اشاعتیں

دسمبر, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دس مہینے کی بچی

بابا کی محفل میں سکوت ِ مرگ چھایا ہوا تھا ۔ وہ خود بھی خاموش تھے ، ان کی مرید بھی چپ تھے ۔ بابا کی محفلیں اکثر و بیشتر تبسم بانٹتی تھیں ۔ جو بھی یہاں آتا ، خوش وخرم ہو جاتا ۔ مگر کبھی کبھار سکوت چھا جاتا ۔ خاموشی اس محفل کو ہر طرف سے گھیر لیتی تھی ۔ یہ اسی وقت ہوتا ، جب کوئی جاں کاہ حادثہ پیش آتا ۔ جب انسانوں کا خون ہوتا تو بابا سمیت اس کے مریدین اداس ہو جاتے ۔ بابا ایسے واقعات کے بعد تبصرے بھی کرتے ، جو بڑے پر مغز ہوتے ۔ ان کے مریدین ان کی باتوں سے مستفید ہوتے ۔ آج کا سکوت بھی یہ بتا رہا تھا کہ کسی کاخون ہوگیا ہے ۔ تبھی تو یہ سب خاموش بیٹھے تھے ۔ جی ہاں ، ایک ایسی بچی کا انتقال ہو گیا تھا ، جس نے اپنی عمر کی پہلی بہار بھی نہیں دیکھی تھی ۔ بچے تو روز ہی مرتے ہیں، مگر یہ دس ماہ کی بچی جس وجہ سے مری تھی ، اس وجہ نے بابا کو سخت ملول کر دیا تھا ۔ بابا کا اداسی بتا رہی تھی کہ اس واقعے نے انھیں غم زدہ کر دیا ہے ۔ 

بارہ ربیع الاول

میرے آنے سے قبل ہر طرف خوشیاں چھا جاتی ہیں ۔ لوگ مسرور ہوتے ہیں ۔فضاؤں میں نعتوں کے زمزمے گونجتے ہیں ۔ مسلمان اپنے اپنے طریقے سے اپنے آقا علیہ السلام سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ میں آتا ہوں تو سب کو خوش کردیتا ہوں ۔ میرے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ میرے آنے پر اخبارات رنگ برنگے ایڈیشن شائع کرتے ہیں ۔ میگزینوں کے سر ِ ورق روضہ ِ رسول ﷺ سے سج جاتے ہیں ۔ ٹی وی پرگراموں میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ گلی محلوں میں سیرت کے جلسے اور نعتوں کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ۔ بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں ۔۔ سب کا ذوق دیدنی ہوتا ہے ۔میں سب کو خوش کر دیتا ہوں ۔ خزاں کو بہار کر دیتا ہوں ۔ عقیدت اور محبت  کو عام کر دیتا ہوں  

جیالا

ہر طرف گہما گہمی تھی، کیوں کہ انتخابات قریب تھے ۔سرکار کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا تھا ۔ لوگ شدت سے انتخابات کے دن کا انتظار کر رہے تھے ۔ من چلے نوجوان بڑے جوش و خروش سے اپنی پارٹی کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس کے لیے انھوں نے جھنڈے اور کارڈ وغیرہ لے رکھے تھے ۔ انتخابات ہونے میں کچھ دن رہتے تھے ۔ دلچسپیاں بڑھتی جارہی تھیں ۔ نعرے بازیاں عام ہورہی تھیں ۔ کبھی دن ڈھلے ، کبھی سر ِ شام اور کبھی رات کو ۔ پارٹی کے سربراہان کے جذبات بھی قابل ِ دید تھے ۔ جہاں آتے ، مخالف پارٹیوں  کی خوب دھجیاں اڑاتے ۔ عوام کو سبز باغ دکھاتے ۔ ان کے بیانات سے یوں لگتا تھا ، جیسے انتخابات کے بعد واقعی سب کچھ بدل جائے گا ۔ غربت ختم ہوجائے گی ۔اداسیاں روٹھ جائیں گی ۔ زرد چہرے خوشی سے تمتما اٹھیں گے ۔ دہشت گردی اور قتل وغرت گری کبھی نہیں ہوگی ۔ عوام ایک گیلن پانی کے لیے سڑکوں سڑکوں نہیں بھٹکیں گے ۔ مہنگائی اپنی موت آپ مر جائے گی ۔ غرض ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی ۔ بہاریں ہی بہاریں ہوں گی ۔بوڑھے پیشین گوئیاں کر نے میں مصروف تھے ۔یعنی ان کو پہلے سے معلوم تھا کہ کون جیتےگا اور کون ہارے گا ۔ اس ضمن میں