اشاعتیں

ادبی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

عبد العزیز آسکانی کی کتاب "یادوں کی دنیا " پر تبصرہ

تصویر
تحریر: نعیم الرّحمان شائق انٹرنیٹ،ملٹی میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے اور لکھنے کی روایت رفتہ رفتہ دم توڑ رہی ہے۔ یقیناً یہ ایک قابل ِ تشویش بات ہے۔ کتابوں سے علم پروان چڑھتا ہے۔ کتابیں انسانوں کو شعور دیتی ہیں۔ کتابیں انسانوں کو مہذب بناتی ہیں۔اس لیے کتابوں سے رشتہ قطع کردینا   اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم   نہ علم دوست ہیں، نہ شعور و آگہی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں۔ مغرب ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے، لیکن وہاں اب بھی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور خوب پڑھی جاتی ہیں۔  

سیف الرّحمان ادیبؔ اور ان کی "تصویر"

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائقؔ ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا رجحان بہ تدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور ملٹی میڈیا نے ہمیں کتابوں سے بہت دور کر دیا ہے۔ مغرب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہے، لیکن وہاں اب بھی کتابیں چھپتی ہیں اور خوب بکتی ہیں۔ کئی کتابیں بیسٹ سیلنگ   کے ذمرے میں چلی جاتی ہیں۔ہمارے ہاں یہ روایت نہیں ہے، جو کہ تشویش ناک بات ہے۔ ہم پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔جہاں کتابیں پڑھنے کی روایت دم توڑ دے، وہاں علم و شعور کیوں کر پروان چڑھے گا؟ کتابوں سے دوری واقعی ہمارے لیے تشویش ناک بات ہے۔ اہل ِ علم و ادب  کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔

غیبت معمولی گناہ نہیں ہے

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق غیبت کو بہت معمولی گناہ سمجھا جاتا ہے، بلکہ بہت سے لوگ تو اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔عوام و خواص سب اس گناہ ِ عظیم میں مبتلا ہیں۔افسر ماتحت کی غیبت میں لگا ہوا ہے اور ماتحت افسر کی غیبت میں مصروف ہے۔ یاد رکھیے کہ غیبت ایک کبیرہ گناہ ہے۔ اس لیے اسے معمولی برائی نہیں سمجھنا چاہیےاور اس سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہماری محافل اس کبیرہ گناہ سے آلودہ نظر آتی ہیں، بلکہ غیبت کے بغیر محفل بے لطف اور نامکمل   محسوس ہوتی ہے۔خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اپنی مسدّس میں کیا خوب منظر کشی کی ہے:

اے خاصہ خاصان ِ رسل وقت ِ دعا ہے(مکمل نظم)

تصویر
  نعیم الرّحمان شائق خواجہ الطاف حسین حالیؔ اردو کے عظیم شاعر،نثر نگار، ادیب   اور نقاد تھے۔ 1837ء میں ہندوستان   کے شہر پانی پت میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے شاعری میں مرزاغالبؔ سے اصلاح لی۔غالبؔ نے انھیں ایک موقع پر کہا: "اگر چہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیتا لیکن تمھاری نسبت میرا خیال ہے کہ تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔"(ریختہ )

قرآنی نصیحتیں

تصویر
  تحریر و ترتیب: نعیم الرّحمان شائق قسط نمبر 11 (آخری قسط) 681.                     ] جنتی لوگ دوزخیوں سے پوچھیں گے: [ تمھیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا؟(المدّثّر، آیت42) 682.                      وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔(المدّثّر، آیت43) 683.                     نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔(المدّثّر، آیت44) 684.                      ہم بحث کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحث مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے۔(المدّثّر، آیت45) 685.                     اور روز ِ جزا کو جھٹلاتے تھے۔(المدّثّر، آیت46) 686.                     تم جلدی ملنے والی (دنیا ) کی محبت رکھتے ہو۔(القیٰمۃ، آیت20) 687.                     کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بے کار چھوڑ دیا جائے گا۔(القیٰمۃ، آیت36)

منٹو کا نادر ونایاب خط، لیاری کے ذوقی بلوچ کے نام

تصویر
  تحریر و تحقیق: نعیم الرّحمان شائق ا یک مرتبہ ایک اخبار کے دفتر میں جانا ہوا۔ مدیر صاحب نے مجھے اخبار دکھایا۔میری ایک   بُری عادت یہ ہے کہ میں ہر شے کوتنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ مصلحت   آڑے نہ آئے تو بلا جھجھک کہہ دیتا ہوں کہ صاحب آپ نے یہاں غلطی فرمائی ہے۔ تصحیح کر لیجیے۔ بعض اوقات شرمندگی اٹھانی پڑ جاتی ہے، مگر عادت سے مجبور ہوں۔ کیا کروں؟مدیر صاحب نے جب مجھے اخبار دکھا یا تو اس میں سعادت حسن منٹو کے افسانے کا ایک اقتباس بھی شامل تھا، مگر غلطی یہ تھی کہ "سعادت حسن منٹو" کی بہ جائے "سعادت حسین منٹو" لکھا ہوا تھا۔ یعنی "حسن" کو "حسین" لکھ دیا گیا۔ میں نے فوراً مدیر صاحب کی توجہ اس غلطی کی جانب مبذول کرائی۔ انھوں نے کمپوزر کو بتایا کہ اس نے یہ غلطی کی۔ کمپوزر نے ہنستے ہوئے جواب دیا،"سر کیا ہو ا جو میں نے "حسن " کی جگہ" حسین " لکھ دیا۔ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں بھائی ہی تو تھے۔ "اس پر سب ہنس پڑے۔ میں سعادت حسن منٹو کے خطوط سے متعلق تحریر   کا پلاٹ بنا رہا تھا تو یہ واقعہ   یاد آگیا۔ سوچا، یہ شگوفہ یہاں سجا

کیا جون ایلیا اور ناصر کاظمی کے اشعار بے وزن ہیں؟

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق   پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر دو وڈیو کلپس وائرل ہوئے۔ جن میں دکھایا گیا کہ معروف ٹی وی میزبان   ساحر لودھی نے اپنے پروگرام میں جون ایلیا   اور ناصر کاظمی کے دو مشہور شعروں کے بے وزن قرار دے دیا۔ پروگرام میں میزبان کے بٹھائے گئےمنصفین( ججز) بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور ان کی بھر پور تائید کرتے رہے۔ نوجوان، جس نے جون ؔ ایلیا کے شعر پڑھا تھا، آخر تک کہتا رہا کہ یہ شعر جون ؔ کا ہی ہے، اس نے خود پڑھا ہے اور شعر کے دونوں مصرعے ہم وزن ہیں، مگر میزبان اور ان کے ہم نواؤں نے نوجوا ن کی ایک نہ سنی ۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اس شعر کا کوئی مطلب ہی نہیں   ہے اور جونؔ ایسا شعر نہیں کہہ سکتے۔ شعر یہ تھا: ؎ گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا

بانو قدسیہ کے اقوال

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق میرے پیارے دوست شائف راشد حسین لکھتے ہیں: "بابا اشفاق احمد اور آپا بانو قدسیہ جب ایک دوسرے کی زوجیت میں بندھ گئے تب سے لیکر بابا کے انتقال یعنی جب تک دونوں حیات رہے ایک دوسرے کے سچے رفیق اور ساتھی رہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ ایک قدامت پسند بلکہ قدامت پرست بابا نے اپنی زوجہ کو پوری آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جس سے چاہے ملے، جیسا چاہے پہنے اور جو سمجھ آئے لکھے۔ ہمیشہ بانو قدسیہ صاحبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایک پڑھی لکھی، زمانے کے ساتھ قدم بقدم چلنے کاعزم رکھنے والی بانو قدسیہ بھی اشفاق احمد کی اسیر رہیں مگر وہ جانتی تھیں    کہ اس دیو قامت شخصیت والے بابا کو کیسے اپنا داس بنائے رکھنا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ ایک دفعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک ادبی محفل کے اختتام پر جب لوگ اٹھ کر جانے لگے، میں اور بانو آپا باتیں کرتے آگے آگے چلتے ہوئے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ دہلیز پر پہنچ کر آپا رک گئی اور مڑ کر اشفاق صاحب کو دیکھنے لگی۔ میں نے بانو آپا سے کہا "آپا چلیں۔ " وہ بولیں کہ "خان صاحب مصروف ہیں۔ وہ پہلے نکلیں گے، پھر میں۔ "

خود کشی کرنے والے اردو شعرا

تصویر
نعیم الرحمان شائق جب انسان زندگی سے بہت زیادہ مایوس ہوجاتا ہے تو وہ حیات پر موت کو ترجیح دے دیتا ہے۔ ظاہر ہے، جب زندگی کے رنگ پھیکے پڑجائیں تو جینے کا کیا فائدہ۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو زندگی سے نفرت ہو جاتی ہے تو وہ   بھی موت کو گلےلگا لیتے ہیں۔  

غالب کے سدا بہار اشعار

تصویر
  نعیم الرحمان شائق ) دیوان ِ غالب کی پی ڈی ایف فائل یعنی برقی کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ (   اردو ادب میں غالب جیسی شہرت کسی کو نہیں ملی۔ غالب ہمیشہ غالب رہا۔ شاعری تو دیگر شاعروں نے بھی کی، لیکن غالب جیسی شاعری کسی نے نہیں کی۔ اس کا مقام سب سے بلند ہے۔ اس تک باقی شاعروں کی رسائی محال ہے۔ میری   فکر ِ دور رس بتاتی ہے کہ غالب ہر دور میں غالب رہےگااور اس جیسا شاعر کبھی نہیں آئے گا۔