تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے طلبہ اور اساتذہ کو ہونے والے نقصانات

 

تحریر: نعیم الرحمان شائق

جب سے کورونا وائرس کا آغاز ہوا ہے، تیسری بار ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگ رہا ہے۔ یہ فیصلہ پڑوسی ملک بھارت میں کووڈ انیس کی وجہ سے ہونے والی حالیہ تباہی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ وزیر ِ اعظم نے کہا ہے کہ اگر  ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو سخت فیصلہ کرنا پڑے گا۔انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا  ہے کہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بھارت جیسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ دو روز قبل وزیر ِ اعلا سندھ  مراد علی شاہ نے نیوز کانفرنس کی جس میں انھوں نے دیگر فیصلوں کے ساتھ ساتھ  یہ بھی کہا کہ تمام تعلیمی ادارے تا حکم ِ ثانی بند رہیں گے۔ 

 


حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران سب سے زیادہ تختہ ِ مشق تعلیمی ادار بنے ہیں۔انسانوں کا ہجوم  تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ رش مارکیٹوں میں ہوتا ہے تو وہاں پابندی کیوں نہیں لگا دی جاتی ؟جلسے جلوس حسب ِ معمول جاری و ساری ہیں۔ان پر پابندی کیوں نہیں لگا دی جاتی؟ صرف تعلیمی ادارے ہی ہر وقت کیوں نشانہ بنتے ہیں؟ہم تعلیم میں ویسے ہی بہت پیچھے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستا ن میں 20 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ حکومت کے ان امتیازی فیصلوں کی وجہ سے ہم تعلیم میں اور پیچھے رہ جائیں گے۔ ہر وقت تعلیمی اداروں کو بند کر کے آخر حکومت کیا باور کرانا چاہتی ہے؟ یہی کہ تعلیم ان کی ترجیحات میں سب سے آخر میں ہے۔  خدارا! حکومتی اہل کاران اس بارے میں ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر ہی کچھ فیصلہ کریں۔کیا کورونا تعلیمی اداروں کی وجہ سے پھیل رہا ہے؟ اگر حکومت کے پالیسی سازوں کے پاس اس بارے میں کوئی رپورٹ ہے تو سامنے لائیں۔ اگر نہیں ہے تو پھر ان تعلیمی اداروں پر اس قدر قدغن کیوں لگائی جاتی ہے۔ یونیسیف اور انٹر نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کووڈ 19 کی  وبا کے باعث اسکولوں کی بندش سے 40 ملین بچے متاثر ہوئے ہیں۔

 

یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: آہ! مولانا وحید الدین خان! موت انھیں بھی اچک کر لے گئی


 تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے طلبہ اور اساتذہ، دونوں کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان نقصانات کا ازالہ اگلے کئی سالوں تک نا ممکن رہے گا۔

تعلیمی اداروں کی بند ش سے طلبہ کو ہونے والے نقصانات:

·        حکومت پہلے لاک ڈاؤن  سے اس بات پر  زور دیتی آئی ہے  کہ اگر تعلیمی ادارے بند کیے جارہے ہیں تو  آن لائن طریقے سے تعلیم جاری رکھی جا سکتی ہے۔تاکہ سماجی فاصلہ بھی بر قرار رہےاور تعلیم بھی جاری  رہے۔مگر اس کاخاطر خواہ فائدہ نہ ہوا،کیوں کہ آن لائن تعلیم کے لیے کسی قسم کا لائحہ عمل طے نہیں کیاگیا۔ جہاں ہر جگہ انٹرنیٹ کی فراہمی محال ہو، جہاں گھنٹوں بجلی کا پتا ہی نہ ہو، جہاں کے  زیادہ تر اساتذہ اسمارٹ موبائل استعمال  کرنے کا رجحان نہ رکھتے ہوں، جہاں کے دیہات انٹرنیٹ کے سہولت سے محرو م ہوں،جہاں والدین بچوں کو تعلیمی مقاصد کے لیے فون دیں تو وہ گیم کھیلنے میں لگ جائیں تو وہاں بھلا کس طرح آن لائن  طریقے سے تعلیم جاری رکھی جا سکتی ہے؟اس لیےآن لائن تعلیم کو والدین ، اساتذہ ، اور ماہرین ِ تعلیم نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ناکام قرار دے دیا ۔

·        آن لائن تعلیم کا اگر تھوڑا بہت فائدہ ہوا تو امیر گھرانو ں کے  بچوں کو ہوا۔ وہ بچے جن کے والدین مہنگے اینڈرائیڈ موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ خرید کر ان کو دے سکتے تھے۔ لیکن ہمارے ملک میں اکثر لوگ غریب ہیں۔ غریب کا وہ بچہ جس کے لیے ان سہولیات تک رسائی محال تھی، حکومت کی امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے ذرہ بھر بھی تعلیم حاصل نہ کر سکا۔اس کی ذمہ دار صرف حکومت ہے۔ غریب بچے گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ گورنمنٹ اسکولوں کے اساتذہ تنخواہیں تو لیتے رہے، لیکن مجال ہے، آن لائن کلاسز کا سوچا بھی ہو۔

·        پچھلے سال پورے ملک میں امتحانا ت نہیں ہوئے۔ دسویں اور بارہویں والوں کو پرموٹ کر دیا گیا۔اس طرح حکومت نے پڑھنے والوں اور نہ پڑھنے والوں کو ایک ہی ترازو میں تولا۔ پرموٹ کرنے کی پالیسی حوصلہ افزا نہیں تھی۔ اس پالیسی کی وجہ سے  پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے بچوں کا گریڈ تقریباً ایک جیسا بنا ، یا وہ بچے  جنھوں نے جماعت نہم اور گیارہویں میں  کم محنت کی ، لیکن دہم اور بارہویں میں ڈٹ کر محنت کی ، وہ بے چارے پیچھے رہ گئے۔ ان کا خواب تھا کہ انھیں اچھے کالجوں   اور یونی ورسٹیوں  میں اچھے نمبر وں کی وجہ سے داخلے مل جائیں ، لیکن نمبر کم آنے کے وجہ سے نہ مل سکے۔ بہ ظاہر یہ فیصلہ ہی عجیب لگتا ہے کہ بچوں کو بغیر امتحان کے پاس کر دیا جائے۔ تعلیم کے پالیسی سازوں نے لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن تعلیم کا بہت راگ الاپا ، تو خود آن لائن امتحانات کیوں نہ لیے؟

·        بچوں نے پچھلے سال امتحانات  نہ دیے ۔اب حکومت تیسری بار لاک ڈاؤن لگا رہی ہے۔  بار بار کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بچوں میں پڑھائی کا تسلسل ٹوٹ گیا ہے۔ پڑھائی میں ان کا دل نہیں لگ رہا ۔ وہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوچکے ہیں۔ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ اس بار بھی امتحانات نہیں ہوں گے۔ جب امتحانات ہی نہیں ہوں گے تو وہ کیوں پڑھیں؟ ویسے بھی وفاقی وزیرِ تعلیم کہہ چکے ہیں کہ 15 جون تک کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔ اگر حکومت پچھلے سال کی طرح اس سال بھی امتحانات نہ لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر تعلیم کا اللہ ہی نگہبان ہے۔

·        مسلسل چھٹیوں کی وجہ سے بچے آوارہ ہو گئے ہیں۔ جن بچوں کو اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں ہونا چاہیے تھا، وہ باہر گلی کوچوں میں آوارہ پھر رہے ہیں۔ والدین پریشان ہیں کہ بچے کو کیسے سنبھالا جائے۔ بچے کو تعلیمی درس گاہوں میں تعلیم اور تربیت دونوں ملتی ہے۔ اب تعلیمی ادارے بند ہیں تو بچے تعلیم اور تربیت دونوں سے گئے۔ حکومت اہل کاران کہتے ہیں کہ بچے کو گھر سے باہر نہ نکالا جائے۔ یہ نا ممکنات میں سے ہے۔ بچہ کھیلنے کودنے کے لیے گھر سے باہر ضرور نکلے گا۔ جب وہ باہرنکلے گا تو اپنے دوستوں کے ساتھ گھل مل جائے گا۔ بات تو پھر وہی ہوگئی۔ یہی گھلنا ملنا اسکول میں ہوتا ہے ، اور یہی گھلنا ملنا باہر۔ بلکہ اسکول میں اسے سماجی فاصلے کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا اور اساتذہ اسے سماجی فاصلے کے ساتھ بٹھائیں گے۔اس طرح اسکول میں وہ زیادہ محفوظ رہے گا۔


یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: حضرت واصف علی واصف کے سو اقوال

تعلیمی اداروں کی بندش سے اساتذہ کو ہونے والے نقصانات:

·        پرائیویٹ اسکولز فیسوں سے چلتے ہیں۔ ان فیسوں سے ہی اساتذہ کی تنخواہیں، بجلی کا بل ،عمارتوں کا کرایہ وغیرہ نکلتا ہے۔  جب بچے اسکولوں میں نہیں آتے ان کے والدین یا تو فیسیں نہیں دیتے یا بہت تاخیر سے دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پرائیویٹ اسکول کے اساتذہ کو تنخواہیں بر وقت نہیں مل پاتیں۔ اس طرح جب بھی لا ک ڈاؤن آتا ہے تو یہ اساتذہ معاشی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ واضح کردوں کہ میں ان پرائیویٹ اسکولوں کی بات کر رہا ہوں، جن کی فیسیں چند سو روپوں میں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً نوے فی صد اسکول اسی طرح کے ہیں۔ میں ان دس فی صد اسکولوں کی بات نہیں کر رہا جو ہزاروں روپوں میں فیسیں وصو ل کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان اسکول مالکان اور وہاں پڑھانے والے اساتذہ کو فرق نہ پڑتا ہو۔ حکومت کو دس فی صد تعلیمی اداروں کی بجائے ان نوے فی صد تعلیمی اداروں کے بارے میں سوچنا چاہیے جو بے رحم لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید قسم کے معاشی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔

·        پچھلے لاک ڈاؤن میں نجی اسکولوں اور کالجوں کے بہت سے اساتذہ نے تعلیم و تعلم کو خیر باد کہہ کر زندگی کا معاشی پہیہ چلانے کے لیے دیگر پیشوں کا سہارا لے لیا۔ لیکن حکومت کو اس ضمن میں سوچنا چاہیے۔ ظاہر ہے، جب ان کا روزگار بند کر دیا جائے گا تو انھیں مجبوراً متبادل طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اگر اساتذہ تعلیم کو چھوڑ کر دیگر شعبوں میں چلے جائیں گے تو اس سے تعلیم کو کافی حد تک نقصان پہنچے گا۔

·        پچھلی بار جب لاک ڈاؤن لگا تھا تو بہت سے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں کے سربراہان نے اساتذہ کو تنخواہیں نہ دیں۔ پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں کے سربراہان کا کہنا تھا کہ جب ہمارے پاس فیسیں نہیں آرہیں تو ہم کیوں کر تنخواہوں کا انتظام کریں۔ اور بہت سوں نے کئی اساتذہ کو نوکری سے فارغ کر دیا۔

·        مسلسل تعلیمی اداروں کی بندش سے لاکھوں  اساتذہ بے روز گار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں پرااعتراضات بجا، لیکن ان اداروں سے لاکھوں اساتذہ کا رزق وابستہ ہے۔ اگر اساتذہ کوعزت نہیں دی جارہی تو نہ دی جائے، کم سے کم ان کو معاشی تنگ دستی کا شکار تو نہ بنایا جائے۔

حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟

·        حکومت کو چاہیے کہ بار بار  تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ صادر نہ کرے، کیوں کہ صورت حال اتنی خطرناک بھی نہیں ہے ۔تعلیمی اداروں کا بند کرنا ہی صرف مسئلے کا حل نہیں ہے۔

·        اس ضمن میں معتدل راستہ اپنا یا جائے، جس میں بچوں کا بھلا ہو اور اساتذہ کا بھی بھلا ہو۔ ایس اوپیز پر سختی سے عمل کرایا جائے تو صورت حال بڑی حد تک قابو میں آسکتی ہے۔

·        جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کورونا رش سے پھیلتا ہے۔ حکومت یہ اعلان بھی کر سکتی ہے کہ جن اسکولوں میں بچے دو شفٹوں میں آتے ہیں، وہ ان دو شفٹوں کو چار شفٹوں میں تقسیم کر دیں اور ایک وقت میں 50 فی صد بچوں کو بلوائیں۔ جب بچے متبادل طریقے سے آئیں گے تو رش خود بہ خود کم ہو جائے گا۔ جب رش کم ہو  جائے گا تو کورونا کے پھیلاؤ کا راستہ بھی خود بہ خود مسدود ہو جائے گا۔  

·        تعلیمی اداروں میں بھی باقی اداروں کی طرح اسمارٹ لاک ڈاؤن لگا یا جائے۔

·        اگر حکومت واقعی فکر مند ہے تو تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کورونا وائرس سے بچاؤ والی ویکسین کا انتظا م کرے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے