عبد العزیز آسکانی کی کتاب "یادوں کی دنیا " پر تبصرہ

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

انٹرنیٹ،ملٹی میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے اور لکھنے کی روایت رفتہ رفتہ دم توڑ رہی ہے۔ یقیناً یہ ایک قابل ِ تشویش بات ہے۔ کتابوں سے علم پروان چڑھتا ہے۔ کتابیں انسانوں کو شعور دیتی ہیں۔ کتابیں انسانوں کو مہذب بناتی ہیں۔اس لیے کتابوں سے رشتہ قطع کردینا  اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم  نہ علم دوست ہیں، نہ شعور و آگہی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں۔ مغرب ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے، لیکن وہاں اب بھی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور خوب پڑھی جاتی ہیں۔

 


وہ لوگ واقعی عظیم ہیں، جو اس دور میں بھی کتابیں پڑھتے ہیں اور لکھتے ہیں۔خاص طور پر کتابیں لکھنے والے لوگ  زیادہ قابل ِ ستائش ہیں۔ پچھلے دنوں عبدالعزیز آسکانی صاحب کی کتاب "یادوں کی دنیا" منظر ِ عام پر آئی ۔ یہ دراصل ان کی خود نوشتہ داستان  ِ حیات ہے۔اس کتاب میں انھوں نے اپنی زندگی کے چھیاسٹھ سال بڑی مہارت سے سموئے ہیں۔ "یادوں کی دنیا "کی اشاعت  پر میں عبد العزیز آسکانی صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

 

کچھ عبد العزیز آسکانی کے بارے میں

عبد العزیز آسکانی میرے احباب میں سے ہیں۔ ان کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے ہے۔ وہ 1955ء میں پیدا ہوئے۔انھوں نے ایس ایم لیاری سیکنڈری اسکول سے میٹرک کی۔ چند نا گزیر وجوہات کی بنا پر انھیں اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ وہ لکھتے ہیں:

"گھر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ میں آگے تعلیم جاری رکھتا۔ اس لیے میں نے بھی فشریز کی ایک فرم  انٹرنیشل کمپنی میں کولڈ اسٹوریج مشین کی اپرنٹس شپ کی نوکری اختیار کی۔" (یادوں کی دنیا، صفحہ نمبر 15)

بعد میں دبئی میں نوکری کے دوران انھوں نے انٹر کیا۔ بیس سال تک ابو ظئبی میں کام کرتے رہے۔ وہاں وہ بینکنگ کے شعبے سے منسلک تھے۔ ۔ پھر دوبارہ کراچی آگئے اوریہاں غریب شاہ لیاری  میں اپنا کاروبار شروع کیا۔2008ء میں ان کا جواں سال بیٹا عبد الحفیظ فائرنگ کی زد میں آکرانتقال کر گیا۔ یہ عبدالعزیز آسکانی صاحب کے لیے "زندگی کا بہت بڑا دھچکا" تھا، مگر انھوں نے اس دھچکے کو نہایت صبر سے برداشت کیا۔

 

میں نے عبد العزیز آسکانی کو کیسا پایا

آسکانی صاحب ایک مثبت سوچ کے حامل شریف الطبع انسان ہیں۔ وہ ہر ایک سے گھل مل جاتے ہیں اور ہر ایک کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ان میں بلا کی عاجزی ہے۔ سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر صبح صبح  فیس بک پر تلاوت ِ کلام پاک کی  یا اسلامی پوسٹ ضرور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ معلوماتی پوسٹیں کر کےاحباب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتے رہتے ہیں۔میں بہ ذا ت ِ خود ان کے عجز اور مثبت سوچ سے کافی حد تک متاثر ہوں۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ برا بھی کرے تو وہ اس کے ساتھ اچھائی کرتے ہیں۔ گویا برائی کے نیکی سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا صبر بھی قابل ِ داد ہے۔ اپنی بے عزتی پر سیخ پا نہیں ہوتے۔

 

ان کی کتاب "یادوں کی دنیا"

"یادوں کی دنیا" لکھنے سے پہلے انھوں نے اپنی زندگی کا احوال فیس بک کے ذریعے اپنے احباب تک پہنچایا۔ پھر انھی کے اصرار پر اسے کتابی شکل دی۔ وہ لکھتے ہیں:

"اس آپ بیتی کو کتابی شکل دینے سے پہلے میں نے اپنی ان یادداشتوں کو قسط وار فیس بک پر اپنی آئی ڈی پر تحریر کر کے پوسٹ کیں۔ جسے لوگوں نے بے حد پسند کیا اور ان کا اصرار تھا کہ میں اپنی "یادوں کی دنیا" کو کتابی شکل دوں تاکہ نئی نسل کے لیے یہ کتاب ایک چیلنج ثابت ہو، وہ اس کتاب  کو پڑھ کر صبر و برداشت اور اپنے رب پر یقین محکم رکھ کر اپنی منزل کا تعین کریں۔" (یادوں کی دنیا،صفحہ نمبر 12)

 

جب آسکانی صاحب  کی "یادوں کی دنیا" زیر ِ اشاعت تھی تو انھوں نے مجھے کہا کہ میں اس کتاب کو کمپوز کروں۔ میں نے ہامی بھر لی، تاہم مصروفیات کی وجہ سے وعدہ وفا نہ کر سکا۔ اس پر میں ان سےمعذرت خواہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا انسان اتنا مصروف ہو چکاہے کہ اس کے پاس اپنے بھائی بندوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ کاش ! ہم اس وقت جنم لیتے جب فرصتیں ہی فرصتیں تھیں اور لوگوں کے پاس دوسروں سے باتیں کرنے کے لیے بہت وقت تھا۔

 

امید کا پیغام

مجھے آسکانی صاحب کی کتاب "یادوں کی دنیا" سراپا امید نظر آئے۔ کتاب میں جا بہ جا وہ امید کے دیے جلاتے نظر آتے ہیں۔ وہ ناامید ی کے سخت مخالف ہیں۔ وہ نوجوان نسل کو پُر امیددیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا کرکام یابی کا راستہ نہ چھوڑے۔ کیوں کہ یہ تکلفیں منزل مقصود تک پہنچانے کے لیےہی آتی ہیں۔

؎ تندی ِ باد ِ  مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

وہ نو جوان نسل کو امید دلانے کے لیے لکھتے ہیں:

"صبر، استقامت، حوصلہ، ہمت، جوانمردی اور یقین محکم پر قائم رہ کر پھر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر انسان کی ہر خواہش پوری ہوجائےتو یہ دنیا جنت نہ بن جائے۔(یادوں کی دنیا، صفحہ نمبر144)

"انسان کو چاہیے کہ مشکل حالات میں بھی صبر و استقامت کا وہ دامن تھامے رکھے، قدموں میں لغزش نہ آنے پائے، ذہنی طور پر متزلزل نہ ہوجائیں، ایمان و یقین میں مزید پختگی ہو۔"(یادوں کی دنیا ، صفحہ نمبر 144)

"ماضی میں کیا ہوا، اس کے بارے میں سوچنا بند کر دیں  یا مستقبل میں کیا ہونے والا ہےاس کے بارے میں فکر مند مت ہوں۔ آپ حال پر توجہ دیں جس میں اس وقت آپ موجود ہیں اور اس کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔" (یادوں کی دنیا، صفحہ 221)

 

شعر و شاعری سے شغف

"یادوں کی دنیا " پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ عبد العزیز آسکانی صاحب شعر و شاعری سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ تحریر میں جان ڈالنے کے لیے وہ موزوں شعر قلم بند کر کے قارئین کو محظوظ کرتے ہیں۔

ان کے لکھے ہوئے چند اشعار یہ ہیں:

؎کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے

آنکھ کو ایسا جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو

پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ، آخری سیڑھی پرآنکھ

منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو

(یادوں کی دنیا، صفحہ 143)

ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا

وہ کون سا عقدہ ہے جو وا  ہو نہیں سکتا

(یادوں کی دنیا، صفحہ نمبر 145)

ایک جگہ خواجہ میر دردؔ کا یہ شعر لکھتے ہیں

؎زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

 

صاحب ِ مطالعہ:

"یادوں کی دنیا" پڑھ کر بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عبد العزیز آسکانی صاحب   کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ جگہ جگہ اپنے قارئین کو معلومات فراہم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کئی کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ وہ علم دوست اور کتاب دوست شخصیت ہیں۔ آسکانی صاحب کی کتاب پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے ان کے پاس دنیا جہان کی معلومات ہیں۔ یہ کتابیں ہی ہیں ، جو ہمیں دنیا جہان کی معلومات فراہم کرتی ہیں۔  اس لیے کتابیں ضرور پڑھنی چاہییں۔

ذیل میں ، میں "یادوں کی دنیا" کے دو اقتباسات تحریر کرتا ہوں، جن سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے آسکانی صاحب کس قدر معلومات کے حامل ہیں۔

"فلسفہ علم و آگہی کا علم ہےیہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغرا ض مقاصددریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نا م ہے۔جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود اپنی فطرت میں کیا ہے۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتاہے۔" (یادوں کی دنیا، صفحہ نمبر 138)

"مارکس نے 1842ء میں یونیورسٹی کی  تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ کالون میں موسز ہس کے اخبار رینش زیٹنگ میں لکھنا شروع کیا، یہ اخبار جدید سوشلسٹ نظریا ت کی وجہ سے فرانس میں مقبول تھا، اس اخبار میں 10 ماہ لکھنے کے بعد ہیس نے مارکس کو چیف ایڈیٹر کے عہدہ کی پیشکش کردی، اسی سال اکتوبر میں مارکس نے اخبار کی ادارت سنبھال لی۔" (یادوں کی دنیا، صفحہ نمبر 114)

 

نصیحت آموز باتیں

"یادوں کی دنیا" میں عبد العزیز آسکانی صاحب نصیحت آموز باتیں کرتے ہیں۔ چوں کہ انھوں نے یہ کتاب نو جوان نسل کے لیے لکھی، سو انھیں اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں سبق آموز نصیحتیں کرتے ہیں۔ وہ نوجوان نسل کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"زندگی میں کسی پر احسان کرنے کے بعد اسے اپنی فرمانبرداری کی نکیل نہ ڈالیں، اس سے اپنی مخالفت کا حق مت چھینیں ورنہ تم نیکی کی قیمت وصول کرنے والوں اور نیکی کے ذریعے انسانوں کو خریدنے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔" (یادوں کی دنیا، صفحہ 132)

"اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ سچائی اختیار کرے، جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسمیں کھا کر جو لوگ اپنی تجارت کو فروغ دیتے ہیں، وقتی طور پر اگر چہ منافع بخش معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت ایسی کمائی اور ایسی تجارت سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ " (یادوں کی دنیا، صفحہ نمبر 158)

"انسان کی سوچ ہمیشہ لچکدار ہونی چاہیے، اگر آپ اپنی سوچ کو محدود کر لیں گے اور بس یہی سوچیں گےکہ آپ اس کا م کو بہترنہیں کر سکتے یا آپ کی خود اعتمادی سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا تو اس طرح کی منفی سوچ کے ساتھ آپ کبھی بھی اپنے اندر خود اعتمادی پیدا نہیں کر سکیں گے۔"(یادوں کی دنیا، صفحہ نمبر 118)

"دل کی آواز کو بھی کبھی کبھار سن لیا کر یں اور دنیا کی ہر شے سے دستبردار ہو جائیں سکون پالیں گے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہر انسان میں یہ چیز اس سطح پر موجود نہیں ہےلیکن جب جب ہم کسی چیز سے دستبردار ہوتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے خزانہ سے نوازتا ہے اور ذہنی سکون مل جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم ہر چیز کو اپنا  سمجھ کر اس پر حق ملکیت جتانے لگتے ہیں بس یہیں سے بے سکونی کی ابتدا ہوتی ہے۔ہم تو خود بھی اپنے نہیں پھر کوئی چیز ہماری ملکیت کیسے ہو سکتی ہے۔" (یادوں کی دنیا، صفحہ نمبر 139)

 

ایک گزارش:

مجموعی طور پر"یادوں کی دنیا" کتابوں کی دنیا میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ اس سے نوجوان نسل ضرور مستفید ہو گی۔ مگر ایک کمی رہ گئی۔ جس کا ازالہ ضروری ہے۔ وہ کمی یہ ہے کہ کتاب میں کہیں کہیں زبان و بیان کی غلطیاں ہیں۔ ہو سکتا ہے، کمپوزر سے یہ غلطیاں سرزد ہوئی ہوں۔ عبد العزیز آسکانی صاحب سے گزارش ہے کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں ان غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں، تاکہ کسی کوبھی تنقید کا موقع نہ ملے۔

 

حرف ِ آخر

عبد العزیز آسکانی صاحب کی "یادوں کی دنیا" صرف ان کی خود نوشتہ داستان ِ حیات ہی نہیں، بلکہ بہت کچھ ہے۔ اس میں زندگی میں کام آنے والی باتیں بھی ہیں اور نوجوان نسل کے لیے امید کا پیغام بھی ہے۔یہ کتابوں کی دنیا میں ایک اچھا اضافہ ہے اورمیں امید کرتا ہوں کہ نوجوان نسل اور خاص طور پر لیاری کے نوجوانوں پر دیرپا اثرات مرتب کرے گی۔ میں اپنے قارئین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ "یادوں کی دنیا" کو ضرور پڑھیں۔

نوٹ: کتاب خریدنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں:

+92   323 2437736  



"یادوں کی دنیا " کا ای بک (پی ڈی ایف) ورژن  ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Free Download “Yadon Ki Dunya” Written by Abdul Aziz Askani

 

      میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

------------------------------------------------------

کچھ میرے بارے میں

سید نعیم الرّحمان شاہ نام اور نعیم الرّحمان شائق ؔ قلمی نام ہے۔ پیشے کے لحاظ سے معلّم ہوں۔ فراغت کے لمحات لکھنے لکھانے میں بسر کرتا ہوں۔ تعلیم بی۔اے۔ ہے۔ حافظ ِ قرآن بھی ہوں۔ زیادہ تر اسلامی ، ادبی اور تعلیمی موضوعات پر لکھتا ہوں۔میرا واٹس ایپ اور موبائل نمبر یہ ہے: 

+92 321 2280942

---------------------------------------------

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے