عوام سب کچھ سمجھ گئے


نئی حکومت نے آتے ہی منادی کی کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے ۔ توانائی کا بحران ٹال دیں گے ۔ہم ملک میں شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔ ہم ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کا سخت احتساب کریں گے ۔ کسی کو ملک کا خزانہ لوٹنے نہیں دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو معمول کی باتیں تھیں ۔ جو ہر آنے والی حکومت اپنی سیاست پر چار چاند لگانے کے لیے اور عوام کے دل جیتنے کے لیے کیا کرتی تھی ۔ لیکن اہل ِ بصیرت جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہی رہے گا ۔ کچھ نہیں بدلے گا ۔ کرپشن اور لوٹ مار جوں کی توں جار ی رہے گی ۔ کیوں کہ یہ مسئلہ تو کئی سالوں پرانا تھا ۔ ہر حکومت آنے سے پہلے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی ۔ لیکن جب وہ حکومت  رخصت ہوتی تو یہ کرپشن پہلے سے بڑھ چکی ہوتی ۔ اس لیے اب کی بار بھی  سلجھے ہوئے لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ مسئلہ بالکل ختم نہیں ہوگا ۔  چاہے اس کے لیے جتنی بھی باتیں کی جائیں ۔



بہر حال ۔۔۔ نئی حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو اس نے احتسابی ادارے کو حکومت کی مخالف جماعتوں کی تحقیقات اور جانچ پڑتال پر لگا دیا ۔ اس احتسابی ادار ے کو اختیارات دیے گئے کہ وہ مخالف جماعتوں کے معزز لوگوں کی بد عنوانیوں کے سلسلے میں خوب چھین بین کرے ۔ تاکہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو ۔ دیانت داری کے چرچے ہوں اور ہر کوئی حکومت کی امانت داری پر واہ واہ کرے ۔  حکومت پر داد و تحسین کی بارشیں ہوں اور اس کی عوامی پذیرائی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہو ۔ احتسابی ادارے نے خوب تحقیقات کیں ۔ حکومت مخالف جماعتوں کے کئی لوگوں کی مالی بد عنوانی کے پول کھولے ۔ جس پر مخالف جماعتیں چیخنے لگیں ۔ یہ چیخیں حزب اقتدار  جماعت کو خوش گوار محسوس ہونے لگیں ۔ کیوں کہ مخالف چیخے تو خوشی ہوتی ہے ۔ اس لیے خوب خوش ہوئی ۔ جب کہ حز ب ِ اختلاف جماعتوں کے برے دن شروع ہوگئے تھے ۔ انھوں نے کئی طریقوں سے  بر سر ِ اقتدار معززین کو باور کرانے کی کوشش کی کہ آپ اچھا نہیں کر رہے ۔ آخر ہم اور آپ ایک ہی تو ہیں  ۔ کرپشن ہم بھی کرتے ہیں ، آپ بھی کرتے ہیں ۔ بد عنوانی کے ہم بھی مرتکب ہیں ، آپ بھی ہیں ۔  جب ہم اور آپ ایک ہی ہیں تو ہم پر یہ افتاد کیوں کر ؟ مت بھولیے کہ آج آپ سیاہ و سفید کے مالک ہیں ، کل ہم ہوں گے ۔ آج آپ ہماری چیخوں پر مت ہنسیے۔ ورنہ کل ہم آپ کی چیخوں پر قہقہے لگائیں گے ۔  بہتر یہی ہے کہ "مک مکا" کر لیا جائے ۔ کرپشن نہ ختم ہونے والی چیز ہے ۔  اس لیے ہم پر کچھ رحم کیجیے۔ ہم مل کر احتسابی ادارے کے اختیارات محدود کر دیتے ہیں ۔ ویسے بھی پارلیمنٹ پر ہمارا تصرف ہے ۔  قوانین جب ہم بناتے ہیں تو توڑ بھی سکتے ہیں ۔ جب ہم اس احتسابی ادارے کے اختیارات محدود کر دیں گے تو آپ اور ہم دونوں فائدے میں رہیں گے ۔


مگر حکومت مخالفین کا درد نہ سمجھ سکی یا سمجھنے سے قاصر تھی ۔ حکومت بس اس پر خوش تھی کہ ہمارے مخالفین دب رہے ہیں ۔ ان کی عوامی پذیرائی پر آنچیں آرہی ہیں ۔ یہ آنچیں ان کے لیے اس طرح مفید ہوں گی کہ اگلے پانچ سالوں کے لیے ایک بار پھر وہ سیاہ و سفید کے مالک بن کر ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے ۔ اقتدار میں آتے ہی حکومت کے معززین سمجھنے لگے کہ ان میں تو کوئی خامی ہے ہی نہیں ۔ حزب ِ اختلاف کی جماعتیں بس یوں ہی تنقید کرتی ہیں ۔ کیوں کہ ان کا کام ہی تنقید کرنا ہوتا ہے ۔ ہم میں کوئی کم زوری نہیں ہے ۔  ہم غلطیوں سے مبرا ہیں ۔ ہم نے وہ کچھ کیا ، جو اس سے پہلے کوئی اس ملک میں نہ کر سکا ۔ ویسے بھی اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں کو اپنی غلطیاں نظر نہیں آتیں ۔ نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے  کہ ملک کے معززین اقتدار میں آنے کے بعد خود کو بہترین اور اپنے مخالفین کو بد ترین سمجھنے لگتے ہیں ۔


پھر رفتہ رفتہ منظر بدلنے لگا ۔ حکومت مخالفین کاحکومت کو جاری کردہ انتباہ حقیقت کا روپ دھارنے لگا ۔ مخالفین کی یہ باتیں بالکل سچ تھیں کہ بدعنوانی کے مرتکب آپ بھی ہیں ، ہم بھی ہیں ۔ کرپشن ہم بھی کرتے ہیں ، آپ بھی کرتے ہیں ۔ ا حتسابی ادارے نے اپنی تحقیقات کا رخ  حزب ِ اقتدار جماعت کی طرف کر دیا ۔ حکومت کے معززین پہلے حیران اور پھر پریشان ہو گئے ۔ حیران اس لیے کہ اس ادارے کی اتنی ہمت کیسے ہوگئی کہ  وہ ہم پر ہاتھ ڈال رہا ہے ۔ پریشان اس لیے کہ اب ہمار ا کیا ہوگا ؟ ہم اپنے دامن میں لگے داغ کیسے دھوئیں گے ؟ حکومت کی حیرانی اور پریشانی بڑھی تو بڑھتی چلی گئی ۔  کیوں کہ اب بہت سے ایسے لوگوں کا احتساب ہونے جار ہا تھا ، جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے تھے ۔ حیرانی اور پریشانی اتنی بڑھی کہ غیض اور غضب کا ظہور ہوگیا ۔ ملک کے سب سے طاقت ور ترین شخص نے کھلم کھلا اس احتسابی ادارے کو وارننگ دے دی  کہ یہ ادارہ اپنے دائرے میں رہے ، ورنہ کارر وائی کریں گے ۔ یہ بڑی عجیب بات تھی ۔  ایک طرف حکومت نے ہی اس ادارے کے چئیر مین کا انتخاب کیا تھا ۔ دوسری طرف حکومت ہی اسے اپنے دائرہ ِ کار میں رہنے کی تنبیہ کر رہی تھی ۔ اور تنبیہ بھی سب کے سامنے ، یعنی جلسہ ِ عام میں ۔  حالاں کہ اگر اپنے متعین کردہ کسی شخص کا قصور ہو تو اسے بند دروازوں میں چھپ چھپ کر تنبیہ کی جاتی ہے ، تاکہ سبکی نہ ہو ۔  اب میڈیا کو محسوس ہوا کہ  دال میں کچھ کا لا ہے ۔ جب سب کے سامنے ایک احتسابی ادرے کو اپنے دائرہ ِ کار میں رہنے کی تنبیہ کی جارہی ہے تو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے ، جو حکومت کی دانست میں نہیں ہونا چاہیے تھے ۔ بالآخر "اس حمام میں سب ہی ننگے" اور " کس کی دم پر پاؤں آیا ہے " جیسے محاوارات  جنم لینے لگے ۔ اس طرح عوام سب کچھ سمجھ گئے !!

تحریر: نعیم الرحمان شائق


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

بچوں کو پڑھانے کےچار بنیادی طریقے

فیس بک پیج کے لائکس بڑھانے کے چھے آسان طریقے