آہ! مولانا وحید الدین خان!موت انھیں بھی اچک کر لے گئی

 

     تحریر: نعیم الرحمان شائق

 

نہ جانے جب بھی کوئی اہل ِ علم اٹھتا ہے تو مجھے کیوں شورش کاشمیری کا وہ درد بھر مرثیہ یاد آجاتا ہے ، جو انھوں نے مولانا ابوالکلام آز اد کی وفات پر لکھا تھا۔ابوالکلا م جب اس دنیا سے اٹھے تو شورش نے تڑپ کر کہا تھا:

عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

زمیں کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تری جدائی پہ مرنے والے وہ کو ن ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

 


اگر چہ حالات کا سفینہ اسیر ِ گرداب ہو چکا ہے

اگر چہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے

اگر چہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سو چکا ہے

مگر تری مرگ ِ نا گہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

 

کئی دماغوں کا ایک انساں، میں سوچتا ہوں کہا ں گیا ہے

قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے، زباں کا زور ِ بیاں گیا ہے

اتر گئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا؟ کارواں گیا ہے

مگر تری مرگ ِ نا گہاں کا مجھے ابھی تک یقیں  نہیں ہے

 

یہ کون اٹھا کہ دَیر و کعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہنچے

جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم، خواص پہنچے، عوام پہنچے

تری لحد پر خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے

مگر تری مرگ ِ نا گہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

 

یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: حضرت واصف علی واصف کے سو اقوال

 

ہم بھی کس قحط الرجال کے دور میں زندہ ہیں کہ پرانے بادہ کش اٹھتے جاتے ہیں۔ اور ہم ایسے بے علم، بے عمل  اور بے ذوق لوگ زمین پر بوجھ بنے زندہ  ہیں۔ ایک عالِم کی موت پورے عالَم کی موت ہوتی ہے۔ کتنے کرب اور افسوس کی بات ہے کہ اب ہم میں مولانا وحید الدین خان نہ رہے۔ مولانا 21 اپریل 2021ء کو کورونا کے باعث 96 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!

تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

 

جب بھی کوئی اہل ِ علم اٹھتا ہے، میرا دل اداس ہوجاتا ہے۔روح مضمحل ہو جاتی ہے اور سراپا مضطرب ہو جاتا ہوں۔

بے شک مولانا وحید الدین خان اتنے بڑے عالم ِ دین تھے کہ ان کے پائے کا عالم شاید ہی اس وقت کوئی ہو۔مجھے پہلی بار ان کو پڑھنے کا موقع آج سےچھے، سات سال پہلے اس وقت  ملا، جب میں الحاد پر مستند اور دل کو تشفی بخشنے والا لٹریچر پڑھنا چاہتا تھا۔ میں نے اس ضمن میں  ہارون یحیٰ کی کتابیں بھی پڑھیں۔مگر جب میں نے مولانا وحید الدین خان کی "مذہب اور جدید چیلنج" پڑھی تو واقعی دل کو تشفی ملی۔جب میں یہ کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ میں اعظم گڑھ کے  مدرسۃ الاصلاح کے فارغ التحصیل ایک  عالم ِ دین کی کتاب پڑھ رہا ہوں، بلکہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی مغربی یونی ورسٹی کے پروفیسر کو پڑھ رہا ہوں۔ جا بجا مغربی مفکرین کے حوالے ۔پھر ان کا رد۔مجھے افسوس ہو ا کہ میں ان سے اس  سےپہلے واقف کیوں نہ ہوا۔ اتنے عظیم انسان! اتنے بڑے عالم! مولانا نے تصانیف تو  اور بھی کیں ، لیکن سب سے زیادہ شہرت "مذہب اور جدید چیلنج "کو ملی۔اس کتاب میں انھوں نے تقریباً تمام مشہور مذہب مخالف مستشرقین کی دلائل و براہین کی روشنی میں خوب  خبر لی۔ یہ کتاب پہلی بار 1966ء میں  شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1970ء میں  اس کتاب کو کویت کے ایک ناشر نے "الاسلام یتحدیٰ" کے نام سے شائع کیا۔ متعدد زبانوں میں اس کے ترجمے چھپ چکے ہیں اور نصف درجن عرب یونی ورسٹیوں میں داخل ِ نصاب ہے۔

 

یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: میری شاعری


عام طور پر ہمارے علماء جو کتابیں لکھتے ہیں اس میں صرف  دینی باتیں ہوتی ہیں۔ یعنی قرآن ، حدیث اور اکابر کی باتیں۔   مولانا  وحید الدین خان صاحب کی خوبی یہ تھی کہ جہاں انھیں قرآن و حدیث پر عبور حاصل تھا، وہاں انھوں نے مغربی مفکرین کی کتابیں بھی پڑھ رکھی تھیں۔اپنی تصانیف میں  ایک طرف وہ قرآن حکیم کی آیات اور حضور اکرم ﷺ کے فرمودات کے حوالے دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف جولین ہکسلے،آگسٹ کامٹے،  برٹرینڈ رسل، ڈارون، لنٹن،لینن،ہیریز،جیمز   ہنری بریسٹڈ،  ٹی آر مائلز وغیرہ کی  باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

 

"مذہب اور جدید چیلنج " کے بعد" مذہب اور سائنس"، "مارکسزم جسے دنیا رد کرچکی"، "خاتون ِ اسلام" اور ان کی تفسیر"تذکیر القرآن " پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کی ہر کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ ہر کتاب سے نئے نئے علمی موتی چننے کو ملتے ہیں۔

 

یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: بابائے بلوچی مولانا خیر محمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ


محض چار سال کی عمر میں یتیم ہوجانے والے مولانا وحید الدین خان 1925ء میں اُتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔انھوں نے دینی تعلیم مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ سے حاصل کی۔ پھر اپنی محنت اور کد وکاوش سے انگریزی سیکھی اور مغربی مفکرین کی کتابوں کا  خوب مطالعہ کیا۔ان کے بڑے بھائی چاہتے تھے کہ وحید الدین خان فیملی کا کاروبار سنبھالیں، لیکن ان کا شوق ہی  الگ تھا۔ وہ  جلد ہی اس حقیقت سے با خبر ہوگئے کہ انگریزی اور جدید سائنس کا مطالعہ کیے بغیر ان کی تعلیم نا مکمل ہے۔ پھر انھوں نے اس ضمن میں متعد کتابیں پڑھیں اور اپنی محنت سے انگریزی سیکھی۔ وہ صبح سویرے لائبریری چلے جاتے  اور اس وقت تک لائبریری کی جان نہ چھوڑتے جب تک لائبریرین ان سے جانے کی درخواست نہ کر دیتے۔

1970ء میں انھوں نے نئی دہلی میں  اسلامک سینٹر قائم کیا۔ 1976ء میں "الرسالہ" کے نام سے ماہ نامہ میگزین کا اجرا کیا۔ یہ رسالہ شروع میں صرف اردو زبان میں شائع ہوتا تھا۔ فروری 1984ء سےانگریز ی میں اور  دسمبر 1990ء سے ہندی میں  بھی شائع ہونے لگا۔2001ء میں انھوں نے Centre for Peace and Spirituality کی بنیاد رکھی۔ جس کا مقصد روحانی دانائی کے ذریعے دنیا میں انسانوں کو امن  و سکون پہنچانا تھا۔

مولانا پانچ زبانیں جانتے تھے: اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی۔ ان زبانوں میں لکھتے تھے اور بیان بھی کرتے تھے۔ مولانا امن کے داعی تھے۔ ان کی تحاریر کا اصل مقصد مسلمانوں اور دیگر مذاہب  کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کر نا اور اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کی غلط فہمیاں  دور کرنا تھا۔ انھیں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی بے حد پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر بھارت کے وزیر ِ اعظم نریندر مودی نے  ٹویٹ کیا: مولانا وحید الدین خان کی وفات پر اداس ہوں۔ انھیں الٰہیات اور روحانیت کے معاملات پر بصیرت سے بھر پو رعلم کے لیے یاد رکھا جائے گا۔بھارتی حکومت نے انھیں دوسرے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ"پدما بھوشن" سے بھی نوازا تھا۔ 

 

اگر چہ مولانا کئی خوبیوں کے حامل تھے، ان کی معلومات بہت وسیع تھیں، وہ مشرق و مغرب  دونوں کو پڑھ چکے تھے، مگر اپنے کچھ نظریات کی وجہ سے وہ مسلم دنیا میں بڑی  حد تک متنازعہ رہے۔

1988ء میں سلمان رشدی نے The Satanic Verses یعنی "شیطانی آیات" کے نام سے بدنام ِ زمانہ کتاب تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں حضور ِ اکرم ﷺ کی ذات ِ اقدس کے خلاف ہرزہ سرائی  کے ساتھ ساتھ یہ مفروضہ بھی گھڑا گیا تھا قرآن حکیم اللہ کی کتاب نہیں، بلکہ حضور  کے اپنے خیالات و افکار کا مجموعہ ہے۔ سلمان رشدی کا یہ مفروضہ پرانا نہیں۔ اس سے پہلے انھی خیالات کا اظہار 1927ء میں  شائع ہونے والی گستا خی ِ رسول پر مبنی کتاب"رنگیلا رسول" میں کیا گیا تھا۔ یہ وہی کتاب ہے ، جس کی وجہ سے غازی علم دین شہید نے  راج پال پبلشر کو موت کے گھات اتار دیا تھا۔

 

جب سلمان رشدی کی مذکورہ بالا کتاب منظر ِ عام پر آئی تو اس وقت ایران میں روح اللہ خمینی حیات تھے۔ انھوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں سلمان رشدی  کے واجب القتل ہونے کا تاریخی فتویٰ صادر کیا۔ جس کو پوری دنیا کے مسلمانوں نے سراہا۔

 

مولانا وحید الدین خان  نے عین اس وقت "شتم ِ رسول  کا مسئلہ" نامی کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں مسلم دنیا کے تما م بڑے علماء سے ہٹ کر اپنی رائے قائم کی۔ اس کتاب کا لب ِ لباب یہ تھا کہ گستاخ ِ رسول کو سزا نہیں دینی چاہیے، بلکہ اسے سمجھانا چاہیے۔ اس کتاب میں انھوں نے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول" کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ مولانا کی یہ اپروچ مسلم دنیا کو پسند نہ آئی۔ قریباً پوری مسلم دنیا "مذہب اور جدید چلینج" لکھنے والے مولانا سے اس وقت خفا ہو گئی ، جب انھوں نے "شتم ِ رسول کا  مسئلہ" لکھی۔

 

وہ جہاد کے معنوں میں بھی تاویل کرتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں  کہ قتال مستقل نہیں۔ قرآن کے مطابق قتال اس وقت تک رہے گا ، جب تک فتنہ ہوگا۔ فتنہ نہیں تو قتال بھی نہیں۔ان کے بقول قرآن و حدیث میں جہاں لفظ جہاد آیا ہے ، اس کا مطلب "جہاد بالسیف" نہیں ہے۔ بلکہ دیگر طریقوں سے اسلام کو فروغ دینا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اِس کا اختیار بھی صرف حاکم وقت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جہاد کی ہر گز اجازت نہیں۔ اسلام میں اگرچہ دفاع کے لیے جنگ کی اجازت ہے، لیکن اِسی کے ساتھ شدت سے اعراض کا حکم دیا گیا ہے، یعنی دفاع کے حالات پیدا ہونے کے باوجود آخری حد تک جنگ سے اعراض کی کوشش کی جائے گی۔"(ماہ نامہ الرسالہ ، مارچ 2008ء )

 

وہ امن پسندی میں اتنے آگے نکل گئے تھے کہ برصغیر کی تمام مزاحمتی تحریکوں کے خلاف ہوگئے۔ ان کا ماننا تھا کہ کشمیر میں اگر حالات خراب ہیں  اور مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے تو اس کے ذمہ دار خود مسلمان ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیں ہر جگہ مسلمان قصور وار نظر آتے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعدبھی وہ مسلمان کے خلاف اور ہندوؤں کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے۔

 

تقسیم ِ ہند کے بعد مولانا وحید الدین خان جماعت ِ اسلامی  انڈیا میں شامل ہوگئے۔پندرہ سال تک اس سے وابستہ رہے۔ پھر نظریاتی اختلاف کے بعد الگ ہوگئے۔ پھر انھوں نے "تعبیر کی غلطی" کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔جس میں انھوں نے فکر ِمودودی پر کڑی تنقید کر کے اپنے پرانے دوستوں کو ناراض کر دیا۔کتاب کی ابتدا میں  لکھتے ہیں:

"اس کتاب کی اشاعت میرے اوپر کتنی سخت ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کے شائع ہونے کے بعد میں کسی ایسی جگہ جا کر چھپ جاؤں جہاں کوئی شخص مجھے نہ دیکھے، اور پھر اسی حال میں مر جاؤں۔"

"تعبیر کی غلطی " میں  زیادہ تر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں" کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ در اصل مولانا وحید الدین خان ، مولانا مودودی کی  اسلام کے ضمن میں سیاسی تشریح کو نہیں مانتے تھے۔ ان کے مطابق دین نافذ نہیں کیا جاتا، بلکہ دین پر عمل کیا جا تا ہے۔میں یہاں "تعبیر کی غلطی" کا ایک  اقتباس لکھتا ہوں، تاکہ  بات سمجھنے میں آسانی ہو۔

"الٰہ اور رب میں "اقتدار" کے تصور سے اس کے دیگر "مفہومات" اخد کئے گئے ہیں، حالانکہ حقیقۃً احساسِ احتیاج اور احساسِ پرورش اس کے دوسرے تمام پہلوؤں کے درمیان وجہ اشتراک ہے۔ عبادت  کی بحث میں بالاتری تسلیم کر کے اس کے مقابلے میں اطاعت اختیار کرنے کو اس کے دیگر "اجزاء" کی اساس قرار دیا گیا ہے حالانکہ عبادت کی اصل حقیقت خدا سے عاجزانہ اور مشتاقانہ تعلق ہے۔اور اسی سے دوسری تمام چیزیں اس کے تقاضے یا نتیجے کے طور پر پیدا ہوتی ہے۔ دین میں "نظام" کے تصور کو اس کے دیگر اجزاء کے لئےسبب جامع قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت کے اعتبار سے دین، اندرونی جھکاؤ اور مغلوبیت کا نام ہے اور اسی سے دوسری تمام چیزیں ظاہر ہو تی ہیں۔"

 

 

آخر میں ، میں صرف اتنا کہوں گا مولانا وحید الدین خان اس صدی اور گذشتہ صدی کے بہت بڑے عالم تھے، میں بہ ذات ِ خود جن علماء کی علمیت سے متاثر ہوا ہوں، ان میں سے ایک مولانا وحید الدین خان تھے۔مجھے ان کی وفات پر دلی افسوس ہوا۔ تاہم ان سے بہت سی غلطیاں سر زد ہوئیں۔اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔(آمین)

 

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے