مسلم دنیا کا ایک دکھتا نا سور

3 مارچ، 1924 ء ۔۔ یہ وہ دن ہے ،جس دن ترکی میں خلافت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ خلافت کے خاتمے میں اپنوں اور غیروں ، دونوں کا ہاتھ تھا ۔ خلافت متحرک نہیں تھی ۔ خلافت کے جسم میں وہ طاقت ختم ہو گئی تھی ، جو مسلمانان ِ عالم کے مسائل حل کر سکتی ہو ۔ ترکی میں قائم خلافت سے کوئی خوش نہیں تھا ۔ انگریز بر صغیر پر چڑھ دوڑے ۔ وہاں کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے کردی ۔ مظالم کی انتہا کر دی ۔ مگر ترکی میں صدیوں سے قائم خلافت مسلمانان ِ بر صغیر کے لیے کچھ کام نہ آئی ۔دوسری طرف عرب بھی ترکی خلافت سے سخت نالاں تھا ۔ انھوں نےپہلی جنگ ِ عظیم کے دوران  ترکی کے خلاف بغاوت کر دی ۔ 



خلافت کے تابوت میں آخری کیل مصطفٰی کمال اتاترک نے ٹھونکی ۔ میں برملا اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ اگر ترکی کو کمال اتاترک جیسا لیڈر نہ ملتا تو ترکی بھی اقوام ِ غیر کے دام میں گرفتار ہو جاتا ۔  مصطفی کمال اتاترک کی اپنی قوم کے لیے خدمات قابل ِ تعریف ہیں ۔ انھوں نے اپنی قوم کی اس وقت مسیحائی کی ، جب قوم مہلک بیماریوں سے چور ہوکر قریب ِ مرگ تھی ۔ مگر ان کی اصلاحات  آج تک مجھ ایسے لوگوں کو کھٹکتی ہیں ۔ انھوں نے اپنے دور میں علماء اور درویشوں پر قدغنیں لگائیں ۔ ترکی ٹوپی اور پردے کو خلاف ِ قانون قرار دے دیا ۔ ان کے دور میں سرکاری افسروں کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنماؤں کے لیے بھی حکومت کا مقرر کردہ لباس پہننا انتہائی ضروری تھا ۔ انھوں نے جمعۃ المبارک کی بہ جائے اتوار کو سرکاری چھٹی کا دن منانے کا حکم صاد ر کیا ۔ ان کے دور میں ترکی کا رسم الخط تبدیل کر دیا گیا ۔ ترکی کا رسم الخط کمال اتاترک کی اصلاحات سے پہلے عربی طرز کا تھا ۔پھر اس کو لاطینی طرز پر ڈھا ل دیا گیا ۔ یہاں تک کہ کئی شہروں کے نام بھی تبدیل کر دیے گئے ۔ مثلا قسطنطنیہ کا نام استنبول رکھ دیا گیا ۔ اور سب سے افسوس ناک اور قابلِ حیرت قدم یہ اٹھایا گیا کہ مسجدوں اوردیگر مذہبی اداروں میں عربی پر پابندی عائد کر دی گئی ۔کمال اتاترک کی ان اصلاحات کے پیچھے جدیدیت پسندی اور قوم پرستی کا جذبہ کار فرما تھا ۔ 


خلافت کے خاتمے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ سکیولر اور اسلام پسند لوگ ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے ۔ کمال اتاترک کی اصلاحات سے مسلمانوں میں سکیولر ازم کی ابتدا ہوئی ۔ لا دینیت بڑھتی گئی اور اسلامیت کم ہوتی گئی ۔ اس صورت میں اسلام پسند لوگوں کا ابھر کر سامنے آجانا ایک فطری عمل  تھا ۔ خلافت کے کچھ عرصے بعد 1928 ء میں مصر میں اسماعیلیہ کے مقام پر ایک اسلام پسند تحریک " اخوان المسلمون " کی ابتدا ہوئی ۔ جب اخوان نے جنم لیا تو اس وقت مصر میں کوئی اسلامی حکومت نہیں تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد مسلم دنیا میں خطرناک قسم کی قوم پرستی نے جنم لیا ۔ ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات تھے ۔ عرب کے لوگ ترکوں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ اور ترک عربوں سے شدید نفرت کرتے تھے ۔ کمال اتاترک کی اصلاحات نے مسلم دنیا میں سکیولر ازم کو بڑھاوا دیا ۔


رفتہ رفتہ اسلام پسند لوگوں نے محسوس کیا کہ محض دعوت و تبلیغ سے فضا بدلنے والی نہیں ہے ۔ اس کے لے سیاست میں آنا ضروری ہے ۔ میں یہاں صرف مصر کا ذکر کروں گا ۔ مصر میں جب حکومت  نے دیکھا کہ اخوان سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے تو انھوں نے اسلام پسندوں کو دبانے کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا ۔ 1949 ء میں اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا ء کو شہید کر دیا گیا ۔ 29 اگست 1966 ء کو ایک اور اخوانی اور مفسر ِ قرآن سید قطب کو پھانسی دے دی گئی ۔1964ء میں سیدات و مسلمات کی بانی زینب الغزالی کو قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ۔ انھیں جیل میں کئی طرح کے مظالم برداشت کرنے پڑے ۔ انھیں 25 سال قید ِبامشقت کی سزا سنائی گئی ۔ لیکن 1971 ء میں انھیں رہا کر دیا گیا ۔ 


جب اسلام پسندوں پر ظلم و تشددہونے لگا تو انھوں نے  بھی حصول ِ حکومت اور نفاذ ِ اسلام کے لیے تشدد کا راستہ اپنا یا ۔ یوں دونوں طرف سے تیر و تفنگ چلنے لگے اور مسلم دنیا اپنوں کے ہاتھوں لہو لہان ہونے لگی ۔ اب حال یہ ہے کہ مارنے والا بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان ہے ۔ اس وقت مسلم دنیا میں 206 اسلامی تحریکیں ہیں ۔ یہ سب کی سب اسلام کا حقیقی احیاء چاہتی ہیں ۔ مسلم دنیا کا بہ نظر ِ غائر مشاہد کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر حکومتیں سکیولر ہیں ۔ یہ بات ان 206 اسلامی تحریکوں کو کھٹکتی ہیں ۔ بالکل اسی طرح ، جس طرح یہ 206 تحریکیں سکیولر حکومتوں اور لوگوں کو کھٹکتی ہیں ۔ اسلامی تحریکیں چاہتی ہیں کہ چین کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک ِ کاشغر ۔۔۔اسلام کا عملی نفاذ ہو جائے ۔ جب کہ سکیولر لوگ انھیں پنپنے نہیں دیتے ۔ یوں مسلم دنیا ایک جان لیوا تناؤ کا شکار ہے۔ 


بلا شبہ سکیولر ازم  کے حامیوں اور اسلام پسندوں کے درمیان بپا مستقل محاذ آرائی روز بروز خطرناک سے خطرناک ہو تی جا رہی ہے ۔بلا شبہہ یہ مسلم دنیا کا ایک دکھتا  نا سور ہے ۔ سکیولر لوگ اسلام پسندوں سے سخت نفرت کرتے ہیں ۔ اور اسلام پسند سکیولر لوگوں کے منھ لگنا پسند نہیں کرتے ۔ یہ امر بہت خطرناک ہے ۔ کیوں کہ اس طرح مسلمان اپنا نقصان اپنےہاتھوں سے کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلاح پسند لوگ ان دونوں طبقوں کے لوگوں کو قریب لے آنے کی کوشش کریں ۔ اگر چہ یہ بہت مشکل کام ہے ، کیوں کہ جان کے دشمنوں کو دوست بنانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔

تحریر: نعیم الرحمان شائق

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے