اشاعتیں

مئی, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کریم بلال عظیمی، لیاری کے عظیم باکسر، فن کار اور شاعر

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائقؔ یہ 2011ء کی بات ہے۔ میں ، کریم بلال ؔعظیمی، سانی ؔسیداور میرے بھائی وسیم ہاشمی ہر شب ِ جمعہ کو بعد نماز عشاء ایک بیٹھک میں بیٹھتے۔ ان دنوں ہمیں شاعری کا نیا نیاشوق چڑھا تھا۔ سو ہم تقریباً ہر ہفتے ایک محفل ِ مشاعرہ منعقد کرتے۔ کبھی کبھار اور دوست بھی آجاتے۔ محفل ِ مشاعرہ کے ساتھ ساتھ ادبی باتیں بھی ہوتیں۔ ان نشستوں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔   گو سانیؔ سید اور وسیمؔ ہاشمی کا مطالعہ بھی خاصا وسیع تھا، مگر کریم بلالؔ عظیمی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے    اب تک یاد ہے کہ ان دنوں میں دیوان ِ غالبؔ پڑھ رہا تھا۔ غالبؔ کا یہ شعر میری سمجھ سے باہر تھا: نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا میں نے اس سلسلے میں کریم بلال صاحب سے رہنمائی مانگی تو انھوں نے اس کی بڑی اچھی تشریح کی۔ میں کسی کے جواب سے مطمئن ذرا دیر سے ہوتا ہوں۔لیکن کریم بلال ؔ عظیمی نے ایک ہی لمحے میں مجھے مطمئن کر دیا۔  

ایم اسلم صدیقی۔۔۔ لیاری کے جواں مرگ صحافی و ادیب

تصویر
تحریر: نعیم الرّحمان شائق پچھلے دنوں میرے ایک فیس بک دوست عطاء اللہ لاسی صاحب نے ایم اسلم صدیقی کے بارے میں پوسٹ   کی۔   مجھےا س پوسٹ کی وساطت سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ موصوف لیاری ٹائمز کے بانی تھے اور ان کو بچھڑے ہوئے 28 سال بیت گئے۔تصویر ایک خوب صورت نوجوان کی تھی، جس سے پتا چلتا تھا کہ مرحوم جوانی میں ہی داغ ِ مفارقت دے گئے تھے۔  

فلسطینیو! ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے

تصویر
تحریر: نعیم الرّحمان شائق فلسطینیو!ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ اگر ہم آپ کے لیے کچھ کرنا چاہیں بھی تو نہیں کرسکتے۔ بین الاقوامی حدود، سرحدی قیود، قومی قوانین۔۔ ۔یہ سب ہمیں آپ کے لیے کسی بھی قسم کا عملی قدم اٹھانے سے گریزاں رکھتے ہیں۔ ہم کیا کریں؟ مجبور ہیں، بے بس ہیں۔اس لیے آپ سے دردمندانہ گزارش ہے کہ ہم سے کسی بھی قسم کی امید رکھنا چھوڑ دیں۔ آپ اپنا کام کریں۔ ہمیں اپنا کام کر دیں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے پڑوس میں کشمیر جنت نظیر ہے۔چوہتر سال بیتنے کو ہیں کہ یہ خطہ بھارت   کے زیر ِ تسلط ہے۔ ہم اپنے پڑوسی خطے   کا مسئلہ حل نہیں کرسکے تو آ پ کا کیا خاک کریں گے ؟ ہم کشمیر کو پچھلے چوہتر سالوں سے فقط اظہار ِ یک جہتی، نغموں، اور کشمیر ڈے پر ٹرخا رہے ہیں۔ اس لیے میری مانیں تو ہماری طرف منتظر نگاہوں سے دیکھنا چھوڑ دیں۔ مانا کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ ہمارا ملک واحد اسلامی ملک ہے، جو ایٹمی طاقت کا حامل ہے، لیکن اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم وہ بم اسرائیل پر گرا دیں گے ، تو یہ محض آپ کی خام خیالی ہو گی۔

منٹو کا نادر ونایاب خط، لیاری کے ذوقی بلوچ کے نام

تصویر
  تحریر و تحقیق: نعیم الرّحمان شائق ا یک مرتبہ ایک اخبار کے دفتر میں جانا ہوا۔ مدیر صاحب نے مجھے اخبار دکھایا۔میری ایک   بُری عادت یہ ہے کہ میں ہر شے کوتنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ مصلحت   آڑے نہ آئے تو بلا جھجھک کہہ دیتا ہوں کہ صاحب آپ نے یہاں غلطی فرمائی ہے۔ تصحیح کر لیجیے۔ بعض اوقات شرمندگی اٹھانی پڑ جاتی ہے، مگر عادت سے مجبور ہوں۔ کیا کروں؟مدیر صاحب نے جب مجھے اخبار دکھا یا تو اس میں سعادت حسن منٹو کے افسانے کا ایک اقتباس بھی شامل تھا، مگر غلطی یہ تھی کہ "سعادت حسن منٹو" کی بہ جائے "سعادت حسین منٹو" لکھا ہوا تھا۔ یعنی "حسن" کو "حسین" لکھ دیا گیا۔ میں نے فوراً مدیر صاحب کی توجہ اس غلطی کی جانب مبذول کرائی۔ انھوں نے کمپوزر کو بتایا کہ اس نے یہ غلطی کی۔ کمپوزر نے ہنستے ہوئے جواب دیا،"سر کیا ہو ا جو میں نے "حسن " کی جگہ" حسین " لکھ دیا۔ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں بھائی ہی تو تھے۔ "اس پر سب ہنس پڑے۔ میں سعادت حسن منٹو کے خطوط سے متعلق تحریر   کا پلاٹ بنا رہا تھا تو یہ واقعہ   یاد آگیا۔ سوچا، یہ شگوفہ یہاں سجا

اردو کی پانچ مفید علمی ویب سائٹیں

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق میں اپنی تحریرو ں کے ذریعے وقتاً فوقتاً فروغِ اردو کا بگل بجاتا رہتا ہوں، اس لیے مجھے اردو کے سلسلے میں ہونے والی ہر قسم کی خدمات قابل ِ تحسین محسوس ہوتی ہیں۔ اُردو ہماری قومی زبان ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جتنی توجہ انگریزی اور سائنسی مضامین پر دی جاتی ہے، اردو پر نہیں دی جاتی۔ پھر ہم ہی شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو غالبؔ   و اقبالؔ سمجھ نہیں آتے۔  

کیا جون ایلیا اور ناصر کاظمی کے اشعار بے وزن ہیں؟

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق   پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر دو وڈیو کلپس وائرل ہوئے۔ جن میں دکھایا گیا کہ معروف ٹی وی میزبان   ساحر لودھی نے اپنے پروگرام میں جون ایلیا   اور ناصر کاظمی کے دو مشہور شعروں کے بے وزن قرار دے دیا۔ پروگرام میں میزبان کے بٹھائے گئےمنصفین( ججز) بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور ان کی بھر پور تائید کرتے رہے۔ نوجوان، جس نے جون ؔ ایلیا کے شعر پڑھا تھا، آخر تک کہتا رہا کہ یہ شعر جون ؔ کا ہی ہے، اس نے خود پڑھا ہے اور شعر کے دونوں مصرعے ہم وزن ہیں، مگر میزبان اور ان کے ہم نواؤں نے نوجوا ن کی ایک نہ سنی ۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اس شعر کا کوئی مطلب ہی نہیں   ہے اور جونؔ ایسا شعر نہیں کہہ سکتے۔ شعر یہ تھا: ؎ گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا