑی سر مستی سے امام حسین سے کہا: "واللہ! تو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں چکھے گا، حتیٰ کہ پیاسا مرے گا۔"

اس پر اما م حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " اے اللہ ! اسے پیاسا مار اور اسے کبھی نہ بخشنا۔"

حمید بن مسلم کا بیان ہے: اس واقعے کے بعد وہ بیمار پڑ گیا۔ میں عیادت کے لیے گیا۔ قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، میں نے اسے دیکھا کہ پانی پیے جاتا تھا ، پیے جاتا تھا، پھر قے کر دیتا تھا، پھر پینے لگتا تھا، پیٹ بھر جاتا تھا، لیکن پیاس نہیں بجھتی تھی۔ یہی اس کا حال رہا، یہاں تک کہ اس کی جان نکل گئی۔ (طبری)

 

ابن جوزی نے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر ِ مبارک کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا ، اس کے بعد اسے دیکھا گیا کہ ا س کا منہ کالا تار کول ہوگیا، لوگوں نے پوچھا کہ تم سارے عرب میں خوش رو آدمی تھے۔ تمھیں کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ جس روز سے میں نے یہ سر گھوڑے کی گردن میں لٹکایا، تب سے جب بھی سونے کی کوشش کرتا ہوں تو دو آدمی میرے باز و پکڑتے ہیں اور مجھے ایک دہکتی ہوئی آگ پر لے جاتے ہیں اور اس میں ڈال دیتے ہیں۔ جو مجھے جھلس دیتی ہے۔ اسی حالت میں چند روز کے بعد وہ مر گیا۔

اس طرح کے اور بھی بہت سارے واقعات کتابوں میں مذکور ہوئے ہیں۔

 

اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔

§        انتقام ِ مختار (علامہ صادق حسن)

§        امیر مختار (سید بشارت حسین کامل مرزا پوری)

§        شہید کربلا (مفتی محمد شفیع)

§        امام حسین رضی اللہ عنہ اور واقعہ کربلا(حافظ ظفر اللہ شفیق)

 

 میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

Unknown نے کہا…
Boht hi zabrdast tehqeeq ki apne , Allah apko haq sunne aur haq bayan krne ki toufeeq de de
apne HURMALA ka zikr nh kiya jis ne hazrat IMAM HUSSAIN ke 6 mah ke bete ALI ASGHAR ko teer mar kr shaheed krdiya tha
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq نے کہا…
اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانے پر آپ کا مشکور ہیں۔ میں نے اس تحریر میں حرملہ کا اضافہ کر دیا ہے۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے