یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں


تحریر و تحقیق: نعیم الرّحمان شائق


آئے دن سوشل میڈیا پر ایسے ایسے شعر پڑھنے کو ملتے ہیں جو سرے سے شعر ہی نہیں ہوتے۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان  شعروں کو کسی بڑے شاعر کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو تختہ ِمشق بنایا جاتا ہے۔ یہ نہایت افسوس نا ک بات ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ہمارے ہاں بے علمی حد ِ کمال تک پہنچ چکی ہے۔

 


جب کبھی کسی کو علامہ اقبال کی شاعری کی یاد ستا تی ہے تو وہ فوراً گوگل میں Allama Iqbal Poetry لکھ کر سرچ کرتا ہے، اور گوگل کی images  میں جھانکتا ہے۔ جو شعر اچھا لگتا ہے، بغیر تحقیق کیے اس کو سوشل میڈیا پر پھیلا دیتا ہے۔ اگر ہم مطلوبہ مواد اردو میں تلاش کریں اور تصویروں کی بہ جاے مستند ویب سائٹوں پر اعتماد کریں ۔۔یعنی  تصویریں دیکھنے کی بہ جاے پڑھنے کو ترجیح دیں۔۔۔ تو صورت حال کسی حد تک بہتر ہو سکتی ہے۔

 

علامہ اقبال سے غلط شعر منسوب کرنے کی سب سے بڑی وجہ کتابوں سے دوری ہے۔ ملٹی میڈیا اور انٹرنیٹ نے ہم سے کتابیں پڑھنے کی عادت چھین لی ہے۔ لوگ گھنٹوں تک وڈیوز تو دیکھ لیتے ہیں ، مگر دس سے پندرہ منٹ تک کسی کتاب کامطالعہ ان سے نہیں کیا جاتا۔ کتابوں سے دوری کی وجہ سے ہمارے ہاں علمی انحطاط روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

 

ہمارے اکابر کتنی مشکلوں سے ہمارے لیے کتابیں لکھ کے گئے ہیں، لیکن ہم ان کی علمی ثروتوں کو دیکھتے تک نہیں۔ ہمارے زوال کا ایک بڑا سبب علم سے دوری بھی ہے۔ خال خال ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بہ جاے کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

 

اب میں ذیل میں وہ شعر لکھ رہا ہوں، جو علامہ اقبال کے نہیں ہیں، لیکن ان سے منسوب کر دیے جاتے ہیں۔بلکہ ان میں سے اکثر شعر ہی نہیں ہیں، کیوں کہ یہ شاعری کے اصولوں پر پورے نہیں اترتے۔ آپ سے گزارش ہے کہ ان شعروں کو علامہ اقبال سے منسوب کر کے  سوشل میڈیا پر پوسٹ نہ کریں، بلکہ دوسروں کو بھی منع کریں۔

 

سجدوں کے عوض فردوس ملےیہ بات مجھے منظور نہیں

بے لوث عبادت کرتا ہوں بندہ ہوں ترا مزدور نہیں

 

زندگی کا راز یہی ہے کہ جہاں رہو

جس حالت میں رہو، خوش رہو، مطمئن رہو

 

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہم دردی بھی

یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا

سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا

 

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

 

دل پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان

ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھےوضو کے فرائص بہت

 

اپنے کردار پر ڈال کے پردہ اقبال

ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

 

یہ کفن، یہ قبر، یہ جنازے

رسم ِ شریعت ہے اقبال

مر تو انسان تب ہی جاتا ہے

جب یاد کرنے والا کوئی نہ ہو

 

کوئی عبادت کی چاہ میں رویا،

کوئی عبادت کی راہ میں رویا

عجیب ہے یہ نماز ِ محبت کے سلسلے اقبال

کوئی قضا کر کے رویا،

کوئی ادا کر کے رویا

 

دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں

پتھر کی مسجدوں میں خدا ڈھونڈتے ہیں لوگ

 

دوا کی تلاش میں رہا دعا کو چھوڑ کر

میں چل نہ سکا دنیا میں خطاؤں کو چھوڑ کرا

حیران ہوں میں اپنی حسرتوں پہ اقبال

ہر چیز خدا سے مانگ لی مگر خدا کو چھوڑ کر

 

مت کر خاک کے پتلے پہ غرور بے نیازی

خود کو خود ہی میں جھانک کر دیکھ تجھ میں کیا رکھا ہے

 

تری رحمتوں پہ  ہے منحصر، میرے ہر عمل کی قبولیت

نہ مجھے سلیقہ ِ التجا، نہ مجھے شعور ِ نماز ہے

 

جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے

 

مٹ جائے گناہوں کا تصور ہی جہاں سے اقبال

اگر ہوجائے یقین کہ خدا دیکھ رہا ہے

 

تیرا غرور ِ عبادت تجھے نہ لے ڈوبے

سنا ہے پڑھتا تھا ابلیس بھی نماز بہت

 

دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال

سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی

 

مت کر خاک کے پتلے پہ غرور بے نیازی

خود کو خود ہی میں جھانک کر دیکھ تجھ میں کیا رکھا ہے

 

لکھنا نہیں آتا تو میری جان پڑھا کر

ہوجائے گی مشکل تری آسان پڑھا کر

پڑھنے کے لیے تجھ کو اگر کچھ نہ ملے تو

چہروں پہ لکھے درد کے عنوان پڑھا کر

اللہ نے کیا کیا تجھے نعمت نہیں بخشی

فرصت جو ملے، سورہ ِ رحمٰن پڑھا کر

لاریب تری روح کو تسکین ملے گی

تو کرب کے لمحات میں قرآن پڑھا کر

آجائے گا تجھے اقبال جینے کا قرینہ

تو سرور ِ کونین کے فرمان پڑھا کر

 

میں تجھ کو تجھ سے زیادہ چاہوں گا

مگر شرط ہے اپنے اندر میری جستجو پیدا کر

 

ملاقاتیں عروج پر تھیں جواب ِ اذان تک نہ دیا اقبال

صنم جو روٹھا ہے تو آج مؤذن بنے بیٹھے ہیں

 

نہ کلمہ یاد آتا ہے نہ دل لگتا ہے نمازوں میں اقبال

کافر بنادیا ہے لوگوں کو دو دن کی محبت نے

 

کتنی عجیب ہے گناہوں کی جستجو اقبال

نماز بھی جلدی پڑھتے ہیں پھر سے گناہ ہرکرنے کے لیے

 

حسن کردار سے نور ِ مجسم ہوجا

کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے

 

کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال

وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے

 

گرتے ہیں سجدوں میں ہم

اپنی حسرتوں کی خاطر اقبال

اگر کرتے صرف عشق خدا میں

تو کوئی حسرت ادھوری نہ رہتی

 

سر جھکانے سے نمازیں ادا نہیں ہوتیں

دل جھکانا پڑتا ہے عبادت کے لیے

 

بات سجدوں کی نہیں خلوص ِ دل کی ہوتی ہے اقبال

ہر مے خانے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہوتا

اکثر لوگ خالی لوٹ آتے ہیں ہر نماز کے بعد

 

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے اوروں کو عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

 

میرے بچپن کے دن بھی کیا خوب تھے اقبال

بے نمازی بھی تھا اور بے گناہ بھی

 

ہنسی آتی ہے مجھے حسرت ِ انسان پر

گناہ کرتا ہے کود، لعنت بھیجتا ہے شیطان پر

 

کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال

وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے

 

تجھے اقبال سے الفت ہے، تو تلوار اٹھا

قبر پہ پھول چڑھانا تو کوئی بات نہیں

 

کہاں وفا ملتی ہے مٹی کے ان حسین انسانوں سے اے اقبال

وہ لوگ بغیر مطلب کے خدا کو بھی یاد نہیں کرتے

 

نہ تجھ سے غرض نہ تیری صورت سے غرض

ہم تو مصور کا قلم دیکھتے ہیں

 

ضمیر جاگ ہی جاتا ہے، اگر زندہ ہو اقبال

کبھی گناہ سے پہلے، تو کبھی گناہ کے بعد

 

صبح کو باغ میں شبنم پڑتی ہے فقط اس لیے

کہ پتا پتا کرے تیرا ذکر با وضو ہوکر

 

کسی کی نظر میں اچھے تھے

کسی کی نظر میں برے تھے

حقیقت میں جو جیسا تھا

ہم اس کی نظر میں ویسے تھے

 

سجدہ ِ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے

خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے

لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے

ایسا لگتا ہے کوئی قرض لیا ہو رب سے

تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں اے اقبال

تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے

 

دعا تو دل سے مانگی جاتی ہے، زبان سے نہیں اے اقبال

قبول تو اس کی بھی ہوتی ہے، جس کی زبان نہیں ہوتی

 

میرا اس شہر ِ عداوت میں بسیرا ہے اقبال

جہاں لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں

 

بہت قریب سے دیکھا ہے میں نے صبر ِ خلیل

مگر حسین ترے صبر کا جواب نہیں

 

مسجد خدا کا گھر ہے پینے کی جگہ نہیں

کافر کے دل میں جا وہاں خدا نہیں

 

کون رکھے گا یاد ہمیں اس دور ِ خود غرضی میں

حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کو خدا یا د نہیں

 

تیرا غرور ِ عبادت تجھے نہ لے ڈوبے

سنا ہے پڑھتا تھا ابلیس بھی نماز بہت

 

اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا

تو اپنے اندر پہلے انداز ِ وفا تو پیدا کر

 

کسی کی غلطیوں کو بے نقاب نہ کرو

خدا بیٹھا ہے تم حساب نہ کرو

 

عجب ہے یہ نماز محبت کا سلسلہ اقبال

کوئی قضا کر کے رویا کوئی ادا کر کے رویا

 

کون یہ کہتا ہے، خدا نظر نہیں آتا

وہی تو نظر آتا ہے جب کچھ نظر نہیں آتا

 

تندی ِ باد ِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اورنچا اڑانے کے لیے

 

کہہ دو غم ِ حسین منانے والوں کو

ہم کبھی شہداء کا ماتم نہیں کرتے

ہے عشق اپنی جاں سے زیادہ آل ِ رسول سے

یوں سر ِ عام ہم ان کا تماشا نہیں کرتے

روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت ِ حسین کے

ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے

 

پروردگار سنتے ہیں کہ تو رہتا ہے شہ رگ کے قریب

جب خنجر حسین پر چلا تو تجھ پر کیا گزری

 

پرندے ہواؤں سے وفا کرتے ہیں زمین سے نہیں اقبال

اگر پرندوں سے وفا چاہیے تو آسمان میں اڑنا سیکھ

 

بیاں سر شہادت کی اگر تفسیر ہوجائے

مسلمانوں کا کعبہ روضہ شبیر ہو جائے

 

وہ کہتے ہیں عشق کرواُس سے جس سے حسین کوئی اور نہ ہو، اقبال

میں اپنے نبی سے عشق کیوں نہ کروں اُن سے حسین تو جنت بھی نہیں

 

بہک کر باغ ِ جنت سے چلا آیا تھا دنیا میں

سنا ہے بعد محشر پھر اسی جنت کی دعوت ہے

چلا تو جاؤں جنت میں مگر یہ سوچ کر چپ ہوں

میں آدام ذات ہوں مجھ کو بہک جانے کی عادت ہے

 

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ

املاک بھی، اولاد بھی، جاگیر بھی فتنہ

ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرہِ تکبیر بھی فتنہ

 

قرآن گھر میں ہے مگرہم پڑھتے نہیں

ذرا بھی اللہ کا خوف ہم کرتے نہیں

زلزلوں کے جھٹکوں سے اٹھ جاتے ہیں فوراً

سن کر اذان کبھی ہم اٹھتے نہیں

ہمیں آتی ہے مصیبت تو اللہ یاد آتا ہے

ورنہ تو کبھی سر سجدے میں ہم رکھتے نہیں

کانوں میں اذان کی بھلا کیسے آئے آواز

بند تو کبھی ٹی وی ہم کرتے نہیں

صورت سے تو انساں نظر آتے ہیں ہم

مگر سیرت سے مسلمان ہم لگتے نہیں

 

گونگی ہو گئی آج زبان کہتے کہتے

ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے

یہ بات نہیں کہ مجھ کو اُس پر یقین نہیں

بس ڈر گیا خو د کو صاحب ایماں کہتے کہتے

توفیق نہ ہوئی مجھ کو ایک وقت کی نماز

اور چپ ہو گیا مؤذن اذان کہتے کہتے

کسی کافر نے جو پوچھا کہ یہ کیا ہے مہینہ

شرم سے پانی ہوا میں رمضان کہتے کہتے

میرے شیلف میں گرد سے آٹی کتاب کا جو پوچھا

میں گرگیا زمین پر قرآن کہتے کہتے

یہ سن کے چپ سادھ لی اقبال اس نے

یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیوان کہتے کہتے

 

جنت خود بہ خود ترسے گی تیرے وجود کو اقبال

ذرا چل کے تو دیکھ میرے نبی ﷺ کے نقش ِ قدم پر

 

نہ عشق ِ حسین، نہ ذوق ِ شہادت

غافل سمجھ بیٹھا ہے ماتم کو عبادت

 

میں فقیروں سے ہی کرتا ہوں تجارت اکثر

جو ایک پیسے میں لاکھوں کی دعا دیتے ہیں

 

بروز حشر میں بے خوف گھس جاؤں کا جنت میں

وہاں سے آئے تھے آدم، وہ میرے باپ کا گھر ہے

 

آج اعمال کے ساتھ جنت کا طلبگار ہے کیا

وہاں سے نکالے گئے آدم تو تیری اوقات ہے کیا

 

یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج

مغرب کی طرف جاؤگے تو ڈوب جاؤ گے

 

عجب مذاب ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ

کاٹا حسین کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ

 

اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے

اک ضرب ِ ید اللہی، اک سجدہ ِ شبیری

 

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 

وہ روئیں جو منکر ہیں شہادت حسین کے

ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے

 

کرتے ہیں لوگ مال جمع کس لیے یہاں اقبال

سلتا ہے آدمی کا کفن جیب کے بغیر

 

وہ سو رہا ہے تو اسے سونے دو اقبال

ہو سکتا ہے غلامی کی نیند میں خواب آزادی کے دیکھ رہا ہو

 

عالم مشرق میں پھر ہنگامہ جمہور ہے
گوش بر آواز اک اک قیصر و فغفور ہے
ظلمتیں ہیں روشنی معدوم ہے مستور ہے
اے مسافر ! منزل مقصود لیکن دور ہے
پھر وہی قیصر ہے باقی پھر وہی پرویز ہے
خاک عالم پھر حرم کے خون سے لبریز ہے

آسمان پیر کی یہ فتنہ سامانی بھی دیکھ
موج دجلہ ! چل ذرا گنگا کی طغیانی بھی دیکھ
خون مسلم کی سر بازار ارزانی بھی دیکھ
پنجئہ باطل میں پھر بے بس مسلمانی بھی دیکھ
کانپتی تھی سلطنت جن کے خرام ناز سے
آہ ! وہ ڈرتے ہیں اب ناقوس کی آواز سے

دعوت و تبلیغ کی وہ سر زمین باوقار
کیوں بنا میوات تہزیب حجازی کا مزار
رورہے ہیں دیکھ وہ ” اکبر” کے بچے زار زار
دیکھ ! لے آیا کہاں ہم کو ہمارا انتشار
وہ صنم زادے کہاں ، یثرب کے دیوانے کہاں
"
بھنگ کے کلھڑ کہاں ، صہبا کے پیمانے کہاں

رات رخصت ہو چلی رخصت ہوا وقت سکوت
ہیں شکستہ کفر کے سب تارہائے عنکبوت
مہرباں ہونے کو ہے دربار ” حي لايموت
جلوہء حق کے نظر آنے لگے بین ثبوت
پھر اٹھی ہے ایشیا کے دل سے آہ بے صدا
ہو رہی ہے آج پھر شاخ کہن برگ آشنا

پھر ہری ہے آج اپنے خون سے شاخ خلیل
پھر سفر پر ہم کو اکسانے لگی بانگ رحیل

مرحبوں پر پھر کسی کا رعب چھا جانے لگا
باب خیبر پھر کسی حیدر کو اکسانے لگا

پھر شکوہ ترکمانی کو حیا آنے لگی
پھر کلاہ سرخ اپنا رنگ دکھلانے لگی

اے سرودِ بربط عالم ! ذرا لب کھول دے
گرمئ ذوق جنوں سے نعرۂ "لا حول” دے

پھر خزاں دیدہ گلوں پر آئےگا جوشِ بہار
شام غم اپنی سحر سے آشنا ہوجائے گی

وادئ ہستی میں گونجے گی صدائے” لا الٰہ
نغمہ توحید غنچوں کی نوا ہوجائے گی

ہے ابھی وہ صبح بزمی چشم عالم سے نہاں
منتظر ہیں جس کے شدت سے زمین و آسماں

اے امیر کارواں ! بیدار کن بیدار باش
از فریب ِ بت فروشان حرم ہوشیار باش

 

تیری اس دنیا میں یہ منظر کیوں ہے

کہیں زخم تو کہیں پیٹھ پہ خنجر کیوں ہیں

سنا ہے کہ تو ہر ذرے میں ہے رہتا

پھر زمین پر کہیں مسجد کہیں مندر کیوں ہے

جب رہنے والے اس دنیا میں ہیں تیرے بندے

تو پھر کوئی کسی کا دشمن کسی کا دوست کیوں ہے؟

تو ہی لکھتا ہے سب لوگوں کا مقدر یارب!

تو پھر کوئی بد نصیب کوئی مقدر کا سکندر کیوں ہے؟

 

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

 

قتل ِ حسین اصل میں مرگ ِ یزید ہے

اسلام زندہ ہو تا ہے ہر کربلا کے بعد

 

جوانوں یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے

چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم ِ سفر پیدا

 

کوئی عروج دے نہ زوال دے

مجھے صرف اتنا کمال دے

مجھے اپنی راہ میں ڈال دے

کہ زمانہ میری مثال دے

تیری رحمتوں کا نزول ہو

مجھے بس تو رزق ِ حلال دے

میرے ذہن میں تیری فکر ہو

میری سانس میں تیرا ذکر ہو

تیرا خوف میرا نجات ہو

سبھی خوف دل سے نکال دے

تیری بارگاہ میں اے خدا

میری روز و شب ہے یہی دعا

تو رحیم ہے تو کریم ہے

مجھے مشکلوں سے نکال دے

 

سرفروشی کی  تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

 

تم حیا و شریعت کی بات کرتے ہو

ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس ِ حیا دیکھا ہے

دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لیٹے کئی ابلیس

ہم نے کئی بار مے خانے میں خدا دیکھا ہے

 

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید ِ مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

 

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر

ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر

سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزرگئیں
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر

ایمان تیرا لُٹ گیا رہزن کے ہاتھوں سے
ایماں تیرا بچالے وہ رہبر تلاش کر

ہر شخص جل رہا ہے عداوت کی آگ میں
اس آگ کو بجھا دے وہ پانی تلاش کر

کردے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو
پیدل ہی خود چلے جو وہ آقا تلاش کر

 

جہاں پہ ختم ہو تی ہے حدود ِ انسانی

وہیں سے/وہی سے پنجتن کی شان کا آغاز ہوتا ہے

 

اس بات کی گواہ ہے تربت بتول کی

ناراض کلمہ گو سے بیٹی رسول کی

اقبال جس سے راضی نہیں بنت مصطفیٰ

اُس کلمہ گو نے ساری عبادت فضول کی

 

توحید ہستی ہیں ہم، واحد خدا ہمارا

ہم کافروں کے کافر ، کافر خدا ہمارا

 

کہہ دو غم ِ حسین منانے والوں سے

مومن کبھی شہداء کا ماتم نہیں کرتے

ہے عشق اپنی جان سے زیادہ آل ِ رسول سے

یوں سر ِ عام ہم ان کا تماشہ نہیں کرتے

روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت حسین کے

ہم زندہ و جاوید کاماتم نہیں کرتے

 

دل میں ہے مجھ بے عمل کے داغِ عشق ِ اہل ِ بیت

ڈھوندتا پھرتا ہے دامن ظل ِ حیدر کے لیے

 

عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ

کاٹا حسین کا سر نعرہِ تکبیر کے ساتھ

 

محبت ،کی تمنا ہےتو پھر وہ وصف پیدا کر

جہاں سے عشق چاہتا ہے وہاںن تک نام پیدا کر

اگر سچا ہے میرے عشق میں تو اے بنی آدم

نگاہ ِ عشق پیدا کر، حسن ِ ظرف پیدا کر

میں تجھ کو تجھ سے زیادہ اور سب سے زیادہ چاہوں گا

مگر شرط یہ ہے کہ اپنے اندر میری جستجو پیدا کر

اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر چیز کو تو کہنا

تو اپنے آپ میں پہلے اند از ِ وفا تو پیدا کر

 

زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا

جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے

 

علی کا زیب ، زین زندہ ہے

فاطمہ کا چین زندہ ہے

نہ پوچھ وقت کی ان بے زبان کتابوں سے

جب سنو اذان تو سمجھو حسین زندہ ہے


میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

Ehsan ullah نے کہا…
یہ اشعار اقبال کے نہیں ہوں گے لیکن کیسے فرق کیا جائے کہ یہ اشعار اقبال کے ہیں اور یہ نہیں ہیں
Mjanjua نے کہا…
حضرت اقبال علیہ رحمہ کی فارسی اردو شاعری کا مطالعہ کریں تو س۔جھ آ جائے گی۔ افسوس کا مقام ہے لوگوں نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دیں علم آگاہی مستند کرب سے ملتی ہے۔
یہ اشعار حضرت اقبال علیہ رحمہ کے نہیں اور آپ کی شاعری میں اسطرح کا کافیہ ردیف نہیں پائے جاتے۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے