اشاعتیں

نومبر, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سیرت ِ طیبہ کے دو واقعات

اس امت ِ مرحومہ کو اس پر آشوب اور سخت دور میں اسوہ ِ حسنہ یعنی پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ پر عمل کرنے کی جتنی اب ضرورت ہے ، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سوچتا ہوں کہ ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟ ہم کبھی زمانے کے امام تھے ، مگر اب کیا ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ، تب سے ہم پر مصیبتوں کے دور کا آغاز ہوگیا ۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہم قرآن ِ حکیم کی تعلیمات پر کس طرح عمل کریں گے ، جب کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس پاک کلام کی تعلیمات کیا ہیں ؟ بالکل اسی طرح ، جب ہمیں آقا علیہ السلام کی پاک سیرت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے تو ہم کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر سکیں گے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت ِ طیبہ کی حتی المقدور تشہیر کی جائے ۔ مکتبوں میں ، درس گاہوں میں ، کالجوں میں ، یو نی ورسٹیوں میں ، فیکٹریوں میں ، کارخانوں میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ۔ کیوں کہ آقا علیہ السلام کی سیرت انسانی زندگی کے ہر ہر گوشے کی رہنمائی اور تربیت کرتی

مسکرائیے

سیاست کی گرم بازاری میں مسکرانا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ بہت سے موضوعات بکھرے پڑے ہیں ۔ لیکن سچ پوچھیں تو حالات ِ حاضرہ پر لکھنے کا جی ہی نہیں چاہتا ۔ میں نے پچھلے چند مہینوں سے حالات ِ حاضرہ پر نہیں لکھا ۔ میری کوشش رہی کہ قارئین کو کوئی معلوماتی تحریر پڑھنے کو دے سکوں ۔ آج دل کر رہا ہے کہ اپنے قارئین کے چہروں پر مسکراہٹوں کو سجاؤں۔لطیفوں کے سلسلے میں میرا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ مذاق کی آڑ لے کر کسی مخصوص قوم کو نشانہ بنانا اچھی بات نہیں ہے ۔ ہمارا دین بھی اس سے منع کرتاہے ۔ ہمارے ہاں بہت سے ایسے لطیفے رائج ہیں ، جن میں 'سردار' اور 'پٹھان' کا ذکر ہوتا ہے ۔ اور خاص طور پر ان دونوں کو سخت طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس سے احتراز برتنا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ ایسے لطائف جن سے ابتذال ٹپکتا ہو ، اچھے نہیں ہوتے ۔ یہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں ۔ ایسے لطیفوں سے  بچنا  بھی بے حدضروری ہے ۔  چند لطیفے پیش ِ خدمت ہیں ۔یہ سارے لطیفے میں نے انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹوں سے نکالے ہیں ۔ یعنی اس میں میرا کوئی 'کمال' نہیں ۔