حسرت

 

شاعر: نعیم الرحمان شائق

جب اس کی یادوں کا نشہ مجھ پر چڑھتاہے

دل میں لہر سی اٹھتی ہے

چاہت کی لہر

 

پھر حسرت کے بادل ہر سو چھا جاتے ہیں

حسرت، حسرت

ہائے رے حسرت

حسرت یہ کہ وہ میری ہے ہی نہیں

وہ میری ہو ہی نہیں سکتی

وہ میری ہوگی نہیں

چاہت کے بے نام جزیرے میں

وہ اور میں

جب بھی ملتے ہیں

چاہت کا ایک بول بھی کہہ نہیں پاتے

ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں

پر اس کی آنکھیں

میں پڑھ لیتا ہوں

اس کی آنکھیں مجھ سے کہتی ہیں

شائق او شائق

گرچہ ہم دونوں اک جیسے ہیں

میں بھی شاعر، تو بھی شاعر

میں بھی گھائل، تو بھی گھائل

مجھ میں بھی اک غم کی ندیا بہتی ہے

تجھ میں بھی اک غم کا ساگر رہتا ہے

ہم دونوں کی روحوں میں

رب نے الفت گھولی ہے

تو میری پسند، میں تیری پسند

 

ہاں لیکن۔۔۔

میں غصہ کرتی رہتی ہوں

تو غصہ پیتا رہتا ہے

مجھ کو تکتا رہتا ہے

اور مسکاتا رہتا ہے

تیری مسکاہٹ مجھ کو اچھی لگتی ہے

جیسے تجھ کو میری آنکھیں اچھی لگتی ہیں

 

پر ہم جس دنیا میں رہتے ہیں

یہاں پیار پہ پہرے ہیں

یہ ریتوں، رسموں کا جگ ہے

ہم دونوں کیوں کر مل پائیں گے

یہ ظالم سنسار،

یہ وحشت کا عفریت

مجھ کو، تجھ کو ملنے نہ دے گا

بہتر یہ ہے

یا تو مجھ کو بھول جا

یا میری یادوں کے سائے میں

ساری عمر بتا دے

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے