اشاعتیں

بین الاقوامی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نائین الیون نے کیا دیا؟

9/11 کا واقعہ 2001ء میں پیش آیا ۔ اس واقعے کے نتیجے میں 2750 لوگ نیو یارک میں ، 184 پینٹاگون میں اور 40 لوگ پینسلوانیا میں ہلاک ہوئے ۔ امریکا نے ان دھماکوں کا ذمہ دار القاعدہ کو قرار دیا۔ یہ امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ بھیانک ترین اور موت آور دھماکے سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ دراصل چار فضائی حملے تھے ۔ واضح رہے کہ جن طیاروں سے یہ حملے کیے گئے ، وہ امریکا کے اغوا شدہ طیارے تھے ۔ 11 ستمبر کو صبح آٹھ بجے ایک طیارہ امریکا کی بلندو بالا عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرایا ۔ اٹھارہ منٹ بعد تباہ شدہ عمارت کے قریب ، دوسری عمارت سے دوسرا طیارہ ٹکرایا ۔ ایک گھنٹے بعد تیسرا اغوا شدہ طیارہ پینٹا گون پر گرایا گیا ۔ آدھے گھنٹے بعد پنسلوانیا میں ان حادثات سے ملتا جلتا ایک حادثہ پیش آیا ۔ اس عظیم واقعے نے عالمی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ۔ دراصل یہی وہ عظیم واقعہ ہے ، جس سے پورے عالم میں صحیح طور پر امریکی برتری کا آغاز ہوا ۔ اس لیے اس واقعے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس دن ہونے والے چار حادثات میں لگ بھگ 2974 لوگ ہلاک ہوئے ، لیکن ان 2974 لوگوں کی ہلاکت کے بدلے میں امریکا

بھارتی وزیر ِ اعظم کا اعتراف ِ حقیقت

اس میں شک نہیں کہ اسلام امن کا دین ہے ۔ اس دین میں پوری انسانیت کی بقا پنہاں ہے ۔  اس گئے گزرے دور میں یہی وہ دین ِ متین ہے ، جس میں انسانیت کے ہر مرض کی شفا ہے ۔ ہر دکھ کا درد اس دین میں موجود ہے ۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ، غیر مسلموں کے لیے بھی رحمت ہے ۔ اس دین میں دہشت گردی نہیں ہے ۔ مغرب اور اسلام مخالف لوگ جتنا چاہیں ، اس دین  ِ مبین سے دہشت گردی کو جوڑتے رہیں ، لیکن جن کے سامنے حقیقیت عیاں ہو جائے گی ، وہ پکار اٹھیں گے کہ بلا شبہہ دہشت گردی کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وہ  لوگ اس دین ِ مبین کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے ۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اہل ِ مغرب کو پریشان کر دیا ہے ۔ کئی مشہور لوگ اسلام قبول کر چکےہیں ۔ غیر مشہور لوگ نہ جانے کتنے ہیں ۔ یہ اسلام کا وہ اعجاز ہے ، جو اس کی حقانیت و صداقت کی  سب سے بڑی مثال ہے ۔

سانحہ ِ چار سدہ ۔۔۔۔ دورہ ِ عرب و ایران

سو فی صد توجہ اس طرف مر تکز تھی کہ اس بار وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ ِ عرب و ایران پر لکھوں گا ۔ لیکن کیا کروں  اس خزاں رت کا ۔۔۔ جو وطن ِ عزیز میں  بہار کو پنپنے ہی نہیں دیتی ۔ کیا کروں اس حادثے کا ۔۔۔جس نے پوری قوم کو سوگ وار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سو آج کی میری تحریر دو موضوعات پر مشتمل ہوگی ۔ یعنی سانحہ ِ چارہ سدہ اور اور وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کا دورہ ِ عرب و ایران۔ بدھ کی صبح نو بجے چار مسلح لوگ پشاور کے ضلع چار سدہ میں با چا خان یو نی ورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی ۔ جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 لوگ شہید ہوگئے ہیں ۔ ان 21 شہیدوں میں سے 19 طلبہ تھے ۔ ایک لیب اسسٹنٹ تھا اور ایک پروفیسر تھے ۔

شام میں ظلم کی شام کب ڈھلے گی؟

شام ، جہاں پچھلے کئی سالوں سے موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ، نہ جانے وہاں کب ظلم کی شام ڈھلے گی ۔ جتنے منھ ہیں ، اتنی باتیں ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ،بڑی طاقتیں روس اور امریکا یہ جنگ کر وارہی ہیں ، تاکہ ان کا اسلحہ بک سکے ۔ کوئی کہتا ہے ، یہ شیعہ سنی قضیہ ہے ۔  کوئی کہتا ہے ، یہ عرب و عجم کی لڑائی ہے ۔ کوئی کیا کہتا ہے ، اور کوئی کیا ۔  جو کچھ بھی ہے ، ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ ان بد نصیبوں پر جو ظلم کی کالی رات چھائی ہوئی ہو ، جلد از جلدامن و سلامتی کی سحر میں تبدیل ہو جائے ۔ امت ِ مرحومہ کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔ پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسائل تھے ۔ اب شام کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی ، ایران کا مسئلہ بھی  خطرناک صورت حال پیش کر رہا ہے ۔ جب تک مسلم امہ نا اتفاقی کا شکار رہے گی ، اس کے مسائل بڑھتے جائیں گے ۔ 

خطبہ ِ حج۔۔۔سانحہ ِ منیٰ

وقوف ِ عرفہ کے دوران سعودی مفتی ِ اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ نےخاص طور پر فریضہ ِ حج ادا کرنے والوں کو اور عام طورپر پوری امت ِ مسلمہ کو بڑا بصیرت افروز خطبہ ِدیا ۔ اگر اس خطبے میں کہی  گئیں باتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے اس خطبہ ِ حج میں اسلام کی حقیقی تصویر کشی کی ۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات امن ، محبت اور آشتی کا درس دیتی ہیں ۔ لیکن اسلام کے دشمن دنیا کو یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ اسلام معاذ اللہ جنگ و جدل کا درس دیتاہے ۔ اسلام بہت سخت مذہب ہے ۔ جب کہ کچھ اپنے لوگ بھی ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں اسلام کی تعلیمات اب فرسودہ ہوگئیں ہیں ۔ اس لیے یہ قابل ِ عمل نہیں رہیں ۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ اسلام صرف عبادات تک محدود رہے ۔ معاملات میں ہمیں مغرب اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کی پیروی کرنی چاہیے ۔ حالاں کہ یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ اسلام عبادات اورمعاملات دونوں کا مجموعہ ہے ۔ اسلام عبادات کا بھی درس دیتا ہے اور معاملات کو بھی بہ حسن و خوبی سر انجام دینے کے طریقے اور سلیقے سکھاتا ہے ۔ ہماری حقیقی کام یابی صرف اور صرف اسلا

وہ جو سوئے حرم چلے اور واپس نہ آئے

قوی ارادہ تھا کہ اس دفعہ سپریم کورٹ کے اردو کے حق میں دیے گئے فیصلہ پر لکھوں گا ۔کیوں کہ پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دے دیا ۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر مجھ جیسے اردو کے شائق کے لیے ایک بہترین خبر تھی ۔لیکن بروز ِ ہفتہ کے اخبارات کی سیاہ سرخیوں نے  ارادہ  یکسر تبدیل کر دیا ۔ کبھی کبھی یوں ہی ہوتا ہے کہ اخیر لمحے میں موضوع تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔ پھر کالم جتنے  تاز ہ موضوع پر ہوگا ، اتنی ہی لوگوں کی توجہ حاصل کرے گا ۔ اس کے علاوہ میرا نقطہ ِ نظر یہ بھی ہے کہ حرم ِپاک سے مسلمانوں کا روحانی اور دینی رشتہ  ہے ۔ اگر وہاں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس پر ضرور لکھنا چاہیے ۔ 

ڈیمین موران کا جراء ت مندانہ اقدام

انصاف یہ ہے کہ برا کام اپنے بھی کریں تو مذمت کی جائے اور اچھا کام غیر بھی کریں تو تعریف کی جائے ۔ یہ انصاف نہیں کہ اگر کوئی ان جان یا آپ کا حریف کوئی اچھا کام کرے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے ۔ اسی طرح یہ بھی نا انصافی ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا یا آشنا یا آپ کی قوم کا فرد کوئی برا کام کرے تو آپ اس کی حمایت میں بولنے لگیں ۔غیر جانب داری بھی اسی عمل کانام ہے  کہ آپ انصاف کا ثبوت دیتے ہوئے مذمت اور تعریف کا وہ معیار اپنائیں ، جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں ہوا ہے ۔ 

"اسلام نافذ ہو گیا ۔۔۔۔"

"پیارے بھائیو! اب ہم اس ملک کے چپے چپے پر اسلام کا نفاذ کریں گے ۔اس کے لیے ہمیں جان دینی پڑے تو دے دینی چاہیے ۔ اسلام قربانی مانگتا ہے ۔ اگر ہم قربانی نہیں دیں گے تو کون دے گا ۔ سو اٹھ کھڑے ہوں اور اسلام کا علم اٹھا کر دشمنوں کی صفوں میں گھس جائیں ۔ یہ صرف نام کا اسلامی ملک ہے ۔ یہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ یہ مرتد ہو چکے ہیں ۔ انھیں مارنا فرض ہو چکا ہے ۔ یہ ہمارے بھائی نہیں ہو سکتے ۔ کیوں کہ یہ ہمارے دشمنوں کو دوست بناتے ہیں ۔ قرآن  جنھیں ہمارا دشمن کہتا ہے ، وہ ہمارے دوست کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟ اس لیے اب یہ بھی ہمارے بد ترین دشمن ہیں ، جن سے انتقام لینا از حد ضروری ہے ۔ "

نریندر مودی کا فون اور مسئلہ ِ کشمیر

پچھلے دنوں بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کیا ۔ انھوں نے وزیر ِ اعظم نواز شریف کو رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد دی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستانی مچھیروں کی رہائی کی  نوید بھی سنائی ۔ دونوں رہنماؤں نے  متانازعہ بیانات نہ دینے پر اتفاق کیا ۔ یہ گفتگو پانچ منٹ تک جاری رہی ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نے اس گفتگو میں کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ۔ اس موقع پر پاکستانی وزیر ِ اعظم نے  اپنےبھارتی ہم منصب کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ اور اختلافات کی بہ جائے امن و محبت کی طرف جانا چاہیے ۔ تاکہ دونوں ملکوں کے عوام اپنے لیڈروں کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں ۔ قوموں کے حکم ران گھر کے سربراہ کی طر ح ہوتے ہیں ، جو اپنے خاندان کو لڑائی جھگڑوں سے بچا کر امن کی طرف لے جاتے ہیں اور ہر آفت سے ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں کنبے کی فلاح ہر حال میں مقدم ہوتی ہے۔ 

"بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی "

اگر آپ کے سامنے کوئی اس بات کا اعتراف کر لے کہ آپ کے وطن کو برسوں پہلے دو لخت کرنے میں ہمارا ہاتھ تھا تو آپ کو یقینا بہت دکھ ہوگا ۔ حب الوطنی اسی کا نام ہے ۔ پھر اگر یہ بات کرنے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ ایک پورے اسٹیٹ کا وزیر ِ اعظم ہو تو آپ اور زیادہ تاسف کا اظہار کریں گے ۔ افسوس کے ساتھ ساتھ آپ کو غصہ بھی آئے گا ۔ یعنی آپ غم اور غصے دونوں میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی کیفیت سے دوچار اس وقت ہمارے ملک کے باشندے ہیں ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کے  پاکستان مخالف بیان کے بعد پاکستان کے عام اور خاص دونوں طبقے کے لوگ  بہت زیادہ  غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اب بھارت پر حملے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح بھارت  کے وزیر ِ اعظم نے  تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا اعتراف کیا ہے ، بالکل اسی طرح پاکستان کے وزیر ِ اعظم کو بھی دو ٹوک بات کرنی چاہیے ۔ انھیں کسی  طرح کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔دوسرے الفاظ میں وزیر ِ اعظم کا  مصلحت سے عاری اور جذباتی ردِ عمل فی الواقع عوام کا حقیقی ترجمانی ہوگی ۔ 

مسلم دنیا کا ایک دکھتا نا سور

3 مارچ، 1924 ء ۔۔ یہ وہ دن ہے ،جس دن ترکی میں خلافت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ خلافت کے خاتمے میں اپنوں اور غیروں ، دونوں کا ہاتھ تھا ۔ خلافت متحرک نہیں تھی ۔ خلافت کے جسم میں وہ طاقت ختم ہو گئی تھی ، جو مسلمانان ِ عالم کے مسائل حل کر سکتی ہو ۔ ترکی میں قائم خلافت سے کوئی خوش نہیں تھا ۔ انگریز بر صغیر پر چڑھ دوڑے ۔ وہاں کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے کردی ۔ مظالم کی انتہا کر دی ۔ مگر ترکی میں صدیوں سے قائم خلافت مسلمانان ِ بر صغیر کے لیے کچھ کام نہ آئی ۔دوسری طرف عرب بھی ترکی خلافت سے سخت نالاں تھا ۔ انھوں نےپہلی جنگ ِ عظیم کے دوران  ترکی کے خلاف بغاوت کر دی ۔ 

بھولے بسرے مسلمان

جمعۃ المبارک کے بابرکت دن خبر آئی کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پہلے تین بسوں کے مسافروں کو اغوا کر لیا گیا اور پھر شناخت کے بعد بیس افراد کو شہید کر دیا گیا ۔ اسی بابرکت دن کو سعودی عرب کے شہر دمام میں مسجد کے باہر خود کش دھماکا ہو ا، جس سے چار افراد شہید ہو گئے ۔واضح رہے کہ سعودی عرب میں یہ دوسرا بم دھماکا ہے ۔ یعنی اب سعودی عرب بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہا ۔ رب تعالیٰ رحم کرے ۔

مصر میں جمہوریت کا خون

فی الحقیقت مصر میں جمہوریت کا خون ہو گیا ۔ مصر کی ایک عدالت نے سابق صدر محمد مرسی سمیت 106 افراد کو سزائے موت سنا دی ۔ ان پر 2011ء میں حسنی مبارک کے خلاف عوامی بغاوت کے دوران جیل توڑنے کا الزام ہے ۔ کہا یہ بھی جار ہا ہے کہ انھوں نے حماس ، حزب اللہ اور مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر یہ قدم اٹھا یا تھا ۔ جس کے نتیجے میں محمد مرسی سمیت اخوان کے 34 افراد فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے ۔ اس سے قبل محمد مرسی کو 20 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ 

امامِ کعبہ کے نصائح

24 مارچ 2015 بروز جمعۃ المبارک کو امام ِ کعبہ شیخ خالد الغامدی نے بحریہ ٹاؤن لاہور کی جامع مسجد میں خطبہ ِ جمعہ دیا ۔ انھوں نے اس خطبے میں اسلام کے حوالے سے جن باتوں کا درس دیا ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یہ کوئی نئی باتیں نہیں تھیں ۔ قرآن حکیم کو بہ غور پڑھا جائے تو یہی نےنتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے۔ یہ دین ِ مبین نہ صرف اپنوں کے لیے بلکہ غیروں کے لیے بھی نسخہِ اکسیر ہے ۔ یہ دنیا کی تمام اقوام کے لیے رحمت ہی رحمت ہے ۔ ہر ایک اس آفاقی دین کے دامن ِ عافیت میں آکر حقیقی سکون حاصل کر سکتا ہے ۔یہ الہامی اصولوں پر مبنی ایسا دین ِ مبین ہے ، جو اقوام عالم کے لیے امن ، سکون اور آتشی کا ضامن ہے ۔   

اتحاو اتفاق ۔۔۔مسلمانوں کی اہم ضرورت

اس میں شک نہیں کہ اتحاد و اتفاق مسلمانوں کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔ میں اپنی تحریروں کے ذریعے کبھی کبھی مسلمانوں کو اس سب سے اہم ضرورت کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں ۔ مسلمان دنیا کی دوسری بڑی قوم ہیں ۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ ہے ۔ دنیا کے اٹھاون ممالک پر مسلمانوں کی حکومت ہے ۔ عیسائیوں کے بعد  دنیا میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ لیکن عالمی سطح پر مسلمانوں کی کیا اہمیت ہے ، وہ ہم سب جانتے ہیں ۔ اس وقت مسلمانوں کو کئی قسم کے خطرات لا حق ہیں ۔ جن کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ لیکن میری نظر میں سب سے بڑی وجہ مسلم دنیا میں پھیلی نا اتفاقی اور انتشار ہے ۔ کہیں فرقہ واریت ہے  تو کہیں قوم پرستی ۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ تعصب ہے ۔  مسلمان جب تک متحد نہیں ہوں گے ، وہ اپنے مقاصد کی تکمیل نہیں کر سکیں گے ۔ ان کی حالت یہی رہے گی ۔ وہ اپنے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ہر قسم کے نا اتفاقی اور انتشار پھیلانے والے عوامل سے گریز کریں ۔ 

امریکا اور مسلم دنیا

امریکی صدر نے دنیا کو باور کرایا کہ مغرب اور اسلام میں جنگ کو تائثر سفید جھوٹ ہے ۔ دنیا پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ناسور کے خلاف متحد ہے ۔ بین الاقوامی برادری دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں غیر متزلزل عزم کا اظہار کرے ۔ جہادی یہ غلط تائثر پیش کر رہے ہیں کہ یہ تہذیبوں کے درمیان لڑائی ہے ۔ مگر یہ بات کھلی دروغ گوئی ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف صف آراء ہے ۔ بغیر کسی مذہبی تفریق کے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس تائثر کو مسترد کریں ۔ ہم اسلام کے خلاف لڑائی نہیں کر رہے ، ہم ان عناصر سے لڑ رہے ہیں ، جنھوں نے اسلام کو مسخ کیا ہے ۔ 

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

5 فروری آیا اور چلا گیا ۔یہ ہر سال آتا ہے ۔ اہلیان ِ پاکستان کو سوگ وار کرتا ہے ۔ پھر چلا جاتا ہے ۔ اس دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ کشمیری بھائیوں سے اظہار ِ یک جہتی کے لیے  جلوس نکلتے ہیں ۔ "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے بازی ہوتی ہے ۔ ایوان ِ بالا و زیریں میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں ۔ سیاست دان ایوانوں میں ، عوام سڑکوں پر جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ زبان ِ قال و حال سے کہا جاتا ہے : "ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔"جارحانہ بیان بازی ہوتی ہے ۔یہ دن 1990ء سے منایا جا رہا ہے ۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا، اس دن کا مشاہدہ کر رہا ہوں ۔ یہی کچھ دیکھ رہا ہوں ، جو اوپر بیان کیا ۔ 

شاہ عبد اللہ بھی رخصت ہوئے

یہ خبر پوری مسلم دنیا میں   غم اور افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ خادم ِ حرمین الشریفین اور سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبد اللہ 90 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد جمعرات اور جمعۃ المبارک کی درمیانی شب خالق ِ حقیقی سے جا ملے ۔وہ ایک عرصے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔پھیپھڑوں کے انفیکشن کے باعث انھیں پچھلے کئی دنوں سےمصنوعی طریقے سے سانس دیا جا رہا تھا ۔ان کی نماز ِ جنازہ پرنس ترکی بن عبد اللہ جامع مسجد میں ادا کی گئی۔جس میں کئی مسلم ممالک کی اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی ۔پاکستان کے وزیر ِ اعظم اور ترک صدر رجب طیب  اردوان نے بھی نماز ِ جنازہ میں شرکت کی ۔سعودی عرب کی تمام مساجد میں بھی شاہ کی غائبانہ نماز ِ جنازہ ادا کی گئی ۔دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم رہنماؤں نے شاہ کی وفات پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ اسرائیلی سابق صدر شمعون پیریز بھی کہہ اٹھے کہ شاہ عبد اللہ کی موت مشرق ِ وسطی ٰ کے امن کے لیے حقیقی نقصان ہے ، جس کی تلافی نا ممکن ہے ۔

چارلی ہیبڈو کی نئی جسارت

فرانسیسی مزاحیہ جریدے کا عملہ اتنا بڑا نقصان اٹھانے کے باوجود باز نہ آیا ۔ ایک بار پھر اس نے گستاخانہ خاکے شائع کر دیے ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ گستاخانہ خاکوں پر مبنی یہ جریدہ 7 لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا ہے ۔  اس کے ساتھ ساتھ اس جریدے کے عملے نے 50 لاکھ کاپیاں شائع کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ عام جریدہ اگرچہ صرف فرانسیسی زبان میں ہوتا تھا ، لیکن گستاخانہ خاکوں پر مشتمل یہ جریدہ انگریزی اور عربی سمیت 16 زبانوں میں شائع کیا جائے گا ، جو دنیا بھر کے 25 ممالک میں فروخت ہوگا ۔

اگر کوئی محمد ﷺ سے جلتا ہے ۔۔۔۔۔۔

بدھ کو پیرس سے شائع ہونے والے مزاحیہ سیاسی جریدے "چالی ہیبدو" کے دفتر پر حملہ  ہوا ۔ جس میں 10 صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 12 یا 14 افراد ہلاک ہوئے ۔ جب کہ 10 افراد زخمی ہوگئے ۔ ہلاک شدگان میں چیف ایڈیٹر اسٹیفن کاربونئیر سمیت تین کارٹونسٹ بھی شامل ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق تین مسلح افراد صبح گیارہ یا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب  میگزین کے دفتر میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔ سکیورٹی گارڈز کی جوابی فائرنگ پر وہ ایک کار چھین کر بھاگنے لگے تو ایک راہگیر  کچلا گیا ۔ حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان  فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔ تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس طرح وہ سکیورٹی گارڈز  کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی چکمہ دینے میں کام یاب ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آور راکٹ لانچر اور کلاشنکوف سے لیس تھے ۔ ان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا : ہم نے پیغمبر ِ اسلام کی شان میں گستاخی کا بدلہ لے لیا ۔ یہ اللہ اکبر کے نعرے بھی لگا رہے تھے ۔ جائے وقوعہ  پر موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے نہایت اطمینا ن سے کا راوئی کی ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عام لوگ نہیں