حضرت واصف علی واصف کے سو اقوال

تحریر: نعیم الرحمان شائق

کچھ لوگ مر کر  بھی امر رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگیوں میں ایسے کارہائے نمایا ں سر انجام دیے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے انھیں مرنے کے بعد بھی یاد رکھا جاتا ہے۔یاد رکھیے کہ شہرت کی دو قسمیں ہوتی ہیں: اچھی شہرت اور بری شہرت۔ جو عظیم لوگ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ  کر کے جاتے ہیں، انھیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے اور ان کے حصے میں اچھی شہرت آتی ہے۔ اس کے بر خلاف جو لوگ انسانیت کے منافی کچھ کرکے جاتے ہیں، تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرتی اور ان کو بری شہرت نصیب ہوتی ہے۔



 یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: بابائے بلوچی مولانا خیر محمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ


ہر انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی خدا کی پیاری مخلوق کے لیے کچھ نہ کچھ کر کے جائے  تاکہ دنیا و آخرت میں اسے کام یابی نصیب ہو۔ عبادت سے جنت ملتی ہے، خدمت ِ خلق سے خدا ملتا ہے۔ خدمت صرف مال و دولت سے نہیں کی جاتی، بلکہ علم سے بھی کی جاتی ہے۔  ارسطو کو مرے ہوئے صدیاں بیت گئیں، مگر اس نے علم کے ذریعے انسانوں کی وہ خدمت کی کہ آج کا انسان بھی اسے یاد کرتا ہے  اور اس کے علم سے فیض یا ب ہوتا ہے۔


یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے:  بانو قدسیہ کے اقوال

 

ہماری زمین بڑی زرخیز ہے۔ اس زمین نے ایسے ایسے اہل ِ علم کو جنم دیا ہے کہ جنھیں لوگ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔ان اہل ِ علم شخصیات میں سے ایک حضرت واصف علی واصف ہیں۔ جن کے بصیرت افروز اور حکمت سے لبریز اقوال سے  نہ صرف پاکستان ، بلکہ پوری دنیا کے لوگ دانش چنتے ہیں۔

 

مجھے بزرگوں کے اقوال پڑھنے کا بہت شوق ہے، کیوں کہ ان کو پڑھنے سے شعور و آگہی ملتی ہےاور دل کو سکون  حاصل ہوتا ہے۔ میں اپنے بلاگوں ( تحریروں ) میں ماضی کی عظیم شخصیات کے اقوال لکھتا رہتا ہوں۔ آج دل چاہ رہا ہے کہ حضرت واصف علی واصف اقوال لکھوں۔ واصف علی واصف کے اقوال کی خاص بات یہ ہے کہ ان کو پڑھ کو سکون ِ قلب ملتا ہے اور ڈپریشن دور ہو جاتا ہے۔میں نے جب بھی ان کی باتیں پڑھیں، مجھے سکون ہی ملا۔ آج کا انسان ویسے بھی بے سکونی کا شکار ہے۔ ڈپریشن اور غصے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایسے نازک دور میں حضرت واصف علی واصف اور اس قبیل کے دوسرے بزرگوں کے اقوال کی تشہیر از حد ضرور ہے۔ حقیقی سکون ، دل کا سکون ہے۔ اور دل کا سکون اس وقت نصیب ہوتا ہے، جب روح  روحانی بیماریوں سے پاک ہو۔ روح کو روحانی بیماریوں سے پاک کیسے کیا جائے، اس کے لیے بزرگان ِ دین کے اقوا ل  کا مطالعہ کرنا ہوگا۔


یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: جب فرقہ واریت یہاں تک پہنچ جائے


واصف علی واصف پاکستان کے معروف مصنف، کالم نگار، شاعر اور صوفی بزرگ تھے۔ 15 جنوری 1929ء کو شاہ پور خوشاب میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم خوشاب سے حاصل کی۔ 1939ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول خوشاب سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔پھر جھنگ میں اپنے نانا کے ہاں چلے آئے۔1944ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول جھنگ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پھر گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج  جھنگ سے ایف اے  کیا۔ پھر بی اے گورنمنٹ کالج جھنگ سے کی۔ بعد ازاں اسی کالج میں  ایم اے انگریزی  میں داخلہ لیا۔

 

یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: میری شاعری


3 جون 1954ء میں آپ نے سول سروس کا امتحان پاس کیا، مگر درویشی اور طبیعت کی انفرادیت کی وجہ سے سرکاری نوکری میں دل نہ لگا۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے ریگل چوک لاہور میں واقع ایک پنجابی کالج میں پرائیویٹ کلاسوں کو پڑھانا شروع کیا۔ بعد میں "لاہور انگلش کالج" کے نام سے اپنا تدریسی ادارہ قائم کیا۔

 

واصف علی واصف  کو زیادہ شہرت صوفیت کی وجہ سے ملی۔ وہ انڈیا بریلی میں شاہ نیاز احمد (چشتی قادری) کے آستانہ عالیہ سے بیعت تھے۔ان کے کالج میں باقاعدگی سے لنگر چلتا تھا اور خاص بات یہ تھی کہ طالب علموں کے علاوہ ہر آنے والے کو چائے پیش کی جا تی تھی۔ کالج میں طالب علمو ں کے علاوہ ادیب، شاعر، بیوروکریٹ، ملنگ، فقیر اور درویش وغیرہ بھی آیا کرتے تھے اور حضرت کی باتوں سے فیض یاب ہوتے تھے۔

 

انٹرنیٹ نگری حضرت کے اقوال سے بھری پڑی ہے۔ میں جو اقوال ذیل میں تحریر کر رہا ہوں، وہ ان کی کتاب "کرن کرن سورج" سے ماخوذ ہیں۔ آئیے  زیادہ وقت ضائع کیے بغیر ان کے قیمتی اقوال سے شعور، حکمت اور دانش کے موتی چنتے ہیں:

1.      ایمان ہمارے خیال کی اصلاح کرتا ہے۔ شکوک و شبہات کی نفی کرتا ہے۔ ایمان ہمیں غم اور خوشی دونوں میں اللہ کے قریب رکھتا ہے۔

2.      اصل فضیلت تو دوسروں کو فضیلت دینے میں ہے۔جیسا کہ علم میں دوسروں کو شامل کرنے کا نام علم ہے۔ ورنہ علم سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور احساس ِ کم تری میں مبتلا کرنا تو جہالت ہے۔

3.      کسی انسان کے کم ضرف ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی زبان سے اپنی تعریف کرنے پر مجبورہو۔ دوسروں سے اپنی تعریف سننا مستحسن نہیں اور اپنی زبان سے اپنی تعریف عذاب ہے۔

4.      جس نے لوگوں کو دین کے نام پر دھوکا دیا، اس کی عاقبت مخدوش ہے۔ کیوں کہ عاقبت دین سے ہے اور دین میں دھوکا نہیں۔ اگر دھوکا ہے تو دین نہیں۔

5.      ریا کار اس عابد کو کہتے ہیں، جو دنیا کو اپنی عبادت سے مرعوب کرنا چاہے۔

6.      جب تک مخبر ِ صادق ﷺ کی صداقت پر اعتماد نہ ہو، ہم توحید کی تصدیق نہیں کر سکتے۔

7.      وہ حکیم علاج کیا کرے گا، جس کو مریض سے محبت نہ ہو۔ اسی طرح وہ مصلح جو گنہگاروں سے نفرت کرتا ہے ان کی اصلاح کیا کرے گا۔ہر صفت اپنی مخالف صفت پر اثر کرنا چاہتی ہے، لیکن نفرت سے نہیں ، محبت سے۔

8.      ہم صرف زبان سے اللہ اللہ کہتے رہتے ہیں۔ اللہ لفظ نہیں، اللہ آواز نہیں۔ اللہ پکار نہیں، اللہ تو ذات ہے۔ مقدس و ماواراء۔ اس ذات سے دل کا تعلق ہے، زبان کا نہیں۔ دل اللہ سے متعلق ہو جائے تو ہمارےسارے وجودکا دین کے سانچے میں  ڈھل جانا لازمی ہے۔

9.      رزق صرف یہ نہیں کہ جیب میں مال ہو، بلکہ آنکھوں کی بینائی بھی رزق ہے۔ دماغ میں خیال بھی رزق ہے۔دل کا احساس رزق ہے۔رگوں میں خون رزق ہے۔ یہ زندگی ایک رزق ہے، اور سب سے بڑھ کر ایمان بھی ایک رزق ہے۔

10.  خوف کی عبادت اور ہے اور سجدہ ِ شوق اور۔

11. جو شخص سب کی بھلائی مانگتا ہے، اللہ اس کا بھلا کرتا ہے۔ جن لوگوں نے مہمانوں کے لیے لنگر خانے کھول دیے ہیں، کبھی محتاج نہیں ہوئے۔

12.  توبہ جب منظور ہوجاتی ہے تو یاد ِ گناہ بھی ختم ہوجاتی ہے۔

13.  جب عزت اور ذلت اللہ کی طرف سے ہے، رنج و راحت اللہ کی طرف سے ہے، دولت اور غریبی اللہ کی طرف سے ، زندگی اور موت اللہ کی طرف سے، تو ہمارے پاس تسلیم کے علاوہ کیا رہ جاتا ہے؟

14.  اللہ کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔بیمار اور لاغر روحیں ہمیشہ گلہ کرتی رہتی ہیں، (اور) صحت مند ارواح شکر(کرتی ہیں) زندگی پر تنقید خالق پر تنقید ہے اور یہ تنقید ایمان سے محروم کر دیتی ہے۔

15.  موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا: "اے رب العالمین! آپ نے چھپکلی کو کیوں پیدا فرمایا؟"اللہ نے جواب دیا: "عجیب بات ہے، ابھی ابھی چھپکلی پوچھ رہی تھی: "اے رب! تم نے موسیٰؑ کو آخر کیوں پیدا کیا۔"بات وہی ہے کہ انسان نصیب پر راضی رہے تو اطمینان حاصل کرے گا۔ نصیب میں تقابلی جائزہ ناجائز ہے۔

16.  تکلیف آتی ہے: ہمارے اعمال کی وجہ سے۔ ہماری وسعت ِ برداشت کے مطابق۔ اللہ کے حکم سے۔ ہر تکلیف ایک پہچان ہے اور یہ ایک بڑی تکلیف سے بچانے کے لیے آتی ہے۔

17.  امید اس خوشی کا نام ہے، جس کے انتظار میں غم کے ایام کٹ جاتے ہیں۔ امید کسی واقعہ کا نام نہیں، یہ صرف مزاج کی ایک حالت ہے۔ فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے۔

18.  جن مسلمانوں پر اسلام نافذنہ ہوسکے، ان مسلمانوں پر غور کرنا چاہیے۔ جو اسلام مسلمانوں پر نافذ نہ ہوسکے، اس اسلام کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ جو قوت ِ نافذہ مسلمانوں پر اسلام نافذ نہ کر سکے، اس قوت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

19.  گناہوں میں مبتلا انسان کو دعاؤں پر یقین نہیں رہتا۔

20.  زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ سکون اللہ کی یاد سے اور انسان کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔نفرت اضطراب پیدا کرتی ہے۔ اضطراب اندیشے پیدا کرتا ہے اور اندیشہ سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ محبت نہ ہوتو سکون نہیں۔

21.  ایک انسان کو زندگی میں با اعتماد ہونے کے لیے یہ حقیقت ہی کافی ہے کہ اس سے پہلے نہ تو کوئی اس جیسا انسان دنیا میں آیا نہ اس کے بعد ہی کوئی اس جیسا آئے گا۔ یہ عظیم انفرادیت بہت بڑا نصیب ہے۔

22.  اصل ترقی یہ ہے کہ زندگی بھی آسان ہو اور موت بھی مشکل نہ رہے۔

23.  زندگی کے عصری کرب سے نجات کا واحد ذریعہ محبت ہے۔

24.  کسی شے سے اس کی فطرت کے خلاف کام لینا ظلم ہے۔

25.  حسن، عشق کا ذوق ِ نظر ہے اور عشق قرب ِ حسن کی خواہش کا نام ہے۔

26.  جو لوگ اللہ کی تلاش میں نکلتے ہیں، وہ انسان تک ہی پہنچتے ہیں۔ اللہ والے انسان ہی تو ہوتے ہیں۔

27.  سب سے بڑا بد قسمت انسان وہ ہے جو غریب ہو کر سنگ دل رہے۔

28.  قرآن کے ماڈلوں پر خرچ کرنے کی بجائے قرآن پڑھنے والے اور پڑھانے والے اداروں کی مدد کی جائے۔

29.  اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن ِ سلوک یہی ہے کہ انھیں ماتحت نہ سمجھو۔ وہ انسان ہیں۔ اسی طرح زندہ جیسے آپ۔ ان کے جذبات و احساسات اور ان کی ضروریا ت کا خیال رکھا کرو۔ اللہ راضی رہے گا۔ جو سلوک اللہ سے چاہتے ہو، اپنے ماتحت کے ساتھ کرو۔ ماتحت بھی آزمائش ہے اور افسر بھی آزمائش۔ چھوٹا چھوٹا نہ رہے تو بڑا بڑا نہ رہے گا۔ انسان نظر آئیں گے۔

30.  خالق کا گلہ مخلوق کے سامنے نہ کرو اور مخلوق کا شکوہ خالق کے سامنے نہ کرو۔۔۔۔سکون مل جائے گا۔

31.  ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں ، اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کر دیں۔

32.  کچھ لوگ زندگی میں مردہ ہوتے ہیں اور کچھ مرنے کے بعد بھی زندہ۔

33.  ترقی کے لیے محنت و مجاہدہ ضروری ہے، لیکن یہ نہ بھولنا چاہیے کہ مجاہدہ ایک گدھے کو گھوڑا نہیں بنا سکتا۔

34.  محبت سے دیکھو تو گلاب میں رنگ ملے گا، خوشبو ملے گی۔ نفرت سے دیکھو گے خار نگاہوں میں کھٹکیں گے۔

35.  فرض اور شوق یک جا کردو۔۔۔۔ سکون مل جائے گا۔

36.  ہوس ِ زر اور لذت ِ وجود چھوڑدی جائےتو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔

37.  جس نے ماں  باپ کا ادب کیا، اس کی اولاد مؤدب ہو گی۔۔ نہیں تو نہیں

38.  خوش نصیب انسان وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش رہے۔

39.  انسان پریشان اس وقت ہو تا ہے، جب اس کے دل میں کسی بڑے مقصد کے حصول کی خواہش ہو، لیکن اس کے مطابق صلاحیت نہ ہو۔ سکون کے لیے ضروری ہے کہ یا تو خواہش کم کی جائے یا صلاحیت بڑھائی جائے۔

40.  نماز پڑھنے کا حکم نہیں ، نماز قائم کرنے کا حکم ہے۔ نماز اس وقت قائم ہوتی ہے جب انفرادی اور اجتماعی زندگی تابع ِ فرمان ِ الہٰی ہو۔ ضروری ہے کہ ملت ِ اسلامیہ ایک انداز اور ایک رخ میں اللہ کے حکم کے مطابق سفر کرے۔ مسلمان کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ جس طرح حالت ِ نماز میں اپنے آپ کو خدا کے سامنے سمجھتا ہے، اسی طرح نماز کے بعد بھی خدا کے رو برورہے اور اس کا کوئی عمل ایسانہ ہو جو ملی مفاد کے خلاف ہے۔ اولی الامر کا فرض ہے کہ نماز قائم کرائے۔

41.  تسلیم کے بعد تحقیق گمراہ کر دیتی ہے۔

42.  بدی کی تلاش ہو تو اپنے اندر جھانکو۔ نیکی کی تمنا ہو تو دوسروں میں ڈھونڈو۔

43.  غریب وہ ہے، جس کا خرچ اس کی آمدن سے زیادہ ہو۔ امیر وہ ہے جس کی آمدن خرچ سے زیادہ۔ غریب اگر اپنی آرزو اور خرچ کم کردے تو آسود ہ ہوجائے گا۔ اگر اپنے سے امیر لوگوں سے مقابلہ کرےگا تو کبھی آسودہ نہ ہوگا۔ پستیوں کی طرف دیکھو، آپ بلند نظر آؤ گے۔ بلندی کی طرف دیکھو تو پست۔

44.  جھوٹا آدمی کلام ِالٰہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہوگا۔ صداقت بیان کرنے کے لیے صادق کی زبان چاہیے۔

45.  پھول کی ایک دن کی زندگی کیکر کی کئی سال کی زندگی سے بہتر ہے۔

46.  معاف کردینے والے کے سامنے گناہ کی کیا اہمیت؟ عطا کے سامنے خطا کا کیا ذکر؟

47.  آسمانوں پر نگاہ ضرور رکھو، لیکن یہ نہ بھولو کہ پاؤں زمین پر ہی رکھے جاتے ہیں۔

48.  دو انسانوں کے مابین ایسے الفاظ ۔۔۔جو سننے والا سمجھے کہ سچ ہے اور کہنے والا جانتا ہو کہ جھوٹ ہے۔۔۔ خوشامد کہلاتا ہے۔

49.  انسان کا دل توڑنے والا شخص اللہ کو تلاش نہیں کر سکتا۔

50.  اگر سکون چاہتے ہو تو دوسروں کا سکون برباد نہ کرو۔ اللہ سے معافی چاہتے ہو تو لوگوں کو معاف کر دو۔ اللہ کا احسان چاہتے ہو تو سب کی نجات مانگو۔

51.  توبہ کے بعد گناہ کی یاد بھی گناہ ہے۔

52.  زندگی خدا سے ملی ہے، خدا کے لیے استعمال کرو۔ دولت خدا سے ملی ہے۔ خدا کی راہ میں استعمال کرو۔

53.  حرام مال اکٹھا کرنے والا اگر بخیل بھی ہے تو اس پر دوہرا عذاب ہے۔

54.  کسی کے احسان کو اپنا حق نہ سمجھ لینا۔

55.  توبہ منظور ہو جائے تو گناہ کبھی سرزد نہیں ہو سکتا۔

56.  اگر آرزو ہی غلط ہو تو حسرت ِ آرزو، تکمیل ِ آرزو سے بہت بہتر ہے۔

57.  نعمت کا شکر یہ ہے کہ اُسے ان کی خدمت میں صرف کیا جائے، جن کے پاس وہ نعمت نہیں۔

58.  ہم لوگ فرعون کی زندگی چاہتے ہیں اور موسیٰ ؑ کی عاقبت

59.  شکر کرو، نعمت محفوظ ہوجائے گی۔ دستر خوان کشادہ کردو، رزق بڑھ جائے گا۔ سجدہ کرو، تقرب ملے گا۔ عزت کرو، عزت ملے گی۔ صدقہ دو، بلا ٹل جائے گی۔ توبہ کرو، گناہ معاف ہو جائے گا۔

60.  بہترین کلام وہی ہے جس میں الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوں۔

61.  عروج اس وقت کو کہتے ہیں، جس کے بعد زوال شروع ہوتا ہے۔

62.  امیر کی سخاوت اللہ کی راہ میں تقسیم ِ رزق میں ہےا ور غریب کی سخاوت تسلیم ِ تقسیم ِ رزق میں ہے۔ وہ غریب سخی ہے، جو دوسروں کے مال کو دیکھنا اور اس کی تمنا کرنا چھوڑ دے۔

63.  جو انسان حال پر مطمئن نہیں، وہ مستقبل پر بھی مطمئن نہ ہوگا۔ اطمینان حالات کا نام نہیں، یہ روح کی ایک حالت کا نام ہے۔ مطمئن آدمی نہ شکایت کرتا ہے، نہ تقاضا۔

64.  اپنی زندگی میں ہم جتنے دل راضی کریں، اتنے ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے۔

65.  ضر ب ِ ید اللہی بھی اسی کے پاس ہے، جس کے پاس سجدہ ِ شبیری ہے۔

66.  اللہ کی رحمت سے انسان اس وقت مایوس ہوتا ہے، جب وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو۔

67.  آج کے انسان کو موت کے خطرے سے زیادہ غریبی کا خطرہ ہے۔ پہلے غریب کی معاشی حالت کی اصلاح کرو ۔ پھر اس کے ایمان کی۔

68.  اس دوست کا گلہ کر رہے ہو، جو دھوکا دے گیا۔ گلہ اپنی عقل کا کروکہ دھوکا دینے والے کو دوست سمجھتے رہے۔

69.  گنہگار کی پردہ پوشی اسے نیکی پر لانے کے لیے ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔ بدنامی بعض اوقات مایوس کر کے انسان کو بے حس کر دیتی ہے اور وہ گناہ میں گرتا ہی چلا جاتا ہے۔ عزت ِ نفس ختم ہو جائے تو انسان کے لیے جرم و گناہ بے معنی ہو کرہ جاتے ہیں۔

70.  اتنا پھیلو کہ سمٹنا مشکل نہ ہو۔ اتنا حاصل کرو کہ چھوڑتے وقت تکلیف نہ ہو۔

71.  مبلغین کی زندگیوں میں قول و فعل کے تضادات دیکھ کر لوگوں نے حق بات سننے سے گریز کر لیا۔ کان بند کر لیے۔ کئی لاکھ مساجد  ہیں اور کئی لاکھ آئمہ۔ لیکن قوم بے امام نظر آتی ہے۔کیوں!

72.  اگر کیفیت یا یکسوئی نہ بھی میسر ہو تو بھی نماز ادا کرنی چاہیے۔ نماز فرض ہے، کیفیت فرض نہیں۔

73.  خواب کی اونچی اڑانیں بیان کرنے سے زندگی کی پستیاں ختم نہیں ہوتیں۔

74.  زندگی ایک سایہ دار پھل اور درخت ہے، جس کو سانس کی آری مسلسل کاٹ رہی ہے۔ نہ جانے کب کیا ہو جائے۔

75.  اللہ نے جس ملک، جس دور اور جس زبان میں آپ کو پیدا فرمایا ہے، اسی ملک، اسی دور اور اسی زبان میں آپ کو عرفان مل سکتا ہے۔

76.  یاد کا نام درود ہے، ادب کا نام فیض ہے۔

77.  اہل ِظاہر کے لیے جو مقام ، مقام ِ صبر ہے۔ اہل ِ باطن کے لیے وہی مقام، مقام ِ شکر ہے۔

78.  کسی ایک مقصد کے حصول کا نام کامیابی نہیں۔ کامیابی اس مقصد کے حصول کا نام ہے، جس کے علاوہ یا جس کے بعد کوئی اور مقصد نہ ہو۔

79.  روح کی گہرائی سے نکلی ہوئی بات روح کی گہرائی تک ضرور جائے گی۔

80.  کوشش اور دعا کریں کہ جیسے آپ کا ظاہر خوب صورت ہے، ویسے ہی آپ کا باطن بھی خوب صورت ہوجائے۔

81.  دنیا قدیم ہے، لیکن اس کا نیا پن ختم نہیں ہوتا۔

82.  چاندنی میں چاند نہیں ہوتا اور چاند  پر چاندنی نہیں ہوتی۔

83.  اپنی رعایا کے حال سے بے خبر بادشاہ سے بہتر ہے وہ گڈریا جو اپنی بھیڑوں کے حال سے با خبر ہو۔

84.  دوسرے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے اپنے مشاہدات بیان کرنے والا انسان جھوٹا ہے۔

85.  آپ کی اپنی ذاتی کائنات میں آپ نے جتنا اللہ کا حصہ رکھا ہے، اتنا ہی اللہ کی کائنات میں آپ کا حصہ ہے۔

86.  دنیا کو ہنسانے والا تنہائیوں میں روتا بھی ہے۔

87.  نا پسندیدہ انسان سے پیار کرو، اس کا کردار بد ل جائے گا۔

88.  وہ چیز جو بے سوال کردے، وہ لا جواب ہوتی ہے۔

89.  اگر محنت میں لطف نہیں تو نتیجے کا انتظا ر تکلف ہے۔

90.  بہتر ہے کہ گناہ نہ کرو، اور اپنے کسی گناہ پر ہر گز کسی انسان کو گواہ نہ بناؤ۔

91.  اپنے محسن کی ذات بیان کرنے کی بجائے اس کے احسانا ت بیان کرو۔

92.  انسانوں کے وسیع سمندر میں ہر آدمی ایک جزیرے کی طرح تنہا ہے۔

93.  فقر اور اندیشہ ِ سود و زیاں کا ایک انسان میں بہ یک وقت موجود ہونا ایسے نا ممکن ہے، جیسے چیچک زدہ چہرے کا خوب صورت ہونا۔

94.  اس اندھے کا کیا علاج جو قدم قدم پر ٹھوکر کھاتا ہے اور اپنے آپ کو اندھا ماننے کے لیے تیار نہیں۔

95.  سب سے بری خواہش ہر انسان کو خوش کرنے اور اسے متاثر کرنے کی خواہش ہے، اور اس کی سزا۔۔۔یہ ہے کہ انسان نہ متاثر ہوں گے نہ خوش۔

96.  سچے کی عزت نہ کرنے والا انسان جھوٹا ہوتا ہے اور جھوٹے کی عزت نہ کرنے والا ضروری نہیں کہ سچا ہو۔

97.  یادداشت میں محفوظ رہنا والا علم عارضی ہے۔ یادداشت خود دریر پا نہیں ۔ سب سے اچھا علم وہ ہے، جو دل میں اتر کر عمل میں ظاہر ہوتا ہے۔

98.  فقیری شروع ہوتی ہے، بے ضرر ہوجانے سے اور مکمل ہوتی ہے، منفعت بخش ہو جانے پر۔

99.  ایسی دعوت میں جانے کا کیا فائدہ، جس میں نہ جانے سےدعوت کی مجموعی کیفیت پر کوئی نمایاں اثر نہ ہو۔

100.                      بیدا ر کردینے والا غم ، غافل کردینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے