اشاعتیں

2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دس مہینے کی بچی

بابا کی محفل میں سکوت ِ مرگ چھایا ہوا تھا ۔ وہ خود بھی خاموش تھے ، ان کی مرید بھی چپ تھے ۔ بابا کی محفلیں اکثر و بیشتر تبسم بانٹتی تھیں ۔ جو بھی یہاں آتا ، خوش وخرم ہو جاتا ۔ مگر کبھی کبھار سکوت چھا جاتا ۔ خاموشی اس محفل کو ہر طرف سے گھیر لیتی تھی ۔ یہ اسی وقت ہوتا ، جب کوئی جاں کاہ حادثہ پیش آتا ۔ جب انسانوں کا خون ہوتا تو بابا سمیت اس کے مریدین اداس ہو جاتے ۔ بابا ایسے واقعات کے بعد تبصرے بھی کرتے ، جو بڑے پر مغز ہوتے ۔ ان کے مریدین ان کی باتوں سے مستفید ہوتے ۔ آج کا سکوت بھی یہ بتا رہا تھا کہ کسی کاخون ہوگیا ہے ۔ تبھی تو یہ سب خاموش بیٹھے تھے ۔ جی ہاں ، ایک ایسی بچی کا انتقال ہو گیا تھا ، جس نے اپنی عمر کی پہلی بہار بھی نہیں دیکھی تھی ۔ بچے تو روز ہی مرتے ہیں، مگر یہ دس ماہ کی بچی جس وجہ سے مری تھی ، اس وجہ نے بابا کو سخت ملول کر دیا تھا ۔ بابا کا اداسی بتا رہی تھی کہ اس واقعے نے انھیں غم زدہ کر دیا ہے ۔ 

بارہ ربیع الاول

میرے آنے سے قبل ہر طرف خوشیاں چھا جاتی ہیں ۔ لوگ مسرور ہوتے ہیں ۔فضاؤں میں نعتوں کے زمزمے گونجتے ہیں ۔ مسلمان اپنے اپنے طریقے سے اپنے آقا علیہ السلام سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ میں آتا ہوں تو سب کو خوش کردیتا ہوں ۔ میرے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ میرے آنے پر اخبارات رنگ برنگے ایڈیشن شائع کرتے ہیں ۔ میگزینوں کے سر ِ ورق روضہ ِ رسول ﷺ سے سج جاتے ہیں ۔ ٹی وی پرگراموں میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ گلی محلوں میں سیرت کے جلسے اور نعتوں کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ۔ بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں ۔۔ سب کا ذوق دیدنی ہوتا ہے ۔میں سب کو خوش کر دیتا ہوں ۔ خزاں کو بہار کر دیتا ہوں ۔ عقیدت اور محبت  کو عام کر دیتا ہوں  

جیالا

ہر طرف گہما گہمی تھی، کیوں کہ انتخابات قریب تھے ۔سرکار کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا تھا ۔ لوگ شدت سے انتخابات کے دن کا انتظار کر رہے تھے ۔ من چلے نوجوان بڑے جوش و خروش سے اپنی پارٹی کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس کے لیے انھوں نے جھنڈے اور کارڈ وغیرہ لے رکھے تھے ۔ انتخابات ہونے میں کچھ دن رہتے تھے ۔ دلچسپیاں بڑھتی جارہی تھیں ۔ نعرے بازیاں عام ہورہی تھیں ۔ کبھی دن ڈھلے ، کبھی سر ِ شام اور کبھی رات کو ۔ پارٹی کے سربراہان کے جذبات بھی قابل ِ دید تھے ۔ جہاں آتے ، مخالف پارٹیوں  کی خوب دھجیاں اڑاتے ۔ عوام کو سبز باغ دکھاتے ۔ ان کے بیانات سے یوں لگتا تھا ، جیسے انتخابات کے بعد واقعی سب کچھ بدل جائے گا ۔ غربت ختم ہوجائے گی ۔اداسیاں روٹھ جائیں گی ۔ زرد چہرے خوشی سے تمتما اٹھیں گے ۔ دہشت گردی اور قتل وغرت گری کبھی نہیں ہوگی ۔ عوام ایک گیلن پانی کے لیے سڑکوں سڑکوں نہیں بھٹکیں گے ۔ مہنگائی اپنی موت آپ مر جائے گی ۔ غرض ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی ۔ بہاریں ہی بہاریں ہوں گی ۔بوڑھے پیشین گوئیاں کر نے میں مصروف تھے ۔یعنی ان کو پہلے سے معلوم تھا کہ کون جیتےگا اور کون ہارے گا ۔ اس ضمن میں

پاکستان میں بھارتی نصاب

نوجوان  کی ساری تعلیم پاکستان کی تھی ۔ اس وقت بھی وہ پاکستان کی ایک اعلا درس گاہ میں زیر ِ تعلیم تھا ۔ وہ قانون دان بننا چاہتا تھا ۔ اس لیے وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔ وہ اعلا تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔کبھی ملک سے باہر نہیں گیا تھا ۔ ہمیشہ یہیں رہا ۔ یہیں کی چیزیں کھائیں ۔ یہیں کا پانی پیا ۔ یہیں پلا بڑھا ۔اس کے آباء و اجداد پچھلے کئی سو سالوں سے پاکستان  کی سرزمین پر رہ رہے تھے ۔ کتنے سو سالوں سے ؟ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا  تو میرے پاس کیا ہو گا ۔ یعنی کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس کے باپ دادا ہجرت کرکے پاکستان نہیں آئے تھے ۔  اس کے سارے دوست بھی یہیں کے تھے ۔ ہو سکتا ہے ، کبھی کبھا ر اسے انڈیا اور دیگر ملکوں کے لوگ انٹرنیٹ پر مل جاتے ہوں ۔ اس کے علاوہ اس کا تعلق کبھی بھی انڈیا یا کسی ملک سے نہیں رہا ۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نوجوان سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد پاکستانی تھا ۔

یولو جیس کی جنونی تحریک کا احوال

اندلس کے چوتھے اموی سلطان عبد الرحمان دوم کے عہد ِ حکومت میں اندلس میں ایک عجیب و غریب جنونی تحریک کا آغاز ہوا ۔ اگر چہ بہت سے مورخین نے اس کو "مذہبی جنون" قرار دیا ہے ۔ مگر میں اسے "مذہبی جنون" نہیں ، بلکہ "جنونی تحریک" کہوں گا ۔ کیوں کہ کوئی مذہب اس طرح کے جنون کی اجازت نہیں دیتا ۔ اگر چہ اس جنون کو اپنانے والا کتنا ہی مذہب کا نام لے ۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام ہو چکی ہے ۔ جب لوگ مذہب کے نام پر شدت کو اپناتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں کو "مذہبی شدت پسند" قرار دے دیتے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ مذہب سے بر گشتہ ہو جاتے ہیں  اور نا دانستہ طور پر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ واقعی مذہب ایسا ہی ہوتا ہے ۔ دانشور طبقے کو چاہیے کہ مذہب کا نام لیتے ہوئے ذرا احتیاط سے کام لے۔

خطبہ ِ حج۔۔۔سانحہ ِ منیٰ

وقوف ِ عرفہ کے دوران سعودی مفتی ِ اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ نےخاص طور پر فریضہ ِ حج ادا کرنے والوں کو اور عام طورپر پوری امت ِ مسلمہ کو بڑا بصیرت افروز خطبہ ِدیا ۔ اگر اس خطبے میں کہی  گئیں باتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے اس خطبہ ِ حج میں اسلام کی حقیقی تصویر کشی کی ۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات امن ، محبت اور آشتی کا درس دیتی ہیں ۔ لیکن اسلام کے دشمن دنیا کو یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ اسلام معاذ اللہ جنگ و جدل کا درس دیتاہے ۔ اسلام بہت سخت مذہب ہے ۔ جب کہ کچھ اپنے لوگ بھی ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں اسلام کی تعلیمات اب فرسودہ ہوگئیں ہیں ۔ اس لیے یہ قابل ِ عمل نہیں رہیں ۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ اسلام صرف عبادات تک محدود رہے ۔ معاملات میں ہمیں مغرب اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کی پیروی کرنی چاہیے ۔ حالاں کہ یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ اسلام عبادات اورمعاملات دونوں کا مجموعہ ہے ۔ اسلام عبادات کا بھی درس دیتا ہے اور معاملات کو بھی بہ حسن و خوبی سر انجام دینے کے طریقے اور سلیقے سکھاتا ہے ۔ ہماری حقیقی کام یابی صرف اور صرف اسلا

بڈھ بیر کا سانحہ

جمعۃ المبارک کے بابرکت دن  کو پاکستان میں ایک اور سانحہ ہوا ۔ پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ۔ جس کے نتیجے میں 30 افراد شہید اور 29 زخمی ہو گئے ۔ جب کہ دوسری طرف 13 حملہ آور ہلاک کر دیے گئے ۔ حملہ آور وں نے ایف سی کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں ۔ یہ حملہ آور فجر کے وقت کیمپ میں داخل ہو ئے ۔ انھوں نے آتے ہی مسجد میں موجود نمازیوں پر فائرنگ شروع کر دی ۔ فائرنگ کے ساتھ ساتھ دستی بموں سے حملہ بھی کیا ۔ جس کی وجہ سے 16 نمازی شہید اور 10 زخمی ہو گئے ۔ پھر پاک فوج کے جوانوں اور حملہ آوروں کے درمیان دست بدست لڑائی شروع ہوگئی۔  حملہ آوروں کے عزائم خطر ناک تھے ۔ وہ پاک فضائیہ کے افسران کے گھروں تک پہنچ کر ان کے بچوں کو یر غمال بنانا چاہتے تھے ۔ اگر پاک سکیورٹی فورسز کے جوان بر وقت کارروائی نہ کرتے تو شاید یہ حملہ آور اپنے مقاصد میں کام یاب ہو جاتے ۔ قدرے توقف کے بعد کوئیک ریسپانس فورس کے دستوں نے پہنچ کر پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ اور حملہ آوروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا ۔

وہ جو سوئے حرم چلے اور واپس نہ آئے

قوی ارادہ تھا کہ اس دفعہ سپریم کورٹ کے اردو کے حق میں دیے گئے فیصلہ پر لکھوں گا ۔کیوں کہ پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دے دیا ۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر مجھ جیسے اردو کے شائق کے لیے ایک بہترین خبر تھی ۔لیکن بروز ِ ہفتہ کے اخبارات کی سیاہ سرخیوں نے  ارادہ  یکسر تبدیل کر دیا ۔ کبھی کبھی یوں ہی ہوتا ہے کہ اخیر لمحے میں موضوع تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔ پھر کالم جتنے  تاز ہ موضوع پر ہوگا ، اتنی ہی لوگوں کی توجہ حاصل کرے گا ۔ اس کے علاوہ میرا نقطہ ِ نظر یہ بھی ہے کہ حرم ِپاک سے مسلمانوں کا روحانی اور دینی رشتہ  ہے ۔ اگر وہاں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس پر ضرور لکھنا چاہیے ۔ 

"کس قوم کو للکارا ہے؟"

6 ستمبر 1965 ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔  کیوں کہ  آ ج سے ٹھیک پچاس سال قبل اس دن پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست دے دی تھی ۔ پوری دنیا ورطہ ِ حیرت میں تھی کہ پاکستان نے اتنا بڑا کا م کیسے کر دیا ۔  کیوں کہ بھارت ہم سے ہر لحاظ سے بہتر تھا ۔  اس کے پاس فوج بھی زیادہ تھی ۔ اسلحہ بھی زیادہ تھا ۔ لیکن اس کے  باوجود وہ پاکستان کے ایک علاقے پر بھی قبضہ نہ کر سکا ۔ اسے ہر جگہ منھ کی کھانی پڑی ۔ 17 دنوں تک جنگ جاری رہی ۔ بالآخر پاکستان کو فتح حاصل ہو گئی ۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ بعض شعبے ایسے بھی تھے جس  میں بھارت ہم پر 11 گنا برتری کا حامل تھا ۔پاکستان نے مصلحت کا ثبوت دیتے ہوئے اس جنگ میں پہل کرنے سے گریز برتا ۔ یہ بھارت تھا ، جس نے جنگ میں پہل کرتے ہوئے زندہ ولوں کے شہر لاہور پر دھاوا بول دیا ۔ مگر اس کے قبضے کی کوشش نا کام ہو گئی ۔   

ڈیمین موران کا جراء ت مندانہ اقدام

انصاف یہ ہے کہ برا کام اپنے بھی کریں تو مذمت کی جائے اور اچھا کام غیر بھی کریں تو تعریف کی جائے ۔ یہ انصاف نہیں کہ اگر کوئی ان جان یا آپ کا حریف کوئی اچھا کام کرے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے ۔ اسی طرح یہ بھی نا انصافی ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا یا آشنا یا آپ کی قوم کا فرد کوئی برا کام کرے تو آپ اس کی حمایت میں بولنے لگیں ۔غیر جانب داری بھی اسی عمل کانام ہے  کہ آپ انصاف کا ثبوت دیتے ہوئے مذمت اور تعریف کا وہ معیار اپنائیں ، جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں ہوا ہے ۔ 

جنرل حمید گل بھی "مرحوم" ہو گئے

موت قدرت کا اٹل فیصلہ ہے ۔ موت بر حق ہے ۔ چودہ صدیاں قبل دنیا کی سب سے اہم ترین کتاب نے انسانوں کو ان کے خالق کا یہ پیغام سنایاکہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ کئی لوگ روزانہ مر جاتے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں ۔ لا ریب ان کا جسم فانی ہو جاتا ہے ۔ لیکن وہ کتابوں میں، نصابوں  میں اور لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہتے ہیں ۔ ان کے زندہ رہنے کی وجہ ان کے کار نامے ہوتے ہیں ۔ ملک و قوم کے ضمن میں ان کی خدمات ہوتی ہیں ۔ انھوں نے انسانیت کے دکھوں کی چارہ جوئی کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوتی ہے ۔

قصور اسکینڈل ۔۔۔ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟؟

میرے سامنے قصور اسکینڈل اپنی تما م تر ہیبت اور وحشیانہ منظر کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ میں اس منظر سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں ۔ اس خبر سے دور بھاگنا چاہتا ہوں ۔ لیکن یہ کام  بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ ارادہ تھا  کہ یوم ِ آزادی پر لکھوں گا ۔ اپنے پڑھنے والوں کو کچھ تاریخی واقعات کی سیر کراؤں گا ۔ لیکن ایسا نہیں کر سکتا ۔ مجھے طوعا کرہا بابا بلھے شاہ کے قصور میں ہونے والے وحشیانہ سانحے پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑے گا ۔ اس بھیانک واقعے سے راہ ِ فرار اختیا ر کرنا میرے مشکل  کیا ، نا ممکن ہو چکا ہے ۔ 

الحمد للہ ۔۔الحمد للہ

رات کے گہرے سناٹے میں اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔ وہ کبھی دائیں کروٹ لیتا اور کبھی بائیں طرف مڑ جاتا ۔ دراصل اس کا ذہن منتشر تھا ۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے ۔ وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا ، لیکن سو نہیں پا رہا تھا ۔ذہن خیالات کی آماج گاہ بن جائے تو نیند کہاں سے آتی ہے ۔ کچھ دیر بعد اسے پیاس محسوس ہوئی ۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا ، فریج کے پاس گیا ، وہاں سے ٹھنڈے پانی   کی بوتل نکالی ، گلاس میں اپنی ضرورت کے مطابق پانی انڈیلا اور پی لیا ۔ پانی پینے کے بعد اس کی زبان سےبے ساختہ "الحمد للہ " کا کلمہ ِ خیر نکلا ۔ اس کلمہ ِ خیر نے اس کی سوچ کا زاویہ یک سر تبدیل کر دیا ۔ وہ "الحمد للہ " کے بار ے میں سوچنے لگا ۔ ویسے الحمد للہ کا مطلب ہوتا ہے ، "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں "۔ لیکن یہ ایک کلمہ ِ شکر ہے ۔ جو ایک مسلمان اس وقت ادا کرتا ہے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے ۔

"اسلام نافذ ہو گیا ۔۔۔۔"

"پیارے بھائیو! اب ہم اس ملک کے چپے چپے پر اسلام کا نفاذ کریں گے ۔اس کے لیے ہمیں جان دینی پڑے تو دے دینی چاہیے ۔ اسلام قربانی مانگتا ہے ۔ اگر ہم قربانی نہیں دیں گے تو کون دے گا ۔ سو اٹھ کھڑے ہوں اور اسلام کا علم اٹھا کر دشمنوں کی صفوں میں گھس جائیں ۔ یہ صرف نام کا اسلامی ملک ہے ۔ یہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ یہ مرتد ہو چکے ہیں ۔ انھیں مارنا فرض ہو چکا ہے ۔ یہ ہمارے بھائی نہیں ہو سکتے ۔ کیوں کہ یہ ہمارے دشمنوں کو دوست بناتے ہیں ۔ قرآن  جنھیں ہمارا دشمن کہتا ہے ، وہ ہمارے دوست کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟ اس لیے اب یہ بھی ہمارے بد ترین دشمن ہیں ، جن سے انتقام لینا از حد ضروری ہے ۔ "

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے

درحقیقت کتابت ِ حدیث کا آغاز عہد ِ رسالت ماٰب ﷺ میں شروع ہو گیا تھا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ نے  نہ صرف  کتابت ِ حدیث کے کام کی حوصلہ افزائی کی ، بلکہ آپ ﷺ نے چند مواقع پر خود اپنی سرپرستی میں احادیث لکھوائیں ۔   رسول اللہ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھی گئیں چند احادیث کی کتابیں درج ذیل ہیں:  1۔ صحیفہ ِ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ 2۔ الصحیفۃ الصادقہ 3۔ کتاب الصدقہ ِ 4۔   صحیفہِ علی رضی اللہ عنہ  

اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنان ِ بہشت !

اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنانِ بہشت ! میرے دامن میں ایسا کچھ نہیں ہے ، جو میں تمھاری نذر کر سکوں ۔ سوائے چند الفاظ کے ۔ میں کوئی سیاست دان نہیں ، جو بیان بازیاں کروں ۔ کوئی سکہ بند شاعر نہیں جو قافیوں پر قافیے ملا کر تمھارے لیے کوئی مرثیہ نظم کروں ۔ فقیہ ِ وقت نہیں کہ فتوے رقم کروں ۔ واعظ ِ شہر نہیں کہ تمھاری مدح میں وعظ کر کے خلقت کا دل لبھا سکوں ۔ میں ایک چھوٹا سا قلم کار ہوں۔ سو میری آج کی  تحریر کے سارے الفاظ تمھارے لیے وقف ہیں ۔ اسے تم میرے دل کی آواز کہو یا اپنے لیے خراج ِ عقیدت ۔ یہ تم پر انحصار کرتا ہے ۔ 

نریندر مودی کا فون اور مسئلہ ِ کشمیر

پچھلے دنوں بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کیا ۔ انھوں نے وزیر ِ اعظم نواز شریف کو رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد دی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستانی مچھیروں کی رہائی کی  نوید بھی سنائی ۔ دونوں رہنماؤں نے  متانازعہ بیانات نہ دینے پر اتفاق کیا ۔ یہ گفتگو پانچ منٹ تک جاری رہی ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نے اس گفتگو میں کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ۔ اس موقع پر پاکستانی وزیر ِ اعظم نے  اپنےبھارتی ہم منصب کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ اور اختلافات کی بہ جائے امن و محبت کی طرف جانا چاہیے ۔ تاکہ دونوں ملکوں کے عوام اپنے لیڈروں کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں ۔ قوموں کے حکم ران گھر کے سربراہ کی طر ح ہوتے ہیں ، جو اپنے خاندان کو لڑائی جھگڑوں سے بچا کر امن کی طرف لے جاتے ہیں اور ہر آفت سے ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں کنبے کی فلاح ہر حال میں مقدم ہوتی ہے۔ 

"بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی "

اگر آپ کے سامنے کوئی اس بات کا اعتراف کر لے کہ آپ کے وطن کو برسوں پہلے دو لخت کرنے میں ہمارا ہاتھ تھا تو آپ کو یقینا بہت دکھ ہوگا ۔ حب الوطنی اسی کا نام ہے ۔ پھر اگر یہ بات کرنے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ ایک پورے اسٹیٹ کا وزیر ِ اعظم ہو تو آپ اور زیادہ تاسف کا اظہار کریں گے ۔ افسوس کے ساتھ ساتھ آپ کو غصہ بھی آئے گا ۔ یعنی آپ غم اور غصے دونوں میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی کیفیت سے دوچار اس وقت ہمارے ملک کے باشندے ہیں ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کے  پاکستان مخالف بیان کے بعد پاکستان کے عام اور خاص دونوں طبقے کے لوگ  بہت زیادہ  غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اب بھارت پر حملے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح بھارت  کے وزیر ِ اعظم نے  تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا اعتراف کیا ہے ، بالکل اسی طرح پاکستان کے وزیر ِ اعظم کو بھی دو ٹوک بات کرنی چاہیے ۔ انھیں کسی  طرح کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔دوسرے الفاظ میں وزیر ِ اعظم کا  مصلحت سے عاری اور جذباتی ردِ عمل فی الواقع عوام کا حقیقی ترجمانی ہوگی ۔ 

مسلم دنیا کا ایک دکھتا نا سور

3 مارچ، 1924 ء ۔۔ یہ وہ دن ہے ،جس دن ترکی میں خلافت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ خلافت کے خاتمے میں اپنوں اور غیروں ، دونوں کا ہاتھ تھا ۔ خلافت متحرک نہیں تھی ۔ خلافت کے جسم میں وہ طاقت ختم ہو گئی تھی ، جو مسلمانان ِ عالم کے مسائل حل کر سکتی ہو ۔ ترکی میں قائم خلافت سے کوئی خوش نہیں تھا ۔ انگریز بر صغیر پر چڑھ دوڑے ۔ وہاں کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے کردی ۔ مظالم کی انتہا کر دی ۔ مگر ترکی میں صدیوں سے قائم خلافت مسلمانان ِ بر صغیر کے لیے کچھ کام نہ آئی ۔دوسری طرف عرب بھی ترکی خلافت سے سخت نالاں تھا ۔ انھوں نےپہلی جنگ ِ عظیم کے دوران  ترکی کے خلاف بغاوت کر دی ۔ 

بھولے بسرے مسلمان

جمعۃ المبارک کے بابرکت دن خبر آئی کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پہلے تین بسوں کے مسافروں کو اغوا کر لیا گیا اور پھر شناخت کے بعد بیس افراد کو شہید کر دیا گیا ۔ اسی بابرکت دن کو سعودی عرب کے شہر دمام میں مسجد کے باہر خود کش دھماکا ہو ا، جس سے چار افراد شہید ہو گئے ۔واضح رہے کہ سعودی عرب میں یہ دوسرا بم دھماکا ہے ۔ یعنی اب سعودی عرب بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہا ۔ رب تعالیٰ رحم کرے ۔

مصر میں جمہوریت کا خون

فی الحقیقت مصر میں جمہوریت کا خون ہو گیا ۔ مصر کی ایک عدالت نے سابق صدر محمد مرسی سمیت 106 افراد کو سزائے موت سنا دی ۔ ان پر 2011ء میں حسنی مبارک کے خلاف عوامی بغاوت کے دوران جیل توڑنے کا الزام ہے ۔ کہا یہ بھی جار ہا ہے کہ انھوں نے حماس ، حزب اللہ اور مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر یہ قدم اٹھا یا تھا ۔ جس کے نتیجے میں محمد مرسی سمیت اخوان کے 34 افراد فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے ۔ اس سے قبل محمد مرسی کو 20 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ 

صفورہ چوک کا سانحہ

جمعرا ت کو پھر ایک دل دہلا دینے والی خبر پڑھی ۔ معلوم ہوا کہ میرے شہر کراچی کو پھر خون میں نہلا دیا گیا ۔ بس کے اندر گھس کر ایک مخصوص کمیونٹی  پر فائرنگ کی گئی ۔ جس کے نتیجے میں 18 خواتین سمیت 45 جاں بحق ہو گئے ۔ یہ اندوہ ناک سانحہ صفورہ چورنگی کے قریب پیش آیا ۔ بد قسمت بس بدھ کی صبح ساڑھے 9 بجے الاظہر گارڈن سے عائشہ منزل جماعت خانے کے لیے روانہ ہوئی  تھی ۔ مگر راستے میں ہی نشانہ بنا دی گئی ۔ 55 مسافروں میں سے 45 اس جہاں سدھارے ۔ داد دیجیے بس کے زخمی کنڈکٹر کو ۔ وہ زخمی تھا ۔ مگر پھر بھی ہمت کر کے اٹھا اور بس کو ایک نجی اسپتال تک لے گیا ۔ بلا شبہ یہ کنڈیکٹر قابل ِ تعریف ہے ۔ پاکستانی قوم میں ایثار بہت ہے ۔ جذبہ قربانی بھی بہت ہے ۔ایسے مواقع پر یہ جذبہ مزید اپنے رنگ دکھاتا ہے ۔

کراچی میں پانی کا مسئلہ

ان دنوں شہر ِ قائد کے چند علاقوں میں پانی کا شدید بحران ہے ۔ اس کی وجہ پمپنگ اسٹیشنوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے ۔ جمعرات کو خبرآئی کہ شہر میں پانی کی قلت 348 ملین گیلن ہوگئی ۔ جس سے قلت ِ آب کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ادھر وزیر ِ اطلاعات و بلدیا ت کے الیکٹرک پر سخت بر ہم ہیں ۔ انھوں نے کے الیکٹرک کی جانب سے عدالت کے واضح احکامات کے با وجود واٹر پمپنگ پر گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کو کراچی کا امن و امان خراب کرنے کے مساوی قرار دیا ۔ اس طرح انھوں نے سندھ اسمبلی میں بھی کے الیکٹرک کو کھر ی کھر ی سنائیں ۔ انھوں نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک کے ذمہ داروں نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو انھیں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں میں ڈالا جائے گا ۔ 

ہیں تلخ بہت بندہ ِ مزدور کے اوقات

یکم  مئی کو بہت گر می تھی ۔ درجہ ِ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ سے متجاوز تھا ۔یہ مزدوروں اور محنت کشوں کا عالمی دن تھا ۔ مگر اس دن بھی ہم نے دیکھا کہ مزدور اور محنت کش طبقہ تو  اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا ، لیکن امیر  طبقہ گھروں میں اے سی اور پنکھوں کے مزے لوٹ رہا تھا ۔ بازار حسب ِ معمول کھلے تھے ۔سبزیوں اور پھلوں کے ٹھیلے لگے ہوئے تھے ۔ گلی کے نکڑ پر شدید گرمی سے بے نیاز بچوں کی چیزیں بیچنے والا محنت کش اپنے کام میں جتا ہوا تھا ۔ کھدائی کا کام کرنے والا مزدور پسینے میں شرابور تھا ، مگر  شدید گرمی میں بھی اپنا کا م جاری رکھے ہوئے تھا ۔عورتیں ،جو گھروں میں سلائی اور کڑھائی وغیرہ کا کام کرتی ہیں ، ان کی بھی کوئی چھٹی نہیں تھی ۔سرکار نےتو چھٹی دے رکھی تھی، مگر کئی نجی ادارے کھلے ہوئے تھے اور وہاں کام کرنے والے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے ۔

امامِ کعبہ کے نصائح

24 مارچ 2015 بروز جمعۃ المبارک کو امام ِ کعبہ شیخ خالد الغامدی نے بحریہ ٹاؤن لاہور کی جامع مسجد میں خطبہ ِ جمعہ دیا ۔ انھوں نے اس خطبے میں اسلام کے حوالے سے جن باتوں کا درس دیا ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یہ کوئی نئی باتیں نہیں تھیں ۔ قرآن حکیم کو بہ غور پڑھا جائے تو یہی نےنتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے۔ یہ دین ِ مبین نہ صرف اپنوں کے لیے بلکہ غیروں کے لیے بھی نسخہِ اکسیر ہے ۔ یہ دنیا کی تمام اقوام کے لیے رحمت ہی رحمت ہے ۔ ہر ایک اس آفاقی دین کے دامن ِ عافیت میں آکر حقیقی سکون حاصل کر سکتا ہے ۔یہ الہامی اصولوں پر مبنی ایسا دین ِ مبین ہے ، جو اقوام عالم کے لیے امن ، سکون اور آتشی کا ضامن ہے ۔   

الم ناک سانحہ

موضوع ذرا پرانا ہے ۔ مگر ایسا ہے کہ اغماض برتنے  کو جی نہیں چاہتا ۔ یہ موضوع دیگر موضوعات سے زیادہ   ا نہیں ہے۔کیوں کہ موضوع جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے ، اہمیت کھوتا جاتا ہے ۔ مگر پھر بھی لکھنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ پیر سے لے کر ہفتے تک ذہن میں بہت سے موضوعات کلبلاتے رہے ۔ میرے سامنے یمن کا مو ضوع تھا ۔ عرب امارات کے وزیر کی طرف سے پاکستان کے خلاف بیان بازی اور پھر اس پر ہمارے وزیر ِ داخلہ کے سخت رد َ عمل کا موضوع تھا ۔ سعودی عرب کے وزیر ِ مذہبی امور  ڈاکٹر  عبد العزیز بن عبد اللہ العمار کی مثبت باتوں کا موضوع تھا ۔ جنھوں نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بہترین انداز سے یمن کی کشیدگی کے ضمن میں سعودی عرب کے  موقف کا اظہار کیا ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ سعودی عرب کے وزیر ِ مذہبی امور نے جس طرح مثبت انداز میں اپنے موقف کا اظہار کیا ، اس سے اچھا کوئی مثبت موضوع تھا ہی نہیں ۔

پاکستانی ٹیلنٹ

یہ خبر اگرچہ تھوڑی سی پرانی ہے ، لیکن دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ جرمن ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے بارہ فروری 2015کو اپنی ویب سائٹ پر پاکستانی محققین کے ایک کام یاب تجربےکے بارے میں خبر شائع کی تھی ۔ میں اس خبر کی چند چیدہ چیدہ باتیں یہاں تحریر کرتا ہوں ۔اس خبر کے مطابق: پاکستانی محققین نے گھریلو کوڑے کرکٹ میں شامل پلاسٹک کو انتہائی جدید طریقے سے ری سائیکل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ۔پاکستان میں اس طریقہ کار سے متعلق تجربات حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات شاہ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم اور معدنیات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحت علی کی زیر نگرانی انجام دیے گئے ہیں۔کراچی کے حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈکٹر رضا شاہ بتاتے ہیں کہ پلاسٹک ری سائکلنگ کا یہ طریقہ نہایت ماحول دوست ہے، "یہ ایک ایسا پراسس ہے جس میں پلاسٹک کا کوڑا فیول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں خاص طور سے کراچی کے جو بڑے مسائل ہیں ان میں سے ایک آلودگی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پلاسٹک کا کوڑا ہے جس میں پولیتھن بیگ کی سب سے زیادہ تعداد ہے جو ماحول میں شامل ہو کر تلف نہیں ہوت

اتحاو اتفاق ۔۔۔مسلمانوں کی اہم ضرورت

اس میں شک نہیں کہ اتحاد و اتفاق مسلمانوں کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔ میں اپنی تحریروں کے ذریعے کبھی کبھی مسلمانوں کو اس سب سے اہم ضرورت کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں ۔ مسلمان دنیا کی دوسری بڑی قوم ہیں ۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ ہے ۔ دنیا کے اٹھاون ممالک پر مسلمانوں کی حکومت ہے ۔ عیسائیوں کے بعد  دنیا میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ لیکن عالمی سطح پر مسلمانوں کی کیا اہمیت ہے ، وہ ہم سب جانتے ہیں ۔ اس وقت مسلمانوں کو کئی قسم کے خطرات لا حق ہیں ۔ جن کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ لیکن میری نظر میں سب سے بڑی وجہ مسلم دنیا میں پھیلی نا اتفاقی اور انتشار ہے ۔ کہیں فرقہ واریت ہے  تو کہیں قوم پرستی ۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ تعصب ہے ۔  مسلمان جب تک متحد نہیں ہوں گے ، وہ اپنے مقاصد کی تکمیل نہیں کر سکیں گے ۔ ان کی حالت یہی رہے گی ۔ وہ اپنے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ہر قسم کے نا اتفاقی اور انتشار پھیلانے والے عوامل سے گریز کریں ۔ 

نقل امریکا اور بھارت میں

یقین جانیے ، اگر ہمیں امریکا اور انڈیا میں ہونے والی نقل کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہوتا تو ہم پچھلے ہفتے "نقل کی روک تھام " کے عنوان سے کوئی کالم زیر ِ تحریر نہ لاتے ۔ بھارت کے طلبہ کہتے ہیں کہ نقل کرنا ان کا جمہوری ہی نہیں ، بلکہ پیدائشی حق ہے ۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں ، چاہے وہ انڈیا کے ہوں یا پاکستان کے۔ جب نقل کرنا بھارت کے بچوں کابنیادی حق ہے تو ہمارے بچوں کا کیوں نہیں ہے ۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟اگر  ہم اپنی  تحریروں کے ذریعےاپنے طلبہ و طالبات کو ان کے پیدائشی اور جمہوری حق سے محروم کر نے کی بات کریں  تو یہ بالکل  اچھی بات نہیں ہے ۔اس لیے ہم اپنی پچھلی تحریر سے برات کا اظہار کرتے ہیں ۔ در اصل امتحان کے گرم موسم میں جب ہم نے چند ہونہار بچوں کو کھیلتے دیکھا تو ہمارا خون کھول اٹھا ۔ہمارے حساس  دل میں قوم کا جذبہ تو یوں ہی موج زن ہے ۔ اس لیے  ہم نے ایک جذباتی کالم لکھ مارا ۔کیوں کہ ہمارے  لاشعور میں یہ بات رقص در رقص کر رہی تھی کہ نقل "صرف " ہمارے بچے  کرتے ہیں ۔ لیکن  جب ہمیں معلوم ہوا کہ نقل امریکا اور بھارت میں بھی کی جاتی ہےتو ہمارے لا شعور کو خیال میں ایک چ

نقل کی روک تھام

پاکستان میں تعلیمی زوال کا ایک بڑا سبب نقل کلچر ہے ۔ مجھے دیگر صوبوں کا علم نہیں ، لیکن جس طرح صوبہ ِ سندھ کے شہر کراچی میں نقل ہوتی ہے ، اس سے ہماری تعلیم کے معیار کا پول کھل جاتا ہے ۔ ان دنوں امتحانا ت کا دور دورہ ہے ۔ اسکولوں میں امتحانات ہو گئے ہیں ۔ اگلے مہینے کی ابتدا میں کراچی میں جماعت نہم اور دہم کے امتحانات شروع ہوں گے ۔ اس کے بعد گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات ہوں گے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طلبہ امتحانات سے بالکل خوف زدہ نہیں ہیں ۔ ان کے چہروں سے پریشانی ذرا بھی  نہیں جھلکتی ۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امتحانات میں نقل کر کے پاس ہو جائیں گے ۔ یہ نقل ہی ان کے کام یاب ہونے کا واحد سہارہ ہے ۔ 

اردو کا مسئلہ

پاکستانی آئین کی دفعہ 251 کے مطابق:  (1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔  (2) انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی ، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں ۔ (3) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر ، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات  تجویز کر سکے گی ۔ 

کچھ باتیں کتابوں کی

یہ بات نہایت تشویش ناک ہے کہ عموما پوری قوم اور خصوصا ہماری نوجوان نسل کتابوں سے خطرناک حد تک دور ہوتی جارہی ہے ۔ گو زمانے  نے بہت ترقی کر لی ہے  ۔ جدید انفار میشن ٹیکنا لوجی کا دود دور ہ ہے ۔ دنیا سکڑ کر عالمی گاؤں بن چکی ہے ۔ مگر میری دانست میں کتابیں اس وقت بھی علم کا سب سے بڑا منبع ہیں ۔ گویا کتابوں سے دوری علم سے دوری کے مساوی ہے ۔ ہمارے طلبہ بھی کتابوں سے بھاگتے ہیں ۔وہ صرف اپنی نصابی کتابوں تک محدود رہتےہیں ۔ جس کی وجہ سے ان کی معلومات جمود کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ یہ کتابوں سے دوری کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہمارے طلبہ و طالبات میں تحقیق و تجسس اور شعور و آگہی جیسی حیات ِ جاوداں بخشنے والی چیزیں پروان نہیں چڑھتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آج کل کے طلبہ و طالبات علمی میدان میں کوئی بڑا کار ِ نمایاں سر انجام نہیں دے پاتے ۔ 

تعلیم اور ہم

کسی بھی قوم میں تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اقوام ِمغرب کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ تعلیم ہے ۔ تعلیم شعور و آگہی بخشتی ہے ۔ یہ تعلیم ہی ہے ، جس کے بل بوتے پر آج انسان کی رسائی چاند تک ہو چکی ہے ۔انسان اپنے سیارے یعنی زمین کو تو مسخر کر ہی چکا ہے ، لیکن اب دوسرے سیاروں پر بھی کمندیں ڈالنے کو ہے ۔ میں تعلیم اور علم کے مابین فرق کا قائل نہیں ہوں ۔  دونوں کو ایک ہی چیز سمجھتا ہوں ۔تعلیم یا علم ہر بچے کا بنیادی حق ہے ، جو اسے ضرور ملنا چاہیے ۔ 

امریکا اور مسلم دنیا

امریکی صدر نے دنیا کو باور کرایا کہ مغرب اور اسلام میں جنگ کو تائثر سفید جھوٹ ہے ۔ دنیا پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ناسور کے خلاف متحد ہے ۔ بین الاقوامی برادری دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں غیر متزلزل عزم کا اظہار کرے ۔ جہادی یہ غلط تائثر پیش کر رہے ہیں کہ یہ تہذیبوں کے درمیان لڑائی ہے ۔ مگر یہ بات کھلی دروغ گوئی ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف صف آراء ہے ۔ بغیر کسی مذہبی تفریق کے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس تائثر کو مسترد کریں ۔ ہم اسلام کے خلاف لڑائی نہیں کر رہے ، ہم ان عناصر سے لڑ رہے ہیں ، جنھوں نے اسلام کو مسخ کیا ہے ۔ 

دو منفی خبریں

پھر وہی خون ۔ پھر وہی لہو زدہ تحریر ۔ سمجھ نہیں آتا ، کب تک ایسی تحریریں لکھنے کی نوبت آتی رہے گی ۔ ذہن ماؤف ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عنقا ہے ۔ بے ربط سے جملے دماغ پر مسلط ہیں ۔ پس وہی زیر ِ قلم ہیں ۔پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا ہے ۔ آرمی پبلک اسکول کے بعد دوسرا بڑا حملہ ، جو اس شہر میں وقوع پزیر ہوا ۔ ہر ہفتے سوچتا ہوں ، کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ مگر کیوں کر ؟ جہاں پشاور ایسے سانحات منہ چڑا رہے ہوں ، وہاں کیسے مثبت موضوعات پر لکھا جا سکتا ہے ؟

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

5 فروری آیا اور چلا گیا ۔یہ ہر سال آتا ہے ۔ اہلیان ِ پاکستان کو سوگ وار کرتا ہے ۔ پھر چلا جاتا ہے ۔ اس دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ کشمیری بھائیوں سے اظہار ِ یک جہتی کے لیے  جلوس نکلتے ہیں ۔ "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے بازی ہوتی ہے ۔ ایوان ِ بالا و زیریں میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں ۔ سیاست دان ایوانوں میں ، عوام سڑکوں پر جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ زبان ِ قال و حال سے کہا جاتا ہے : "ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔"جارحانہ بیان بازی ہوتی ہے ۔یہ دن 1990ء سے منایا جا رہا ہے ۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا، اس دن کا مشاہدہ کر رہا ہوں ۔ یہی کچھ دیکھ رہا ہوں ، جو اوپر بیان کیا ۔ 

پھر ایک سانحہ ِ خوں چکاں

پھر ایک سانحہ ِ خوں چکاں ہو گیا ۔ پھر ایک بار معصوم انسانیت کا قتل ِ عام کیا گیا ۔ نماز ِ جمعہ کا احترام بھی ملحوظ نہ رکھا گیا ۔ اب بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اُ ن کا تعلق مذہب سے ہے تو خام خیالی ہے ۔ابھی تک پشاور کا سانحہ ذہن سے محو نہیں ہوا ۔ ایک اور سانحے نے مغموم کر دیا ۔ اس دفعہ اُ ن کا نشانہ سندھ دھرتی کا ایک گم نام علاقہ بنا ۔ علاقے کا نام لکھی در ہے اور ضلع شکار پور ۔ امام صاحب نے ، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ،خطبہ ِ جمعہ ختم کیا ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکا ہوا  اور امام بارگا ہ کی چھت زمین بوس ہو گئی ۔

شاہ عبد اللہ بھی رخصت ہوئے

یہ خبر پوری مسلم دنیا میں   غم اور افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ خادم ِ حرمین الشریفین اور سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبد اللہ 90 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد جمعرات اور جمعۃ المبارک کی درمیانی شب خالق ِ حقیقی سے جا ملے ۔وہ ایک عرصے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔پھیپھڑوں کے انفیکشن کے باعث انھیں پچھلے کئی دنوں سےمصنوعی طریقے سے سانس دیا جا رہا تھا ۔ان کی نماز ِ جنازہ پرنس ترکی بن عبد اللہ جامع مسجد میں ادا کی گئی۔جس میں کئی مسلم ممالک کی اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی ۔پاکستان کے وزیر ِ اعظم اور ترک صدر رجب طیب  اردوان نے بھی نماز ِ جنازہ میں شرکت کی ۔سعودی عرب کی تمام مساجد میں بھی شاہ کی غائبانہ نماز ِ جنازہ ادا کی گئی ۔دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم رہنماؤں نے شاہ کی وفات پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ اسرائیلی سابق صدر شمعون پیریز بھی کہہ اٹھے کہ شاہ عبد اللہ کی موت مشرق ِ وسطی ٰ کے امن کے لیے حقیقی نقصان ہے ، جس کی تلافی نا ممکن ہے ۔

چارلی ہیبڈو کی نئی جسارت

فرانسیسی مزاحیہ جریدے کا عملہ اتنا بڑا نقصان اٹھانے کے باوجود باز نہ آیا ۔ ایک بار پھر اس نے گستاخانہ خاکے شائع کر دیے ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ گستاخانہ خاکوں پر مبنی یہ جریدہ 7 لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا ہے ۔  اس کے ساتھ ساتھ اس جریدے کے عملے نے 50 لاکھ کاپیاں شائع کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ عام جریدہ اگرچہ صرف فرانسیسی زبان میں ہوتا تھا ، لیکن گستاخانہ خاکوں پر مشتمل یہ جریدہ انگریزی اور عربی سمیت 16 زبانوں میں شائع کیا جائے گا ، جو دنیا بھر کے 25 ممالک میں فروخت ہوگا ۔

اگر کوئی محمد ﷺ سے جلتا ہے ۔۔۔۔۔۔

بدھ کو پیرس سے شائع ہونے والے مزاحیہ سیاسی جریدے "چالی ہیبدو" کے دفتر پر حملہ  ہوا ۔ جس میں 10 صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 12 یا 14 افراد ہلاک ہوئے ۔ جب کہ 10 افراد زخمی ہوگئے ۔ ہلاک شدگان میں چیف ایڈیٹر اسٹیفن کاربونئیر سمیت تین کارٹونسٹ بھی شامل ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق تین مسلح افراد صبح گیارہ یا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب  میگزین کے دفتر میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔ سکیورٹی گارڈز کی جوابی فائرنگ پر وہ ایک کار چھین کر بھاگنے لگے تو ایک راہگیر  کچلا گیا ۔ حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان  فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔ تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس طرح وہ سکیورٹی گارڈز  کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی چکمہ دینے میں کام یاب ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آور راکٹ لانچر اور کلاشنکوف سے لیس تھے ۔ ان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا : ہم نے پیغمبر ِ اسلام کی شان میں گستاخی کا بدلہ لے لیا ۔ یہ اللہ اکبر کے نعرے بھی لگا رہے تھے ۔ جائے وقوعہ  پر موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے نہایت اطمینا ن سے کا راوئی کی ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عام لوگ نہیں

ذکر حبیب ﷺ ، بہ زبان ِ قرآن ِ حکیم

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا ذکر ِ خیر ہر ایک نے اپنے طریقے سے کیا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دو رسے لے کر آج تک رسو ل اللہ ﷺ کا ذکر ِ خیر اپنے اپنے طریقوں سے ہو رہا ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مختلف طریقوں سے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا ہے ۔ کہیں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا تو کہیں آپ ﷺ کی صفت ِ رحمت کا تذکرہ کیا ہے ۔ ذیل میں ، میں چند آیات کا ترجمہ پیش کرتا ہوں ، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کا ذکر کیا ہے : 1۔ آج کا دور بڑا نازک دورہے ۔ اس نازک دور میں اسوہ ِ محمدی ﷺ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ۔ رحمت ِ عالم ﷺ کی سیرت سے ہر ایک روشنی لے سکتا ہے ۔ کیا مسلم ، کیا غیر مسلم ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید میں ارشاد فرمایا: "یقینا تمھارے لیے رسول اللہ (ﷺ) میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ کی یاد کرتا ہے ۔ (سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر 21) اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ ِ حسنہ یعنی سنتوں پر عمل کرنے کا حکم اللہ تعالی ٰ نے بھی دیا ہے ۔ جس سے سنت کی اہمیت کا اندازہ بہ خوبی لگا