اے خاصہ خاصان ِ رسل وقت ِ دعا ہے(مکمل نظم)

 نعیم الرّحمان شائق

خواجہ الطاف حسین حالیؔ اردو کے عظیم شاعر،نثر نگار، ادیب  اور نقاد تھے۔ 1837ء میں ہندوستان  کے شہر پانی پت میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے شاعری میں مرزاغالبؔ سے اصلاح لی۔غالبؔ نے انھیں ایک موقع پر کہا:

"اگر چہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیتا لیکن تمھاری نسبت میرا خیال ہے کہ تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔"(ریختہ )

 وہ اردو ادب کے عناصر ِ خمسہ یعنی پانچ بڑے اور اہم ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اردوو ادب کے لیے ان کی خدمات گراں قدر ہیں۔ مولانا محمد حسین آزادؔ کے ساتھ مل کر جدید شاعری کی بنیاد رکھی۔" حیات ِ سعدی"، "حیات ِ جاوید" اور "یادگار ِ غالب" ان کی اہم اور ناقابل ِ فراموش تصانیف ہیں۔ "دیوان ِ حالی" ان کا شعری مجموعہ ہے۔ انھیں 'اردو کاپہلی قومی شاعر' بھی کہا جاتا ہے۔ان کی تصنیف "مقدمہ ِ شعر و شاعری" اردو تنقید کی ابتدائی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ شیخ محمد اکرام "موج ِ کوثر" میں لکھتے ہیں:

"انھوں نے دیوان ِ حالی کے شہرہ آفاق مقدمہ(شعر و شاعری) میں پرانی شاعری کے نقائص اورجدید شاعری کے اصول اس عقل، سمجھ اور قابلیت سے سمجھائے اور شاعرانہ تنقید کا ایک ایسا دستور العمل مرتب کیا، جس کا جواب اُردو تو کیا مغرب کی بہت کم زبانوں میں ملے گا۔"

 

حالیؔ کا سب سے اہم کارنامہ "مسدّس ِ حالیؔ "ہے۔ اس کتاب کا اصل نام "مدو جزر ِ اسلام" ہے۔ یہ دراصل ایک طویل نظم ہے، جس میں مسلمانوں کی ماضی کی  شاندار تاریخ اور حال کی زبوں حالی کو نہایت دردمندی سے لکھا گیا ہے۔ یہ مولانا کا اخلاص تھا کہ یہ نظم ہندستان میں اتنی مقبول ہوئی  کہ حالی خود لکھتے ہیں:

"بعض قومی مدرسوں میں اس کا انتخاب بچوں کو پڑھا یا جاتا ہے۔ مولود شریف کی مجلسوں میں جا بجا اس کے بند پڑھے  جاتے ہیں۔ اکثر لوگ اس کو پڑھ کر بے اختیار روتے اور آنسو بہاتے ہیں۔ اس کے بہت سے بند ہمارے واعظوں کی زبان پر جاری ہیں۔کہیں کہیں قومی ناٹک میں اس کے مضامین ایکٹ کئے جاتے ہیں۔بہت سے مسدس اسی کی روش پر اسی بحر میں ترتیب دئیے گئے ہیں۔ اکثر اخباروں میں موافق و مخالف ریویو اس پر لکھے گئے ہیں۔"(مسدّس ِ حالی، دوسرا دیباچہ)

 

شیخ محمد اکرام "مسدسِ حالی "کے بارے میں لکھتے ہیں:

                "مسلمانان ِ ہند کی بیداری میں مسدّس ِ حالی نے بھی علی گڑھ کالج کے قیام سے کچھ کم کام نہیں کیا۔ سر سید خود اس کتاب کی اہمیت سے واقف تھے۔ مسدّس ان کے ایما پر لکھ گئی اور وہ کہتے ہیں"بے شک میں اس کا محرّک ہُوا ہوں اور اس کو میں اپنے ان اعمال ِ حسنہ میں سے سمجھتا ہوں کہ جب خدا پوچھے گا تو دُنیا سے کیا لایا۔ مَیں کہوں گا کہ میں حالیؔ سے مسدد لکھو ا لایاہوں اور کچھ نہیں!!"(موج ِ کوثر)

"مسدّسِ حالی" کے اختتام پر حالیؔ نے ایک اور نظم بعنوان "عرض ِ حال  بجناب سرور  ِ کائنات علیہ افضل الصّلوات و اکمل التحیات" تحریر کی۔ اس نظم کا پہلا شعر 'اے خاصہ ِ خاصان ِ رُسل وقت ِ دعا ہے' ضرب المثل بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر بسیار تلاشی کے بعد بھی مجھے یہ مکمل نظم نہ مل سکی۔ یہ درد و کرب سے لبریزتاریخی نظم ہے، جس میں شاعر حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو مخاطب کر کے مسلمانوں کی موجودہ حالت ِ زار کے بارے میں بتاتے ہیں۔

اس نظم میں کل تریسٹھ اشعار ہیں۔  

میری کوشش رہی ہے کہ انٹرنیٹ پر وہ مواد بھی پوسٹ کروں، جو پہلے سے موجود نہیں ہے۔ سو آج کی تحریر میں حالیؔ کی ہمیشہ زندہ رہنے والی مذکورہ بالانظم زیر ِ تحریر لاتا ہوں۔

 

اے خاصہء خاصان ِ رسل وقت دعا ہے

اُمّت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

 

جو دین بڑی شان سے نکلاتھا وطن سے

پردیس میں وہ آج غریب الغرُبا ہے

 

جس دین کے مدعُو تھے کبھی سیزر و کسریٰ

خود آج وہ مہمان سرائے فُقرا ہے

 

وہ دین ہُوئی بزم ِ جہاں جس سے چراغاں

اب اُس کی مجالس میں نہ بتّی نہ دِیا ہے

 

جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں

اب اُس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے

 

جو تفرقے اقوام کا آیا تھا مٹانے

اس دین میں خُود تفرقہ اب آکے پڑا ہے

 

جس دین نے غیروں کے تھے دل آکے ملائے

اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے

 

جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا

اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے

 

جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر غنا بھی

اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے

 

جو دین کہ گودوں میں پلا تھا حکما کی

وہ عُرضہء تیغ ِ جہلا و سفہا ہے

 

جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب

اب مُعترض اس دین پہ ہر ہر زہ سرا ہے

 

ہے دین ترا اب بھی وہی چشمہء صافی

دینداروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے

 

عالم ہے سو بے عقل ہے جاہل ہے سو وحشی

منعم ہے سو مغرور ہے مفلس سو گدا ہے

 

یاں راگ ہے دن رات تو واں رنگ شب و روز

یہ مجلس ِ اعیاں ہے وہ بزم ِ شرفا ہے

 

چھوٹوں میں اطاعت ہے، نہ شفقت ہے بڑوں میں

پیاروں میں محبت ہے ، نہ یاروں میں وفا ہے

 

دولت ہے، نہ عزت نہ فضیلت نہ ہُنر ہے

اِک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے

 

ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق

بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے

 

شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور

زیور ہے اگر علم تو مال اس کا جلا ہے

 

جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت

اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے

 

گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی

پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے

 

ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر

مدّت سے اسے دور ِ زماں میٹ رہا ہے

 

جس قصر کا تھا سربفلک گنبد ِ اقبال

ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے

 

بیڑا تھا نہ جو باد ِمخالف سے خبر دار

جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اُس کے ہوا ہے

 

وہ روشنیِ بام و در ِ کشورِ اسلام

یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے

 

روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج

بجھنےکو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے

 

عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہر سُو

اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزم ِ عزا ہے

 

چاؤش تھے للکارتے جن رہگزروں میں

دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے

 

وہ قوم کے آفاق میں جو سربفلک تھی

وہ یاد میں اسلاف کے اب رو بقضا ہے

 

وہ قوم کہ مالک تھی علوم اور حِکم کی

اب علم کا واں نام نہ حکمت کا پتا ہے

 

کھوج اُن کے کمالات کا لگتا ہے اب اتنا

گم دشت میں اک قافلہ بے طبل و درا ہے

 

بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہیں بنتی

ہے اس سے یہ ظاہر کہ یہی حکم ِ قضا ہے

 

تھی آس تو تھا خوف بھی ہم راہ رجا کے

اب خوف ہے مُدت سے دلوں میں نہ رجا ہے

 

جو کُچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت

شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلا ہے

 

دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت

سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام بُرا ہے

 

کی زیب ِ بدن سب نے ہی پوشاک کتاں کی

اور برف میں ڈوبی ہوئی کشور کی ہوا ہے

 

درکار ہیں یاں معرکے میں جو شن و خفتاں

اور دوش پہ یاروں کی وہی کہنہ ردا ہے

 

دریائے پُر آشوب ہے اک راہ میں حائل

اور بیٹھ کے گھوڑ ناؤ پہ یاں قصد ِ شنا ہے

 

ملتی نہیں اِک بوند بھی پانی کی جہاں مُفت

واں قافلہ سب گھر سے تہی دست چلا ہے

 

یاں نکلے ہیں سو دے کے درم لے کے پرانے

اور سکّہ رواں شہر میں مدت سے نیا ہے

 

فریا د ہے اے کشتیِ اُمّت کے نگہباں

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

 

اے چشمہء رحمت بِاَبِیْ اَنْتَ و اُمّیْ

دنیا پہ ترا لُطف سدا عام رہا ہے

 

جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چُھڑایا

جب تو نے کیا نیک سلوک اُن سے کیا ہے

 

صدمہ دُرِ دنداں کو ترے جس نے کہ پہنچایا

کی اُن کے لیے تو نے بھلائی کی دعا ہے

 

کی تو نے خطا عفو ہے ان کینہ کشوں کی

کھانے میں جنھوں نے کہ تجھے زہر دیا ہے

 

سو بار ترا دیکھ کے عفو اور ترحم

ہر باغی و سرکش کا سر آخر کو جھکا ہے

 

جو بے ادبی کرتے تھے اشعار میں تیری

منقول اُنھی سے تری پھر مدح وثنا ہے

 

برتاؤ ترے جب کہ یہ اعدا سے ہیں اپنے

اعدا سے غلاموں کی کُچھ امید سوا ہے

 

کر حق سے دُعا امت ِ مرحوم کے حق میں

خطروں میں بہت جس کا جہاز آکے گھر ا ہے

 

امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن

دلدادہ تیرا ایک سے ایک ان میں سوا ہے

 

ایماں جسے کہتے ہیں عقیدہ میں ہمارے

وہ تیری محبت تری عترت کا ولا ہے

 

ہر چپقلش ِ دہرِ مخالف میں ترا نام

ہتھیار جوانوں کا ہے پیروں کا عصا ہے

 

جو خاک ترے در پہ ہے جارُوب سے اُڑتی

وہ خاک ہمارے لیے داروئے شفا ہے

 

جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرّف

اب تک وہی قبلہ تری اُمت کا رہا ہے

 

جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت

کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے

 

کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا

اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے

 

ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمھارے

نِسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے

 

گر بد ہیں تو حق اپنا ہے کُچھ تجھ پہ زیادہ

اخبار میں اَلطّالِحُ لِیْ ہم نے سنا ہے

 

تدبیر سنبھلنے کی ہماری نہیں کوئی

ہاں ایک دُعا تیری کہ مقبول ِ خدا ہے

 

خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے ہیں خواہاں

پر فکر ترے دین کی عزت کی سدا ہے

 

گر دین کو جو کھوں نہیں ذلّت سے ہماری

اُمّت تری حال میں راضی برضا ہے

 

عزت کی بہت دیکھ لیں دنیا میں بہاریں

اب دیکھ لیں یہ بھی کہ جو ذلّت میں مزا ہے

 

ہاں حالیِؔ   گستاخ  نہ بڑھ حدِّ ادب سے

باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گِلا ہے

 

ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب

یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ ِ خطا ہے

 

  میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے