چھوٹوں کی کرپشن
(نوٹ: 14 دسمبر 2025ء کی اہم نوکریوں کی پی ڈی ایف دیکھنے کے لیے اس تحریر کے آخر میں موجود لنک کو وزٹ کریں۔)
پکوڑے، سموسے
والا
میں پکوڑے اور سموسے بیچتا ہوں۔ میرا کام بہت اچھا ہے۔ میں
بہت ایمان دارہوں۔ میری ایمان داری کا ہی صلہ ہے کہ علاقے میں میرا نام بن گیا ہے۔
اب لوگ ساجد سویٹس سےسموسے لینے کے لیے نہیں جاتے۔ حالاں کہ وہ مٹھائی کی بڑی دکان
ہے۔ وہاں سموسےبنانے کے لیے تین کاریگر رکھے گئے ہیں۔ بھائی، محنت جو کی ہے میں نے! نام تو بنے گا ناں! چھوٹے ، بڑے،
مرد، عورتیں ، سبھی میرا پکوڑے سموسے شوق سے کھاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ایمان دار ہوں۔ میری ایمان دار
مثالی ہے، مگر۔۔۔۔ کیا کریں، مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں معیاری تیل
استعمال نہیں کرتا ۔ بازار سے سستے سے سستا اورغیر معیاری تیل خرید لاتاہوں۔ اسی
سے پکوڑے سموسے بناتا ہوں۔ بھائی میرا کام تو چل رہا ہے ناں! اگر اس سے لوگوں کی صحت پراثر پڑتا ہے تو میں کیا کر سکتا
ہوں!کام چل رہا ہے، چلنے دو۔
ہاں!ایک اور کا م بھی میں کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ شام کے وقت،
جب میں دکان بند کرتا ہوں تو ڈٖھیر سارے پکوڑے سموسے بچ جاتے ہیں۔ آپ دل پر ہاتھ
رکھ کر بتائیں۔کیا مجھے ان پکوڑوں ، سموسوں کو پھینک دینا چاہیے ؟ نہیں ناں! رزق
کی ناقدری ہوتی ہے ناں! تبھی تو میں یہ کام نہیں کرتا۔ میں یہ سموسے پکوڑے سنبھال
کر رکھ دیتا ہوں۔ دوسرے دن پکوڑے سموسے بناتے ہوئے تھوڑے تھوڑے یہ بھی ڈالتا رہتا ہوں، مگر لوگوں سے
نظریں بچاتے ہوئے۔ اگر لوگوں نے میرا یہ کارنامہ دیکھ لیا تو پکڑ کر ماریں گے۔
زندگی میں کچھ کام چھپ چھپ کر بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ جیسے میرا یہ کام!
مستری
میں ایک مستری ہوں۔ لوگوں کے گھر وغیرہ بناتا ہوں۔ میں
علاقے کا نامی گرامی مستری ہوں۔ جب لوگوں کو گھروں کی تعمیر یا مرمت کروانی ہوتی ہے
تو میرے آگے پیچھے بھاگتے ہیں اور میری منت سماجت کرتے ہیں۔ میں بڑی مشکل سے
رام ہوتا ہوں۔ مجھے کام نہیں بھی ہوتا تو کہتا ہوں، کام ہے۔ اگر کوئی شریف النفس
شخص مجھے بلاتا ہے تو کہتا ہوں ، ”جناب ! آپ فکر نہ کریں۔ میں کل صبح سویرے ہی
آجاؤں گا۔ آپ کا کام کر جاؤں گا۔ مزدور بھی لیتا آؤں گا۔ آپ کو ٹینشن لینے کی کوئی
ضروت نہیں ۔ہم آپ کی خدمت کے لیے ہی تو زندہ ہیں۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔“ پچھلے دنوں امام صاحب نے فون کیا تو میں نے یہی کہا۔ اب
امام صاحب کو براہ ِ راست منع تو نہیں کر سکتے ناں! پھر ہوا یوں کہ دوسرے دن میں
نہیں گیا۔ تیسرے دن بھی نہیں گیا اور چوتھے دن تو بالکل نہیں گیا۔ پانچویں دن امام
صاحب کی کال آئی تو میں نے فون ہی کاٹ دیا۔ دراصل مجھے غصہ آرہا تھا۔ غصّے کا میں
بہت تیز ہوں۔ فون رسیو کرلیتا تو بلاوجہ ان کی شان میں گستاخی کر بیٹھتا ۔ اب ان
کی گستاخی کرکے جہنم میں تو جانا نہیں ہے میں نے ۔۔۔۔
بندہ میں بہت اچھا
ہوں۔ کام بھی اچھا کرتا ہوں ، لیکن اپنی
برادری کے دوسرے لوگوں کی طرح اول درجے کا وعدہ خلاف ہوں۔ کام ضرور کرتا ہوں، مگر
تھوڑا نخرے سے۔ علاقے میں میرا نام یوں ہی
تو نہیں بن گیا۔ اب تو عمربھی ڈھلتی جا رہی ہے۔ کام زیادہ نہیں ہوتا
۔ اس لیے ، جب بھی کام کے لیے جاتا ہوں توصاحب کے سامنے تو بڑے ڈٹ کر کام کرتا
ہوں، لیکن جیسے ہی صاحب ادھر ادھر ہوتے ہیں تو دیگرمستریوں کی طرح میرے اعصاب پر
سستی چھا جاتی ہے۔ کام کرنے میں سستی ہونے لگتی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ
بیٹھ جاتا ہوں۔ کام بالکل نہیں کرتا ۔ مزدور میرا وفاد ار ہوتا ہے۔ اسےکَہ دیتا
ہوں کہ میں یہاں آرام سے بیٹھا ہوں ۔ جیسے ہی تم دور سے صاحب کو آتے ہوئے دیکھو تو
مجھے مطلع کر دو۔ جیسے ہی وہ صاحب کو دور سے آتا دیکھتا ہے تو مجھے بتا دیتا ہے۔
میں فوراً کام میں لگ جاتا ہوں۔ وہ مجھے کام کرتا دیکھتا ہے تو بڑا خوش ہوتا ہے۔
کچھ صاحب بڑے کھڑوس ہوتے ہیں ۔ وہ تو سارا دن سر پرر سوار رہتے ہیں۔ ہلتے بھی نہیں
ہیں۔ ایسے صاحبوں پر مجھے بڑا غصہ آتا ہے۔ دل چاہتا ہے، گولی مار کر ان کا کام
تمام کر دوں۔
استاد
میں ایک استاد ہوں۔ گورنمنٹ ہائی سکول میں پڑھاتا ہوں۔ میں
ریاضی کا استاد ہوں۔ میری ریاضی بہت اچھی ہے۔ اس بار جو نویں جماعت کی ریاضی کی
نئی کتاب آئی تھی، میں نے ایک مہینے میں پوری کتاب حل کرکے تین رجسٹر بھر دیے۔
سکول کے بچوں کے لیے نہیں، بلکہ اپنی اکیڈمی
کے بچوں کے لیے۔ اب جب کہ سکولوں
میں ساٹھ سے ستر فی صد کورس ہوا ہے، میں اپنی اکیڈمی کے بچوں کو ایک مہینا پہلے ہی
کورس مکمل کراچکا ہوں۔ میری اکیڈمی علاقے
کی ہی نہیں ، پورے ضلع کی مشہور اکیڈمی بن چکی ہے۔ میرے پاس بہت بچے آتے ہیں۔ میں
خوب کمارہا ہوں۔ بہت خوش ہوں ۔ ایک طرف سے محنت سے کمائے ہوئے اکیڈمی کے بچوں کی
فیس اور دیگر اخرجات کے پیسے تو دوسری طرف سے بغیر محنت سے کمائی ہوئی گورنمنٹ کی
نتخواہ۔ واہ! واہ! مزہ ہی مزہ!
سکول میں میں بہت کم اپنی توانائیاں صرف کرتا ہوں۔ جب
گونمنٹ ہسپتال کا ڈاکٹر اپنی پرائیویٹ
کلینک میں آنے والے مریضوں کا ہی صحیح طریقے سے علاج کرتا ہے تو میں نے کیا قصور کیا ہے؟ میں بھی تو سرکاری
ملازم ہوں ۔ سکول کے بچے میرا سر کھا جاتے ہیں ۔ آتا واتا کچھ ہے نہیں! منھ اٹھائے
صبح سویرے چلے آتے ہیں۔ مجھے ان پر بہت غصّہ آتا ہے۔ کیا کروں ۔ مجبوری ہے۔ نوکری
کا مسئلہ ہے۔ ورنہ میں تو ان کی صورت بھی نہ دیکھوں ۔ مجبوراً ن کی کلاس لینی ہی
پڑتی ہے۔
نوٹ: 14 دسمبر 2025ء بروز اتوار کی اہم نوکریوں کی پی ڈی ایف دیکھنے کے لیے نیچے دی گئی لنک پر کلک کریں۔
https://drive.google.com/file/d/10Sepou5lGVdfe2meWMX6K85zM0Z2Ia4L/view?usp=drive_link



Comments