کیا جون ایلیا اور ناصر کاظمی کے اشعار بے وزن ہیں؟

تحریر: نعیم الرحمان شائق

 

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر دو وڈیو کلپس وائرل ہوئے۔ جن میں دکھایا گیا کہ معروف ٹی وی میزبان  ساحر لودھی نے اپنے پروگرام میں جون ایلیا  اور ناصر کاظمی کے دو مشہور شعروں کے بے وزن قرار دے دیا۔ پروگرام میں میزبان کے بٹھائے گئےمنصفین( ججز) بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور ان کی بھر پور تائید کرتے رہے۔ نوجوان، جس نے جون ؔ ایلیا کے شعر پڑھا تھا، آخر تک کہتا رہا کہ یہ شعر جون ؔ کا ہی ہے، اس نے خود پڑھا ہے اور شعر کے دونوں مصرعے ہم وزن ہیں، مگر میزبان اور ان کے ہم نواؤں نے نوجوا ن کی ایک نہ سنی ۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اس شعر کا کوئی مطلب ہی نہیں  ہے اور جونؔ ایسا شعر نہیں کہہ سکتے۔ شعر یہ تھا:

؎ گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا

تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا



یہ شعر جونؔ کا ہی ہے۔ نوجوان کی بات بالکل درست تھی۔ میزبان اور ان کے ہم نوا اس ضمن میں سو فی صد غلط تھے۔

میزبان اور ان کے ہم نواؤں نے ناصرؔ کاظمی  کے جس شعر کو بے وزن قرار دیا، وہ یہ تھا:

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے


یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے:   تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ اور اساتذہ کو ہونے والے نقصانات

 

میزبان کو چاہیے تھا کہ اگر وہ  بہ ذاتِ خود فن ِ شاعری سے نا آشنا  تھے تو اپنے پرگرام میں ایسے منصفین( ججز) کو بٹھاتے  جن کے پاس شاعری کا اچھا خاصا علم ہوتا۔ فن ِ شاعری اتنا آسان نہیں کہ ہر  شخص  اس پر رائے زنی کرسکے۔ باقی فنون کی طرح یہ فن بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ بعض لوگ "من نمی دانم فاعلاتن فاعلات" کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ شاعر تو انسان خود ہی بن جاتا ہے، مگر یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ بے وزن شعر کہنے والے شاعر گم نامیوں کی تاریکیوں میں گم ہوگئے۔ آج ہم صرف انھی شاعروں کو جانتے ہیں، جن کی شاعری علم ِ عروض کے اصولوں پر استوار ہے۔

ناصرؔکاظمی اور جونؔ ایلیا دونوں اردو کے معروف شاعر ہیں۔ ان کے اشعار کو بے وزن قرار دے دینا ۔۔وہ بھی ٹی وی پروگرام میں ۔۔۔ان کے ساتھ نا انصافی ہی نہیں ،  ظلم بھی  ہے۔ جنھوں نے اپنی پوری زندگی  شعر و شاعری کے لیے قربان کر دی ہو، ان کی اس طرح سر ِ عام بے عزتی کر دینا بالکل نا مناسب حرکت ہے۔

 

یہ بھی زیر مطالعہ لائیے: آہ! مولانا وحید الدین خان! موت انھیں بھی اچک کر لے گئی!


آئیے، میزبان نے جن اشعار پر اعتراض کیا ہے، ان کا فنی جائزہ لیتے ہیں۔

 

ساحر لودھی نے جونؔ کے جس شعر پر اعتراض کیا، وہ در اصل شاعر کی ایک غزل کا مطلع ہے۔ شاعری کی اصطلاح میں  مطلع غزل  یا قصیدے کے اُس پہلے شعر کو کہتے ہیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ  ہوں۔ جون ؔ کی  جس غزل کے مطلعے کو ہدف ِ تنقید بنایا گیا، درج ذیل ہے:

گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا

تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا

 

مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ

مجھ کو یکسر بُھلا چکی  ہو کیا

 

یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں

مجھ سے مل کر اُداس بھی ہو کیا

 

بس مجھے یونہی اِک خیال آیا

سوچتی ہو تو سوچتی ہو کیا

 

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں

اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

 

کیا کہا عشق جاودانی ہے!

آخری بار مل رہی ہو کیا

 

ہاں فضا یاں کی سوئی سوئی سی ہے

تو بہت تیز روشنی ہو کیا

 

میرے سب طنز بے اثر ہی رہے

تم بہت دُور جا چکی ہو کیا

 

دِ ل میں اب سوز ِ انتظار نہیں

شمع ِ اُمید بجھ گئی ہو کیا

 

اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں

بان، تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا

 

یہ غزل میں نے" ریختہ "سے نہیں،  جون ؔ ایلیا کے شعری مجموعے"شاید" سے اخذ کی ہے۔ میرے پاس "شاید" کا جو ایڈیشن ہے، اس میں یہ غزل صفحہ 149، اور 150 پر تحریر ہے۔ اس کتاب کی ابتدا میں "نیازمندانہ" کے عنوان  کے ساتھ جونؔ ایلیا لکھتے ہیں:

"شعر کو عربی لفظ سمجھا جاتا ہے اور اس کو شعور کا مادہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔شعر، عبرانی لفظ "شیر" کا معرب ہے۔ اس کے معنی ہیں، راگ، خوش آوازی اور خوش آہنگی۔ میرے خیال میں وزن شعر کی بنیادی شرط ہے۔ میں ماضی کے کسی ایسے شخص سے واقف نہیں ہوں جس نے نثر اور اعلیٰ سےاعلیٰ  خوش آہنگ نثر لکھی ہواور اسے اصطلاحاًشاعر قرار دیا گیا ہو۔(شاید۔ صفحہ 15)

آگے لکھتے ہیں:

میں وزن یا آہنگ کے بغیر شاعری کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ یہ محض ایک نفسیاتی مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ اخلاقی مسئلہ بھی ہے۔"(شاید، صفحہ 15)

 

یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: میری شاعری


جونؔ ایلیا کی مذکورہ بالا غزل  کے تمام اشعار ہم وزن ہیں۔ یہ غزل" بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع "میں لکھی گئی ہے۔ جب کہ اس کا وزن  "فاعلاتُن مفاعلُن فعلُن " ہے۔ جون ایلیا کے جس شعرکو  میزبان نے بے وزن قرار دیا ہے، میں اس کی تقطیع کرتا ہوں۔

مصرعِ اولیٰ:

فاعلاتُن: گاہِ گاہے

مفاعِلُن: بَ سب ی ہی

فِعلُن: ہوکاَ

 مصرعِ ثانی

فاعلاتُن: تم س مل کر

مفاعِلُن: بَ ہُت خُ شی

فعلُن: ہو کاَ

 

آپ   دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں مصرعے ہم وزن ہیں اور فنی اعتبار سے بالکل درست ہیں۔ اس لیے میزبان اور ان کے ہم نواؤں کے اعتراضات بالکل بے بنیاد ہیں۔" بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع" اردو  شاعری کی مشہور بحر ہے۔ استاد شعرا نے بھی اس بحر میں طبع آزمائی کی ہے۔میر تقی میرؔ کی درج ذیل  مشہور غزل بھی اسی  بحر میں تحریر کی گئی ہے:

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

 

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

 

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے

 

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز

اسی خانہ خراب کی سی ہے

 

میرؔ ان  نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

مرزا غالبؔ کی درج ذیل مشہور غزل بھی اسی بحر میں ہے:

ابن ِ مریم  ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

 

شرع و آئین پر مدار سہی

ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

 

چال جیسے کڑی کمان کا تیر

دل میں ایسے کہ جا کرے کوئی

 

بات پر واں زبان کٹتی ہے

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

 

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

 

نہ سنو گر برا کہے کوئی

نہ کہو گر برا کرے کوئی

 

روک لو گر غلط چلے کوئی

بخش دو گر خطا کرے کوئی

 

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند

کس کی حاجت روا کرے کوئی

 

کیا کیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

 

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ

کیوں کسی کاگلہ کرے کوئی

 

 

اب آتے ہیں نا صرؔ کاظمی کے شعر کی جانب

جو نؔ ایلیا کی غزل  کے مطلعے کے بر خلاف ناصرؔ کاظمی کی غزل کے مقطعے  کو ہدف ِ تنقید بنایا گیا ۔ شاعری کی اصطلاح میں مقطع غزل یا نظم کے اس آخری شعر کو کہتے ہیں، جس میں شاعراپنا تخلص استعمال کرے۔بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ  میزبان نے دراصل ناصر کاظمی کی غزل کو نہیں، بلکہ پڑھنے کے طریقے پر تنقید کی۔ شعر پڑھنے پر تنقید بھی اس وقت جائز ہوتی جب  اس  کے الفاظ میں ہیر پھیر کی جاتی، یا الفاظ آگے پیچھے پڑھے جاتے۔ ناصرؔ کاظمی کی جس غزل کے مقطعے کو ہدف ِ تنقید بنایا گیا، درج ذیل ہے:

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے

مگر جینے کی صورت تو رہی ہے

 

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا

یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے

 

چلے دل سے امیدوں کے مسافر

یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے

 

نہ سمجھو تم اسے شور ِ بہاراں

خزاں پتوں میں چھپ کر رو رہی ہے

 

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

 

میں نے یہ غزل "ریختہ" سے نہیں ، بلکہ  ناصرؔ کاظمی کی "دیوان" سے لی ہے۔ میرے پاس "دیوان" کا جو ایڈیشن ہے، اس کے صفحہ 16 پر یہ غزل تحریر ہے۔ یہ غزل ناصرؔ کاظمی نے 1953ء میں لکھی تھی۔

یہ غزل "بحر ِ ہزج مسدس محذوف " میں لکھی گئی ہے۔ اس کا وزن "مفاعیلُن مفاعیلُن فعولُن" ہے۔ جس شعر کو ہدف ِ تنقید بنایا گیا ہے، اس کی تقطیع کچھ یوں ہے

مصرعِ اولیٰ کی تقطیع:

مفاعیلُن: ہ مَارے گر

مفاعیلُن: کِ دی وارو

فعولُن: پ نا صِر

مصرع ِ ثانی کی تقطیع:

مفاعیلُن: اداسی با

مفاعیلُن: ل کولے سو

فعولُن: رہی ہے

 

تقطیع سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مصرعے ہم وزن ہیں۔ اس لیے میزبان اور ان کے ہم نواؤں کے اعتراضات بے بنیاد ہیں۔

 

ناصرؔ پہلے  شاعر نہیں، جنھوں نے اس بحر میں طبع آزمائی کی ہو۔ استاد شعرا نے بھی اس بحر میں لکھا ہے۔ مرزا غالبؔ کی درج ذیل غزل اسی بحر میں ہے:

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا 

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا 

 

تجاہل پیشگی سے مدعا کیا

 کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟ 

 

نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں

 شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

 

 نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں

 تغافل ہائے تمکیں آزما کیا

 

 فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے

 ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

 

 نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے

 تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا

 

 دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے 

غمِ آوارگی ہائے صبا کیا 

 

دلِ ہر قطرہ ہے سازِ اناَ البحر

 ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

 

 محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ

 شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا

 

 سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن

 شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا 

 

کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟ 

شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا

 

 یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟ 

یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟ 

 

بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات

 عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا

 

ابراہیم ذوقؔ کی درج ذیل غزل بھی اسی بحر میں ہے:

اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا 

اگر پایا تو کھوج اپنا نہ پایا

 

 مقدّر پر ہی گر سود و زیاں ہے

 تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا نہ پایا 

 

کہے کیا ہائے زخمِ دل ہمارا

 دہن پایا لبِ گویا نہ پایا 

 

نظیر اس کی کہاں عالم میں اے ذوقؔ

 کہیں ایسا نہ پائے گا نہ پایا 

 

آخر میں بس میں اتنا کہوں گا کہ کسی کو بھی ہدف ِ تنقید بنانے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ اس شخص کامقام کیا ہے۔ اگر اس کا مقام آپ کے مقام  سے بہت بلند ہے تو تنقید کرنے کا ارادہ فی الفور ترک کر دیجیے۔ بہ صورت ِ دیگرنقصان اس کا نہیں ہوگا، جس شخصیت پر آپ اعترض کر رہے ہیں، بلکہ آپ کا ہوگا۔


تبصرے

عبدالوہاب نے کہا…
بالکل صحیح کہا آپ نے۔ اصل میں میزبان اور ان کے ہم نوا علم عروض سے بالکل ہی ناواقف محسوس ہوتے ہیں۔
عبدالوہاب نے کہا…
شعر پڑھنے والے مہمان کو بھی چاہیے تھا کہ وہ میزبان اور ججز سے کہتا کہ آپ اس شعر کی تقطیع کرتے ہوئے اس شعر کو بے وزن ثابت کرسکتے ہیں تو کردیں ۔ وگرنہ اپنی غلطی تسلیم کریں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے