بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں
وہ ایک عام علاقے کا عام آدمی تھا ۔ غریب
تھا ، سو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ صبح کو اٹھ کر
ناشتا کرنا ، پھر بچوں کو اسکول چھوڑنا ، پھر محنت مزدوری کرنے کے لیے بازار کا رخ
کرنا اور پھر شام کو گھر لوٹ آنا ۔ یہی اس کا برسوں کا معمول تھا ۔ کبھی کبھار شام
کو وہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ لیتا تھا ۔ تاکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے
میں اسے آگاہی حاصل ہو ۔ وہ پانچ جماعتیں پاس تھا ۔ اس نے کسی گورنمنٹ اسکول میں
کافی عرصہ پہلے ، جب وہ بچہ تھا ، یہ پانچ جماعتیں پاس کی تھیں ۔ لیکن اسے اپنی ان
پانچ جماعتوں پر آج کی گریجویشن سے بھی زیادہ فخر تھا ۔ اس کے خیال میں اُس کی
پانچ جماعتیں ، آج کے گریجویشن سے بھی بہتر تھیں ۔ بہر حال یہ اس کا خیال تھا ۔ اس
کے اس خیال سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے ، کلی طور پر نہیں ۔ پاکستان کی
سیاست پر اس کی گہری نظر نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ اس کے
پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اخباروں کا ڈھیر لگا کر سارا دن پڑھتا رہے ۔
لیکن شام کو ٹی وی پر خبریں دیکھنے کی وجہ سے اس کو ملک میں پیش آنے والے
واقعات کے بارے میں ضرور علم ہوتا تھا ۔
ملک کے وزیر ِ اعظم اس کے شہر یعنی کراچی
میں آئے تو اسے معلوم ہوگیا ۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ وزیر ِ اعظم نے کراچی میں
گرین لائن منصوبے کا سنگ ِ بنیاد رکھ دیا ہے ۔ اس سے پہلے جب وہ
"گرین" کا لفظ سنتا تو اس کے ذہن میں لاہور آجاتا ۔ لیکن اب اسے علم
ہواکہ وزیر ِ اعظم کراچی میں بھی اس منصوبے کا آغاز کر رہے ہیں ۔ اسے یہ بھی معلوم
ہوا کہ اس منصوبے پر 16 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے ۔ ا س سے پہلے وزیر ِ اعظم آزاد
کشمیر گئے تھے ، جہاں انھوں نے قومی صحت پروگرام کی بات کی تھی ، وزیر ِ اعظم نے
یہ بھی بتایا تھا کہ اس اسکیم سے مظفر آباد کے 82 ہزار لوگ مستفید ہوں گے ۔
وہ وزیر ِاعظم کے ان مثبت کاموں سے بہت خوش ہوا ۔ خصوصا وزیرِ اعظم کے قومی
صحت پروگرام نے اس کا دل جیت لیا ۔ کیوں کہ اس میں غریبوں کی بات کی گئی تھی اور
وہ بھی ایک غریب شخص تھا ۔ اس کا اس اسکیم پر خوش ہونا فطری بات تھی ۔
مگر وزیر ِ اعظم کے ان مثبت کاموں نے جہاں
اسے خوش کیا ، وہاں اسے اداس بھی کر دیا ۔ وہ غریب تھا اور غریبوں کی طرح سوچتا
تھا ۔ اس کی اداسی کا تناسب اس کی خوشی سے زیادہ تھا ۔ وجہ یہی تھی کہ وہ غریبوں
کی طرح سوچتا تھا ۔ جب حکومت کی طرف سے غریبوں کو کوئی نوید سنائی جاتی تو
وہ یہ ضرور سوچتا کہ اسے کیا فائدہ ہوگا ۔ جب اس کو معلوم ہوتا کہ اسے کوئی فائدہ
نہیں ہوگا تو وہ اداس ہوجاتا اور بہت دنوں تک اداس رہتا ۔ اب کی بار بھی اس
نے یہی سوچا ۔ سو وہ اسی نتیجے پر پہنچا کہ ان اسکیموں میں اسے کے لیے کچھ بھی
نہیں ہے ۔ اس لیے وہ بہت اداس ہوگیا ۔ وزیر ِ اعظم کا قومی صحت پروگرام پاکستان
کے صرف دو شہروں ، اسلام آباد اور مظفر آباد تک محدود تھا ۔ جب کہ وہ کراچی میں
رہتا تھا ۔ اور کراچی کی کسی ایسی بستی میں رہتا تھا ، جو بڑوں کی توجہ اپنی
طرف کھینچنے کی صلاحیت سے عاری تھی ۔ اس لیے اسے اس حقیقیت کا ادراک
ہو گیا کہ قومی صحت پروگرام میں اس کے لیے اور اس کی بچوں کے لیے کچھ بھی نہیں
رکھا ہوا ۔ ہاں ، اگر وزیر ِ اعظم اس اسکیم سے پورے ملک کے غریبوں کو مستفید کر یں
تو واقعی یہ اسکیم اس کے لیے سود مند ثابت ہوگی ۔ مگر جب تک یہ اسکیم
مظفر آباد سے کراچی تک پہنچے گی ، اس وقت تک شاید کوئی اور حکومت آجائے اور یہ
اسکیم ختم ہوجائے ۔ کیوں کہ کراچی سے مظفر آباد کا راستہ خاصا طویل ہے ۔ گرین لائن
بس منصوبے میں بھی اس کے لیے کچھ نہیں تھا ۔ وہ کسی غریب علاقے میں رہتا تھا ۔ جب
کہ گرین لائن بس کے روٹ میں اس کے علاقے کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔
اس کے اپنے بہت سے مسائل تھے ۔ جو برس ہا
بر س سے اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے ۔ اس کی خوہش تھی کہ اس کے یہ مسائل ختم
ہو جائیں ۔ اگر سارے نہیں تو کچھ نہ کچھ تو ضرور ختم ہونے چاہئیں ۔ مثال کے طور پر
اس کے بچے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے تھے ۔ اسے ہر مہینے اپنی تنخواہ
اور مزدوری کا بڑا حصہ بچوں کی فیسوں میں دینا پڑتا تھا ۔ اس کی غریب معیشت
پر اس وقت ایٹم بم گر جاتا ، جب اسے دو مہینوں تک ڈبل فیس ادا کرنی پڑتی تھی ۔ اس
کی ہمت اس وقت جواب دے دیتی تھی ، جب اسکولوں کا نیا سال شروع ہوتا تھا
اور اسے بچوں کی کاپیاں کتابیں لینی ہوتی تھیں ۔ اس کی خواہش تھی کہ گورنمنٹ
اسکولوں کے اساتذہ پڑھانا شروع کر دیں ، تاکہ وہ اپنے بچوں کو بغیر فیس کے
اچھی تعلیم دلا سکے ۔ مگر اس کی یہ خواہش برسوں سے پوری نہیں ہو رہی
تھی ۔ اس کے گھر میں اکثر و بیشتر پانی کا مسئلہ رہتا تھا ۔ ہاں ! پانی کا مسئلہ ۔
کبھی کبھا ر تو پانی بالکل نہیں آتا تھا ۔ کبھی کبھار خراب اور بد بودار پانی آتا
تھا ۔ وہ اپنے بچوں کو وہ پانی نہیں پلاتا تھا کہ کہیں اس کے بچے بیمار نہ ہو
جائیں ، جب پانی بالکل نہیں آتا تھا تو وہ سخت اذیت کا شکار ہو جاتا تھا ،
اسے بڑی محنت اور کوشش کے بعد کسی حد تک پانی ملتا تھا ۔ وہ پینے کے لیے باہر سے
پانی خریدتا تھا ، اس طرح پینے کے پانی میں اس کے کئی پیسے چلے جاتے تھے ۔
اس کی خواہش تھی کہ پانی کا مسئلہ حل ہو جائے ۔ لیکن یہ مسئلہ کافی عرصے سے
حل نہیں ہو رہاتھا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ حکام ِ بالا کو بنیادی مسائل پر زیادہ توجہ
دینی چاہیے ۔ پانی کا مسئلہ بنیادی مسائل میں سے ایک ہے ۔ جہاں پینے کا پانی
نہ ہو ، وہاں گرین لائن منصوبوں سے زیادہ پانی کے منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس
کی دلی خواہش تھی کہ سب سے پہلے بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں ۔ مگر کب حل ہوں گے ؟
یہ سوچ کر اسے کافی مایوسی ہوتی تھی ۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
تبصرے