اشاعتیں

2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سیرت ِ طیبہ کے دو واقعات

اس امت ِ مرحومہ کو اس پر آشوب اور سخت دور میں اسوہ ِ حسنہ یعنی پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ پر عمل کرنے کی جتنی اب ضرورت ہے ، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سوچتا ہوں کہ ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟ ہم کبھی زمانے کے امام تھے ، مگر اب کیا ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ، تب سے ہم پر مصیبتوں کے دور کا آغاز ہوگیا ۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہم قرآن ِ حکیم کی تعلیمات پر کس طرح عمل کریں گے ، جب کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس پاک کلام کی تعلیمات کیا ہیں ؟ بالکل اسی طرح ، جب ہمیں آقا علیہ السلام کی پاک سیرت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے تو ہم کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر سکیں گے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت ِ طیبہ کی حتی المقدور تشہیر کی جائے ۔ مکتبوں میں ، درس گاہوں میں ، کالجوں میں ، یو نی ورسٹیوں میں ، فیکٹریوں میں ، کارخانوں میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ۔ کیوں کہ آقا علیہ السلام کی سیرت انسانی زندگی کے ہر ہر گوشے کی رہنمائی اور تربیت کرتی

مسکرائیے

سیاست کی گرم بازاری میں مسکرانا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ بہت سے موضوعات بکھرے پڑے ہیں ۔ لیکن سچ پوچھیں تو حالات ِ حاضرہ پر لکھنے کا جی ہی نہیں چاہتا ۔ میں نے پچھلے چند مہینوں سے حالات ِ حاضرہ پر نہیں لکھا ۔ میری کوشش رہی کہ قارئین کو کوئی معلوماتی تحریر پڑھنے کو دے سکوں ۔ آج دل کر رہا ہے کہ اپنے قارئین کے چہروں پر مسکراہٹوں کو سجاؤں۔لطیفوں کے سلسلے میں میرا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ مذاق کی آڑ لے کر کسی مخصوص قوم کو نشانہ بنانا اچھی بات نہیں ہے ۔ ہمارا دین بھی اس سے منع کرتاہے ۔ ہمارے ہاں بہت سے ایسے لطیفے رائج ہیں ، جن میں 'سردار' اور 'پٹھان' کا ذکر ہوتا ہے ۔ اور خاص طور پر ان دونوں کو سخت طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس سے احتراز برتنا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ ایسے لطائف جن سے ابتذال ٹپکتا ہو ، اچھے نہیں ہوتے ۔ یہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں ۔ ایسے لطیفوں سے  بچنا  بھی بے حدضروری ہے ۔  چند لطیفے پیش ِ خدمت ہیں ۔یہ سارے لطیفے میں نے انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹوں سے نکالے ہیں ۔ یعنی اس میں میرا کوئی 'کمال' نہیں ۔ 

قرآن ِ حکیم کےریاضیاتی اعجازات

قرآن ِ مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ، جو آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ چوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ، لہٰذا اس جیسا کلام لانا مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہے ۔ سورۃ الاسراء کی آیت نمبر 88 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "کہہ دو اگر سب آدمی اور سب جن مل کر بھی ایسا قرآن لانا چاہیں تو ایسا نہیں لا سکتے اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار کیوں نہ ہو۔" سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 23 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : "اور اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آؤ، اور اللہ کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلا لو اگر تم سچے ہو۔" یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سورۃ الاسراء مکی سورت ہے ، جب کہ سورۃ البقرہ مدنی سورت ہے ۔ یعنی پہلے کہا گیا کہ قرآن ِ حکیم جیسا دوسرا کلام لانا نا ممکن ہے ۔ پھر کہا گیا کہ پورا کلام لانا تو درکنار ، اس جیسی ایک

عمدہ اخلاق قرآن ِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں

اسلام کو سمجھنے کے دو بنیادی ذرائع ، قرآن حکیم اور احادیث ِ مبارکہ ہیں ۔ یعنی کتاب و سنت ۔ اگر ہم ان دونوں ذرائع کا بہ خوبی مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم ، آج کل کے اس مادی دور میں ، شاید ہی عملی مسلمان ہوں ۔ 'عملی' کیا ، ہم تو'علمی' مسلمان بھی  نہیں رہے ۔یعنی ہم اپنے دین کو جانتے ہی نہیں ہیں ۔ جب جانتے ہی نہیں ہیں ، تو عمل کیوں کر ہوگا ۔ ایک دور تھا ، جب عوام کے لیے اسلامی تعلیمات کو سمجھنا از حد مشکل تھا ۔ لیکن اب سچے علما کی محنتوں اور کوششوں سے یہ مشکلا ت خاصی آسان ہو گئی ہیں ۔جدید دور نے اور بھی آسانیاں پیدا کرد ی ہیں ۔ عام لوگ عربی نہیں سمجھتے ، لیکن اردو سمجھ لیتے ہیں ۔ قرآن ِ حکیم اور احادیث ِ مبارکہ کے آسان ترجمہ شدہ نسخے آسانی سے بازار میں مل جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی ویب سائٹیں بھی بن چکی ہیں ، جن کی مدد سے ہم بہ آسانی دین ِ اسلام کو سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے ذوق و شوق کی ضرورت ہے ، جو فی الوقت ہماری قوم میں معدوم ہے ۔ 

نصیحت آموز باتیں

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں  کہ جن کو ایک بار پڑھا جائے تو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک ایسی ہی کتاب میری نظروں سے گزری ۔ اس کتاب کو سرسری طور پر دیکھا تو یہ ایک نصیحت آموز کتاب تھی ۔ اس میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بزرگان ِ دین کی نصیحتیں تھیں ۔ میرا ماننا ہے کہ جو کتاب جنتے زیادہ خلوص کے ساتھ لکھی جائے گی ، اس کی قدر واہمیت اسی قدر زیادہ ہوگی ۔وہ اسی قدر شہرت حاصل کرے گی ۔ مذکورہ بالا کتاب  کے مولف نصر بن محمد بن احمد بن ابراہیم ہیں ۔ یہ بزرگ اور عالم ِ دین الفقیہ ابو اللیث سمرقندی کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان کا انتقال سن 373 ہجری میں ہوا تھا ۔ کتاب  کانام "تنبیہ الغافلین " ہے ۔ غور کریں کہ مولف کے انتقال کو ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ، لیکن ان کی کتاب ہنوز پڑھی جارہی ہے ۔ آج میں اسی کتاب کی چند اچھی اور نصیحت آموز باتیں اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ کیوں کہ اچھی بات کو دوسروں تک پہنچانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے ۔

نائین الیون نے کیا دیا؟

9/11 کا واقعہ 2001ء میں پیش آیا ۔ اس واقعے کے نتیجے میں 2750 لوگ نیو یارک میں ، 184 پینٹاگون میں اور 40 لوگ پینسلوانیا میں ہلاک ہوئے ۔ امریکا نے ان دھماکوں کا ذمہ دار القاعدہ کو قرار دیا۔ یہ امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ بھیانک ترین اور موت آور دھماکے سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ دراصل چار فضائی حملے تھے ۔ واضح رہے کہ جن طیاروں سے یہ حملے کیے گئے ، وہ امریکا کے اغوا شدہ طیارے تھے ۔ 11 ستمبر کو صبح آٹھ بجے ایک طیارہ امریکا کی بلندو بالا عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرایا ۔ اٹھارہ منٹ بعد تباہ شدہ عمارت کے قریب ، دوسری عمارت سے دوسرا طیارہ ٹکرایا ۔ ایک گھنٹے بعد تیسرا اغوا شدہ طیارہ پینٹا گون پر گرایا گیا ۔ آدھے گھنٹے بعد پنسلوانیا میں ان حادثات سے ملتا جلتا ایک حادثہ پیش آیا ۔ اس عظیم واقعے نے عالمی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ۔ دراصل یہی وہ عظیم واقعہ ہے ، جس سے پورے عالم میں صحیح طور پر امریکی برتری کا آغاز ہوا ۔ اس لیے اس واقعے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس دن ہونے والے چار حادثات میں لگ بھگ 2974 لوگ ہلاک ہوئے ، لیکن ان 2974 لوگوں کی ہلاکت کے بدلے میں امریکا

چودہ اگست کا پیغام

14 اگست 1947ء کو ہمارا پیارا وطن پاکستان معرض ِ وجود میں آیا۔ یہ وہ عظیم دن ہے ، جس دن مسلمانان ِ ہند کو آزادی ملی ۔ آزادی کی اس تحریک میں بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ، شاعر ِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، سرسید احمد خان ، نواب محسن الملک ، نواب وقارالملک ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی جوہر ، اے کے فضل الحق ، چوہدری رحمت علی اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے قائدین کی انتہائی اہم خدمات ہیں ۔ جو خواب حکیم الامت ، شاعر ِ مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تھا ، بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کو شرمندہ ِ تعبیر کیا ۔ پاکستان کی بنیاد "دو قومی نظریہ" پر رکھی گئی تھی ۔ اس نظریے کے بانی سر سید احمد خان تھے ۔ سر سید احمد خان کے قائم کردہ علی گڑھ کالج کے طالب علموں نے تحریک ِپاکستان میں انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں ۔ اس طرح مسلمانان ِ ہند کی آزادی میں سر سید احمد خان نے اہم کردار ادا کیا  تھا ۔

مظلوم انسانیت کے حق میں اٹھنے والی آوازیں

کچھ لوگوں کی نظر میں سب سے اہم شے انسانیت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ بغیر کسی مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی تفریق کے ، انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔ یہ لوگ واقعی عظیم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ بہادر بھی ہوتے ہیں  کہ گھٹن زدہ ماحول میں انسانیت کے حق میں آوازیں بلند کرتے ہیں ۔ دراصل انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ مظلوم چاہے اپنوں میں سے ہو، یا غیروں میں سے ۔۔مظلوم ، مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ ناانصافی ہے کہ اپنے مظلوم کے خلاف تو آواز بلند کی جائے ، لیکن جو اپنا مظلوم نہ ہو ، اس کو مظلوم ہی نہ سمجھا جائے ۔ اسی طرح اپنا ظالم ، ظالم نہ لگے ۔ لیکن دوسروں کے ظلم کی خوب تشہیر کی جائے ۔ بہت سے مظلوم سیاست کی آڑ میں ، ظلم کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور انھیں خبر ہی نہیں ہوتی ۔ سیاست ایک خونی کھیل ہے ۔ میرے خیال میں تاریخ ِ انسانیت میں جتنا ظلم سیاست کے نام پرہوا ، کسی اور نام پر نہیں ہوا ۔ بہر حال انسان پر ہونے والے ظلم کے خلاف جو آواز بھی بلند ہو ، ہمیں اس کو سراہنا چاہیے ۔ چاہے وہ آواز اپنے بلند کریں یا غیر ۔

کشمیر کا لہو

برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے لے کر اب تک وادی ِ کشمیر لہو لہان ہے ۔یہ وادی اکثر و پیشتر لہو لہان ہوتی رہتی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جو کچھ ہو رہا ہے ، پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔اس وادی کے بار بار سلگنے کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔ اگر اس دفعہ پچاس سے زائد لوگ شہید اور کئی سو لوگ زخمی ہوگئے تو کیا ہوگیا ۔ جو چیز بار بار ہوتی آرہی ہے ، اس پر احتجاج ، واویلا ، غصہ ، اقوام ِ متحدہ میں آواز اور یوم ِ سوگ کا کیا فائدہ ! ہاں ، اثرات نظر آئیں تو پھر چیخ و پکار بھی ہونی چاہیے ، شور بھی ہونا چاہیے ، احتجاج کی ہڑبونگیں بھی ہونی چاہئیں ۔ اقوام ِ متحدہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے اور یوم ِ سوگ بھی منانا چاہیے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری ان 'حرکات ' سے کشمیر کے منظر نامے میں ذرا سی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوئی ۔ ظلم اسی طرح جاری ہے ۔تشدد کا اسی طرح عروج ہے ۔ وادی اسی طرح اداس ہے ۔

محمد احمد سبزواری نہیں رہے

کل کی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک کی 'سوشل میڈیا  سلیبریٹی' قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا ہے ۔میڈیا بتاتا ہے کہ ان کو ان کے بھائی نے غیرت  کے نام پر قتل کیا ۔وہ متنازعہ تو تھیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو یوں ہی قتل کر دیا جاتا ۔ بہر حال اب وہ دنیا میں نہیں رہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ کل ایک  اور افسوس ناک خبر بھی آئی ۔مگر یہ افسوس ناک صرف مجھ جیسے لوگوں کے لیے ہوسکتی ہے ۔ ہوسکتا ہے ، آپ بھی یہ 'افسوس ناک'خبر پڑھ کر مسکرا دیں ۔ خبر یہ ہے کہ محمد احمد سبزواری ، جو کہ معروف کالم نگار اور میعشت دان تھے ، 104 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس اخبار کے لیے انھوں نے 23 سال تک کالم نگاری کی تھی ، اس میں دوسرے صفحے پر ایک یک کالمی   خبر شائع ہوئی ۔ مجھے کل فیس بک پر  ڈاکٹر رئیس صمدانی صاحب کی ایک پوسٹ کی وساطت سے اس خبر کا علم ہوا ۔ درحقیقت محمد احمد سبزواری جیسے لوگ ہمارے لیے اصل اور حقیقی سلیبریٹی کی حیثیت رکھتے  ہیں ۔

ہمارے ایدھی بابا چلے گئے

ہمارے ایدھی بابا چلے گئے ۔ جانا تو سب کو ہوتا ہے۔سب کی منزل وہی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ جا کر بھی نہیں جاتے ۔پتا ہے ، وہ کون لوگ ہوتے ہیں ؟ ہمارے بابا جیسے لوگ ۔یعنی وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں ۔ جن کی خواہشیں ، جن کی امنگیں، جن کی خوشیاں ۔۔غرض سب کچھ دوسروں کے لیے وقف ہوتا ہے ۔ بابا ایدھی کا پورا نام عبدالستار ایدھی تھا ۔لیکن وہ ہمارے بابا تھے ۔ پوری قوم کے بابا ۔غریب بستیوں کے رہنےوالوں کے  بابا۔سچ پوچھیے تو پوری انسانیت کے بابا ۔اس لیے میں ان کو بابا ایدھی کہوں گا ۔ تاریخ ِ پاکستان میں ہم نے ایسا بابا نہیں دیکھا ۔ ہمارے قومی شاعر نے کہا تھا ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مسجد ِ نبوی کے قریب حملہ۔۔۔مسلمان کب جاگیں گے؟؟

خلیفہ ِ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور ِ حکومت میں جب باغی مدینہ منورہ تک پہنچ گئے تو ایسے نازک حالات میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تین تجویزیں پیش کیں ۔ ان  میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ آپ جہاد کا حکم دے دیجیے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ برد بار اور حلیم الطبع تھے ۔آپ نے فرمایا :"مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوکر امت کا خون بہاؤں ۔میں وہ خلیفہ نہیں بنوں گا ، جو امت ِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام میں خون ریزی کی ابتدا کرے ۔"یہ واقعہ مجھے مسجد ِ نبوی کے قریب ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے پر یاد آیا۔ جس میں چار لوگ شہید ہوگئے ۔ یہ کون لوگ ہیں ، جو سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ کے قریب خود کش دھماکے کرنے سے نہیں چوکتے ۔ بے شک یہ اندوہ گیں واقعہ  تما م عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لیے لمحہ ِ فکریہ ہے۔ ایک ایسا مقام جس کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے مجھ ایسے ناتواں اور عاصی شخص کے لفظوں کا ذخیرہ ختم ہوجائے ، لیکن عظمت ختم نہ ہو ۔ ایک ایسا مقام جہاں بادشا ہ ، فقیر بن

سبق آموز واقعات

اچھا انسان وہ ہوتا ہے ، جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے نصیحت پکڑتا ہے ۔وہ قصوں ، کہانیوں کو محض تفنن ِ طبع کے لیے نہیں پڑھتا ، بلکہ ان میں پنہاں سبق اور نصیحت پر عمل کرکے اپنی اصلاح کرتا ہے ۔ دنیا کی سب سے سچی کتا ب اور اللہ تعالیٰ کے آخری صحیفہ ِ ہدایت میں حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کا پر عبرت قصہ بیان کر کے کہا گیا : "یقیناََ ان کے قصوں میں عقل مندوں کے لیے سامان ِ عبرت ہے۔"(سورۃ یوسف ، آیت نمبر 111) آج کی تحریر میں چند سبق آموز وقعات بیان کیے جائیں گے ۔ یہ واقعات اس لیے لکھے جارہے ہیں ، تاکہ سبق یا نصیحت حاصل ہو ۔ اس لیے کتابوں  کا حوالہ نہیں دیا جائے گا ۔ کیوں کہ نصیحت کے لیے سند کی اتنی حیثیت نہیں ہوتی ۔ 

اسلام کا ضابطہ ِ اخلاق

ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟اس کا جواب فی الوقت نہیں مل رہا ۔ اگر کوئی عام شخص اخلاق سے گری ہوئی بات کرے تو زیادہ افسوس نہیں ہوتا کہ وہ ہے ہی عام شخص ۔ مگر جب خواص بھی بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے لگیں تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ جو کچھ حافظ حمد اللہ اور ماروی سرمد کے درمیان ہوا ہے ، وہ پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ یو ٹیوب ایسی وڈیو کلپس سے بھری پڑی ہے ، جو ہمارے خواص کے اخلاقی دیوالیہ پن کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا وہ ضابطہ اخلاق اپنائے ۔ جس کا درس اللہ  تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں ۔ہمارا دین اخلاق  کا سب سے بڑا داعی ہے ۔ آج کی تحریر میں ہم کسی حد تک اسلامی ضابطہ ِ اخلاق کا جائزہ لیتے ہیں :

بِاَىِّ ذَنبٍ قُتِلَتۡ

وطن ِ عزیز میں پے در پے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں ، جن کا ہماری تہذیب و تمدن سے نہ کوئی واسطہ ہے ، نہ ہمارے دین سے ان کا کوئی تعلق ہے ۔لگتا ہے ، عورت کی مظلومیت کا سلسلہ زمانہ ِ جاہلیت کی طرح آج بھی جاری و ساری ہے ۔یہ سلسلہ ابھی تک نہیں ٹوٹا ۔ نہ جانے یہ کب ٹوٹے گا ۔پے در پے وطن ِ عزیز میں تین ایسے واقعات پیش آچکے ہیں ، جن کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ یعنی لڑکیوں کو زندہ جلا دینے کے واقعات ۔ہم نے سنا ہے ، ماؤں کے سینوں میں اولاد کی محبت سے لبریز دل دھڑکتے ہیں ۔ مگر یہ کیا ہو رہا ہے کہ ایک ماں اپنی سترہ سالہ بیٹی کو زندہ جلادیتی ہے ۔ سنا ہے ، باپ سارا دن محنت ہی اس لیے کرتا ہے ، تاکہ اس کی اولاد پروان چڑھے ، ان کی اچھی تربیت ہوسکے اور ان کی تعلیم کا بندوبست ہوسکے ۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ ایک والد اپنی سگی بیٹی کو قتل کرکے خود کو پولیس کے حوالے کر رہا ہے ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد آمد ہے ۔ اس ماہ ِ مقدس میں مسلمانان ِ عالم ،اسلام کا ایک اہم رکن بڑے ذوق وشوق سے ادا کرتے ہیں ۔ روزہ اسلام کے پانچ اہم ارکان میں سے ایک ہے ۔اسلام کی عمارت جن پانچ ستونوں پر استوار ہے ، روزہ ان میں سے ایک انتہائی اہم ستون ہے ۔ صحیحین کی مشہور ِ زمانہ حدیث ہے: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ۔ اس امر کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ نماز پڑھنا ۔ زکٰوۃ دینا ۔ حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔" ـ (مشکوٰ ۃ المصابیح ، حدیث نمبر 3، راوی : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ)

نقل بھی ایک آرٹ ہے

جب سے ہمارے ہونہار طلبہ و طالبات کے امتحانات شروع ہوئےہیں ، اخبارات نے "پکڑے گئے" جیسے لاحقے والی خبریں شائع کرنا شروع کر دی ہیں ۔ مثال کے طور پر،"اردو کے پرچے میں 24 طلبہ نقل کرتےہوئے پکڑے گئے " ، "حیاتیات کے پر چے میں 10 طلبہ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے" وغیرہ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں ایسی خبریں بالکل اچھی نہیں لگتیں اور اچھی لگنی بھی نہیں چاہئیں ۔ کیوں کہ ان خبروں سےہمارے ذہین ، ہو ش یار ، لائق اور ہونہار طلبہ و طالبات کی شرمندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ، مگر مستقبل کے معماروں کی ایسی بے عزتی ہر گز ۔۔ہر گز برداشت نہیں کر سکتے ۔

لیاری والے

یہ کوئی چودہ پندرہ سال کا بچہ ہوگا ۔جو چند معزز مہمانوں کے سامنے انگریزی میں تقریر کر رہا تھا ۔ بچہ فر فر بول رہا تھا ۔ یوں لگتا تھا ، جیسے انگریزی اس کی مادری زبان ہے ۔ وہ علم کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا ۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو اس کے استاد نے دوبارہ تقریر کرنے کا حکم دیا  ۔ کیوں کہ اس کے استاد نے اس کی تقریر نہیں سنی تھی ۔ بچے نے دوبارہ تقریر کی ۔ لیکن تغیر و تبدل کے ساتھ ۔ جس سے واضح ہو گیا کہ بچہ کچھ حد تک فی البدیہہ تقریر کر رہا تھا ۔ اس نے کسی انگریزی کتاب یا کسی ویب سائٹ سے  سو فی صد تقریر نہیں رٹی تھی ۔ بلکہ بہت ساری باتیں اس کی اپنی تھیں ۔ بچے نے تقریر میں ولیم شیکسپئیر اور نیلسن منڈیلا کے اقوال بھی حاضرین کا بتائے ۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ بچے کا مطالعہ بھی وسیع ہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بچہ لیاری کے ایک غیر معروف پرائیویٹ اسکول میں جماعت ِ ہفتم کا طالب ِ علم ہے ۔

اسلام یا سکیولر ازم؟

بلجیم کا دارالحکومت برسلز دھماکوں سے لرز اٹھا ۔ نتیجے میں 37 ہلاک  اور 200 زخمی ہوئے ۔ برسلز کا شہر اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ نیٹو کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے  ۔ مبصر کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ دوسرا نائین الیون ثابت ہوگا ۔  ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ امت ِ مسلمہ پر رحم فرمائے ۔ آمین  14 اگست ہو یا 23 مارچ یا کوئی اور قومی دن ہو ، نظریاتی بحث میں الجھنا ہمارے دانش وروں کی عادت بن چکی ہے ۔ نظریاتی جنگ بھی بہت بڑی جنگ ہوتی ہے ۔ اس سے انسانوں کا خون تو نہیں بہتا ۔ البتہ نفرتیں ضرور پروان چڑھتی ہیں۔ہم کئی اقسام میں منقسم ہیں ۔ اس لیے آج کل ہمیں قوم نہیں ، بلکہ جتھا یا ریوڑ کہا جاتا ہے ۔ان دنوں فرقہ وارانہ بحث سے زیادہ "اسلام یا سکیولر ازم" پر بحث ہوتی ہے ۔  

بھارتی وزیر ِ اعظم کا اعتراف ِ حقیقت

اس میں شک نہیں کہ اسلام امن کا دین ہے ۔ اس دین میں پوری انسانیت کی بقا پنہاں ہے ۔  اس گئے گزرے دور میں یہی وہ دین ِ متین ہے ، جس میں انسانیت کے ہر مرض کی شفا ہے ۔ ہر دکھ کا درد اس دین میں موجود ہے ۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ، غیر مسلموں کے لیے بھی رحمت ہے ۔ اس دین میں دہشت گردی نہیں ہے ۔ مغرب اور اسلام مخالف لوگ جتنا چاہیں ، اس دین  ِ مبین سے دہشت گردی کو جوڑتے رہیں ، لیکن جن کے سامنے حقیقیت عیاں ہو جائے گی ، وہ پکار اٹھیں گے کہ بلا شبہہ دہشت گردی کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وہ  لوگ اس دین ِ مبین کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے ۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اہل ِ مغرب کو پریشان کر دیا ہے ۔ کئی مشہور لوگ اسلام قبول کر چکےہیں ۔ غیر مشہور لوگ نہ جانے کتنے ہیں ۔ یہ اسلام کا وہ اعجاز ہے ، جو اس کی حقانیت و صداقت کی  سب سے بڑی مثال ہے ۔

پانی کا بحران

پانی زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 30 سے لگایا جا سکتا ہے ۔  اس آیت ِ مقدسہ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اور ہم نے ہر جا ن دار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ تو کیا پھر یہ ایمان نہیں لائیں گے ؟"اس کے علاوہ بھی قرآن ِ حکیم کی بہت ساری آیات ِ مبارکہ میں زندگی کی اس بنیادی ضرورت کا ذکر آیا ہے ۔ ان آیات کی رشنی میں یہ کہنا بالکل حقیقت ہے کہ پانی زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے ۔ اس عظیم نعمت ِ خداوندی سے نہ صرف انسانوں کی زندگی وابستہ ہے ، بلکہ دیگر جاندار بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ یعنی ہر جاندار کے بنیادی خمیر میں پانی رکھ دیا گیا ہے ۔ اب بغیر پانی کے یہ جان دار کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ 

نا انصافی

قوموں کی نوک پلک سنوارنے میں انصاف اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنگل کو جنگل اس لیے کہا جاتا ہے ، کیوں کہ وہاں انصاف نہیں ہوتا ۔ یوں ہی نہیں کہا گیا کہ   کفر پر قائم حکومت   زندہ رہتی ہے ، جب کہ ظلم اور نا انصافی پر قائم حکومت اپنا وجود کھو دیتی ہے ۔ کسی بھی حکومت کے لیے انصاف قائم کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے ۔ انصاف کیا ہے ؟ انصاف یہ ہے کہ سب کے حقوق کی پاس داری کی جائے ۔ کسی کو کم تر نہ سمجھا جائے ۔ سزا سب کے لیے یک ساں ہو ۔ اگر کوئی امیر جرم کرے تو اسے وہی سزا ملنی چاہیے ، جو غریب کواسی جرم کے کرنے پر دی جاتی ہے ۔ اگر کوئی حکومت نا انصافی کرتی ہے ، تو وہ عوام سے زیادہ اپنا نقصان کرتی ہے ۔ کیوں کہ عوام ایسی حکومت کو پسند ہی نہیں کرتی ، جو انصاف نہ کرے ۔ اور کبھی کبھا ر عوام کی یہی نا پسندیدگی  حکومت کے لیے وبال ِ جاں بن جاتی ہے ۔ زیرک اور عقل مند حکم ران وہی ہوتا ہے ، جو سب کو دیکھ کر چلتا ہے اور حتی الامکان اپنی راج دھانی میں انصاف پر مبنی نظام ِ حکومت کو فروغ دینے کے لیے  مصروف ِ عمل رہتا ہے ۔

بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں

وہ ایک عام علاقے کا عام آدمی تھا ۔ غریب تھا ، سو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ صبح کو اٹھ کر ناشتا کرنا ، پھر بچوں کو اسکول چھوڑنا ، پھر محنت مزدوری کرنے کے لیے بازار کا رخ کرنا اور پھر شام کو گھر لوٹ آنا ۔ یہی اس کا برسوں کا معمول تھا ۔ کبھی کبھار شام کو وہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ لیتا تھا ۔ تاکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں اسے آگاہی حاصل ہو ۔ وہ پانچ جماعتیں پاس تھا ۔ اس نے کسی گورنمنٹ اسکول میں کافی عرصہ پہلے ، جب وہ بچہ تھا ، یہ پانچ جماعتیں پاس کی تھیں ۔ لیکن اسے اپنی ان پانچ جماعتوں پر آج کی گریجویشن سے بھی زیادہ فخر تھا ۔ اس کے خیال میں اُس کی پانچ جماعتیں ، آج کے گریجویشن سے بھی بہتر تھیں ۔ بہر حال یہ اس کا خیال تھا ۔ اس کے اس خیال سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے ، کلی طور پر نہیں ۔ پاکستان کی سیاست پر اس کی گہری نظر نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اخباروں کا ڈھیر لگا کر سارا دن پڑھتا رہے ۔  لیکن شام کو ٹی وی پر خبریں دیکھنے کی وجہ سے اس کو ملک میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ضرو

عوام سب کچھ سمجھ گئے

نئی حکومت نے آتے ہی منادی کی کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے ۔ توانائی کا بحران ٹال دیں گے ۔ہم ملک میں شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔ ہم ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کا سخت احتساب کریں گے ۔ کسی کو ملک کا خزانہ لوٹنے نہیں دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو معمول کی باتیں تھیں ۔ جو ہر آنے والی حکومت اپنی سیاست پر چار چاند لگانے کے لیے اور عوام کے دل جیتنے کے لیے کیا کرتی تھی ۔ لیکن اہل ِ بصیرت جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہی رہے گا ۔ کچھ نہیں بدلے گا ۔ کرپشن اور لوٹ مار جوں کی توں جار ی رہے گی ۔ کیوں کہ یہ مسئلہ تو کئی سالوں پرانا تھا ۔ ہر حکومت آنے سے پہلے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی ۔ لیکن جب وہ حکومت  رخصت ہوتی تو یہ کرپشن پہلے سے بڑھ چکی ہوتی ۔ اس لیے اب کی بار بھی  سلجھے ہوئے لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ مسئلہ بالکل ختم نہیں ہوگا ۔  چاہے اس کے لیے جتنی بھی باتیں کی جائیں ۔

نج کاری کی کہانی

کسی ملک میں حکومت نے ایک ادارہ بنایا ۔ اس پر خوب محنت کی گئی ۔ اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے خوب سرمایا لگایا گیا ۔ کیوں کہ روزی روٹی کا مسئلہ تھا ۔ بڑے لوگ سمجھتے تھے کہ محنت کریں گے تو کچھ ہا تھ لگے گا ۔ سرمایہ خرچ ہوگا تو کچھ ملے گا۔ سو حکومت کی محنت رنگ لائی ۔ ادارہ بن گیا ۔ لوگ آتے گئے  اور کارواں بنتا گیا ۔یہ ادارہ کافی منافع بخش ثابت ہوا ۔ اس نے کئی لوگوں کی روزی روٹی کا مسئلہ حل کیا ۔ کئی خاندانوں کو سہارہ دیا ۔ اس ادارے نے حکومت کو بھی فائدہ دیا، عوام کو بھی مالا مال کیا ۔ وجہ اس کا معیار تھا ۔ جس ادارے پر محنت کی جائے گی تو خود بہ خود اس کا معیار بن جائے گا ۔ یہ معیار ہی تھا کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر اس ادارے کو مشہور کر دیا ۔دیگر ممالک کے ادارے ، یہاں کے عملے سے مستفید ہونے لگے ۔ یوں اس ادارے نے  بہت سے ممالک کے دوسرے اداروں کو بنایا اور سنوا را ۔ کہتے ہیں کہ محنت کا پھل ملتا ہے ۔ بے شک ملتا ہے ۔ اس ادارے پر جس طرح محنت کی گئی ، اس محنت نے اس کو ہر جگہ سر خرو کر دیا ۔

کشمیر کا مسئلہ

بازار میں اسی چیز کی رسد زیادہ ہوتی ہے ، جس کی مانگ زیادہ ہو ۔ جس چیز کی مانگ ہی نہ ہو ، تاجر اس کو کیا بیچے گا ۔ بازارِ صحافت میں 5  اور 6 فروری کو "کشمیر " کی مانگ زیادہ تھی ۔ سو اس کے نام پر شہرت کا خوب کاروبار سجا ۔ جس طرح ہر سال سجتا ہے ۔ 5 فروری کو ٹی وی پر اور 6 فروری کو اخباروں میں کشمیر کے سلسلے میں بہت کچھ کہا گیا ، سنا گیا ، لکھا گیا اور پڑھا گیا ۔ اب اس کے بعد طلب اور رسد کا اصول مد ِ نظر رکھتے ہوئے مجھے کشمیر پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے ۔ ویسے بھی ہمارے عوام حالات ِ حاضرہ پر مبنی تحریریں پڑھتے ہیں ۔ 5 فروری کے گذ ر جانے کے بعد کشمیر کا موضوع حالات ِ حاضرہ کا موضوع نہیں رہا ۔ کہاں 6 فروری کی یہ شب ، جب میں اس موضوع پر چند جملے قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور کہاں 5 فروری ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے ۔ لمحوں لمحوں میں کئی حادثات و واقعات جنم لیتے ہیں ۔ مجھے فی الحقیقت تازہ سے تازہ تر اور تازہ تر سے تازہ ترین واقعے پر لکھنا چاہیے ۔ بازار ِ صحافت کا اصول ِ طلب و رسد بھی مجھ سے اسی عمل کی توقع رکھتا ہے ۔

غربت کی ایک بڑی وجہ اور اس کا سد ِ باب

ان دنوں سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان  'مک مکا ' کا میچ جاری ہے۔ جب کہ خیبر پختون خوا کی حکومت اس میچ کے انجام کی بڑی شدت سے منتظر ہے ۔ ہمارے وفاقی وزیر ِ داخلہ پچھلے کچھ دنوں سے بیمار تھے ۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا بر ملا اظہار کر دیا کہ قائد ِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاقی حکومت سے مک مکا کیا تھا ۔ دوسری طرف ہمارے قائد ِ حزب اختلاف بھی بڑی جوشیلی طبیعت کے مالک ہیں ۔ انھوں نے چوہدری صاحب کو وزیر ِ اعظم کے آستینوں کے سانپوں میں سے ایک سانپ کہہ دیا ۔ تیسری طرف خان صاحب کو موقع مل گیا ۔ انھوں نے مک مکا کی قیمت کی  بابت دریافت کر لیا ۔انھوں نے سوال کر دیا کہ حکومت نے خورشید شاہ کو خریدنے کے لیے کتنی قیمت ادا کی ؟بہر حال ایک عجیب تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ تناؤ دو طرفہ نہیں ، سہ طرفہ ہے ۔ 'مک مکا' فی الوقت پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے ۔ کالم نگار کی حیثیت سے مجھے بھی حالات ِ حاظرہ  کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے 'مک مکا' پر لکھنا چاہیے ۔ لیکن اس ساری صورت حال کے باوجود میں جان بوجھ کر آج کے کالم میں کوئی اور موضوع اٹھا رہا ہوں

سانحہ ِ چار سدہ ۔۔۔۔ دورہ ِ عرب و ایران

سو فی صد توجہ اس طرف مر تکز تھی کہ اس بار وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ ِ عرب و ایران پر لکھوں گا ۔ لیکن کیا کروں  اس خزاں رت کا ۔۔۔ جو وطن ِ عزیز میں  بہار کو پنپنے ہی نہیں دیتی ۔ کیا کروں اس حادثے کا ۔۔۔جس نے پوری قوم کو سوگ وار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سو آج کی میری تحریر دو موضوعات پر مشتمل ہوگی ۔ یعنی سانحہ ِ چارہ سدہ اور اور وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کا دورہ ِ عرب و ایران۔ بدھ کی صبح نو بجے چار مسلح لوگ پشاور کے ضلع چار سدہ میں با چا خان یو نی ورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی ۔ جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 لوگ شہید ہوگئے ہیں ۔ ان 21 شہیدوں میں سے 19 طلبہ تھے ۔ ایک لیب اسسٹنٹ تھا اور ایک پروفیسر تھے ۔

شام میں ظلم کی شام کب ڈھلے گی؟

شام ، جہاں پچھلے کئی سالوں سے موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ، نہ جانے وہاں کب ظلم کی شام ڈھلے گی ۔ جتنے منھ ہیں ، اتنی باتیں ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ،بڑی طاقتیں روس اور امریکا یہ جنگ کر وارہی ہیں ، تاکہ ان کا اسلحہ بک سکے ۔ کوئی کہتا ہے ، یہ شیعہ سنی قضیہ ہے ۔  کوئی کہتا ہے ، یہ عرب و عجم کی لڑائی ہے ۔ کوئی کیا کہتا ہے ، اور کوئی کیا ۔  جو کچھ بھی ہے ، ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ ان بد نصیبوں پر جو ظلم کی کالی رات چھائی ہوئی ہو ، جلد از جلدامن و سلامتی کی سحر میں تبدیل ہو جائے ۔ امت ِ مرحومہ کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔ پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسائل تھے ۔ اب شام کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی ، ایران کا مسئلہ بھی  خطرناک صورت حال پیش کر رہا ہے ۔ جب تک مسلم امہ نا اتفاقی کا شکار رہے گی ، اس کے مسائل بڑھتے جائیں گے ۔ 

ڈی ایف اے ساؤتھ کی مثبت پیش رفت

کسی پس ماندہ علاقے سے مثبت خبر آئے تو اس کی ضرور تشہیر کرنی چاہیے ۔ غریب کی بستی میں روٹی تقسیم ہورہی ہو تو خوب ڈھنڈورا پیٹنا چاہیے ۔ جہاں سے ہر وقت منفیت کی گونج سنائی دے ، اگر وہاں سے اثبا ت کی تھوڑی سی مہک بھی محسوس ہو ، اسی وقت سارے عالم کو بتا دینا چاہیے ۔ تاکہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو ، جو یہ کار  ہائے خیر سر انجام دے رہے ہوں ۔ ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی مثبت خبر کو موضوع ِ سخن بناؤں ، لیکن یہ کوشش ہمیشہ نہیں تو اکثر اکارت جاتی ہے ۔ اب تو ہمارے لوگ بھی ایسے موضوعات پسند کرنے لگے ہیں ، جن میں مہنگائی کا رونا ہو ، غربت کی دہائی ہو ، لاشوں کے سانحے ہوں ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا مصالحہ ہو  یا ان موضوعات سے ملتا جلتا کوئی موضوع ہو ۔