سورۃ الحجرات کے Dos اور Don’ts

 تحریر: نعیم الرّحمان شائق

قسط نمبر 8

9۔ بد گمانی سے بچو

سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 12 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو ۔ یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں۔"(49:12)

پچھلی آیت ِ مبارکہ سے ربط

پچھلی آیت مبارکہ میں جن تین کاموں سے منع کیا گیا تھا، وہ ہم اپنے بھائی کے سامنے اس کی موجودگی میں سر انجام دیتے ہیں۔وہ تین کام تھے: مذاق اڑانا، عیب جوئی کرنا اور نام بگاڑنا۔  اس آیت ِ مبارکہ میں بھی تین کاموں سے منع کیا گیا، مگر پچھلی آیت ِ مبارکہ کے برعکس اس میں جن تین کاموں سے منع کیا گیا ہے، وہ ہم اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں سرانجام دیتے ہیں یا اسے بسا اوقات معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ان میں سے پہلا کام بد گمانی ہے۔ یعنی پچھلی آیت ِ مبارکہ میں حکم دیا گیا کہ  کسی مسلمان کے شایان ِ شاں نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کے سامنے اس کی موجودگی میں اس کی عزت پر حملہ آور ہو۔اس آیت مبارکہ میں ہدایت دی گئی کہ یہ بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ چھپ کر کسی مسلمان کی عزت پر حملہ آور ہو۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی عزت کا محافظ ہونا چاہیے۔



لفظ 'ظن' کا مفہوم:

یہاں "ظن" کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ظن  دراصل گمان کو کہتے ہیں۔ کسی کے بارے میں اچھا یا براسوچنا گمان کہلاتا ہے۔ اردو لغت ڈاٹ انفو کے مطابق  ظن کا مطلب ہے ، "یقین اور شک کے درمیان کی حالت۔"

گمان کی دو قسمیں ہیں۔ اچھا سوچنا اچھا گمان کہلاتا ہے۔ اور برا سوچنے کو بدگمانی کہتے ہیں۔ اچھا سوچنے کو حسن ِ ظن کہتے ہیں اور برا سوچنے کو سوئے ظن  کہتے ہیں۔

 

اسلام میں بد گمانی گناہ ہے

آیت ِ بالا کی روشنی میں دیکھا جائے تو دین ِ اسلام میں بدگمانی کبیرہ گناہ ہے۔ہمیں یہ حق نہیں کہ ہر کسی کے بارے میں محض ظاہر کو دیکھتے ہوئےاور بغیرکسی دلیل کےکسی کے بارے میں برا سوچنا شروع کر دیں۔ اس سے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ نفرت رشتہ ِ اخوت کو کم زور کر دیتی ہے اور لہجوں میں تلخیاں گھول دیتی ہیں۔ تلخیاں رشتوں کو توڑ دیتی ہیں۔ جو شخص رشتوں کو قطع کردیتا ہے وہ بالآخر تنہا رہ جا تا ہے۔ اس لیے اس گناہ ِ عظیم سے احتراز از حد ضروری ہے۔جن چیزوں کا علم نہ ہو، ان کے پیچھے پڑنے سے اسلام منع کرتا ہے۔کیوں کہ انھی امور سے بدگمانی پھوٹتی ہے۔سورہِ بنی اسرائیل میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اور جس بات کا تمھیں یقین نہ ہو، (اسے سچ سمجھ کر ) اس کے پیچھے مت پڑو۔ یقین رکھو کہ کان ، آنکھ اور دل سب کے بارے میں( تم سے) سوال ہوگا۔(17:36)

گویا دل میں آنے والے خیال کی بابت بھی رب تعالیٰ پرسش فرمائیں گے کہ جب تمھیں حقیقت کا علم ہی نہ تھا تو کیا ضرورت تھی اپنے بھائی کے بارے میں برا سوچنے کی!کیا  ضروری تھا کہ بد گمانی کی جا تی!

 

دین ِ اسلام حسن ِ ظن کا قائل ہے

دین ِ اسلام ایک طرف بد ظنی کا قلع قمع کرتا ہے تو دوسری طرف حسن ِ ظن کی حوصلہ فزائی کرتا ہے۔حقیقی مومن اپنے بھائی سے حسن ِ ظن رکھتا ہے۔ حسن ِ ظن رشتہ ِ اخوت کو مضبوط کرتا ہے۔ اس سے محبت پروان چڑھتی ہے۔

جب اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر منافقین ِ مدینہ نے جھوٹی تمہت لگائی تو بعض مسلمان بھی ان کی باتوں میں آگئے۔ اس کو واقعہ ِ افک کہا جاتا ہے۔ رب ّ العالمین نے سورہ ِ نور کی 10 آیات  اماں کی عفت کے دفاع کے سلسلے میں نازل فرمائیں۔مسلمانوں کو تا قیامت یہ حکم دے دیا کہ محض افواہوں کا سہارا لے کر کسی کےبارے میں بدگمان ہو جانا مسلمان کا شیوہ ہی نہیں ہے۔ کامل مسلمان تو وہ ہے جو اپنے بھائی اور بہن کی عزت کا محافظ ہو۔ جو ایسی باتوں پر کان ہی نہ دھرے ، جس سے بدگمانی پروان چڑھے۔ سورہ ِ نور کی آیت نمبر 16 میں رب ِ کریم واقعہ ِ افک کے طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: "ایسا کیوں  نہ ہوا کہ اس کو(یعنی واقعہ افک) سنتے ہی تم نے کہہ دیا ہوتا کہ ہمیں کیا حق ہےکہ ہم ایسی بات زبان پر لائیں ! معاذ اللہ یہ تو ایک بہت بڑا بہتان ہے۔"(24:16)

اس سورۃ ِ مبارکہ کی آیت نمبر 12 میں حکم دیا گیا کہ مسلمان مرد و عورت ایک دوسرے کی بابت حسن ِ ظن رکھیں۔ چناں چہ ارشاد ہوا: "ایسا کیوں نہ ہوا جب تم نے یہ بات سنی تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کی بابت نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو ایک کھلا ہوا بہتان ہے۔"(24:12)

اب اس ضمن میں ایک حدیث ِ مبارکہ پڑھیے اور پھر زیر ِ غور لائیے:

جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانو ں کا ایک لشکر مشرکین کی ایک قوم کی طرف بھیجااور ان کا آمنا سامنا ہوا۔ مشرکوں کا ایک آدمی تھا، وہ جب مسلمانوں کے کسی آدمی پر حملہ کرنا چاہتا تو اس پر حملہ کرتا اور اسے قتل کر دیتا۔ اور مسلمانوں کا ایک آدمی تھاجو اس (مشرک) کی بے دھیانی کا متلاشی تھا، (جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہ نے ) کہا : "ہم ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما ہیں ۔ جب ان کی تلوار مارنے کی باری آئی تو اس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا۔ لیکن انھوں نے اسے قتل کر دیا۔ فتح کی خوش خبری دینے والا نبی ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ نےاس سے (حالات کے متعلق) پوچھا، اس نے آپ کو حالات بتائے۔ حتّیٰ کہ اس آدمی ( حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ) کی خبر بھی دے دی کہ انھوں نے کیا کیا۔ آپ ﷺ نے انھیں بلا کر پوچھا اور فرمایا: "تم نے اسے کیوں قتل کیا؟" انھوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! اس نے مسلمانوں کو بہت ایذا پہنچائی تھی اور فلاں فلاں کو قتل کیا تھا، انھوں نے کچھ لوگوں کے نام گنوائے، (پھر کہا:) "میں نے اس پر حملہ کیا ، اس نے جب تلوار دیکھی تو لا الہٰ الا اللہ کہہ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کیا تم نے اسے قتل کر دیا؟" (اسامہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: "جی ہاں !" فرمایا: "قیامت کے دن جب لا الہٰ الا اللہ (تمھارے سامنے ) آئے گا تو اس کا کیا کرو گے؟" (صحیح مسلم ، حدیث نمبر 97)

اس سے پچھلی حدیث کے  کے مطابق رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ، تاکہ تمھیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے دل سے کہا ہے یا نہیں؟" (صحیح مسلم، حدیث نمبر 96)

درج بالا بحث سے معلوم ہوا کہ اسلام بدظنی کے راستے مسدود کرتا ہے اور حسن ِ ظن کی راہیں ہم وار کرتا ہے۔

 

اس بارے میں احادیثِ مبارکہ

سرور ِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: "بدگمانی سے بچتے رہو، کیوں کہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر5143)

رسول  ِ اکرم ﷺ نے بدگمانی  'اکذب الحدیث' یعنی سب سے جھوٹی بات قرار دیا ہے۔ سو بدگمانی کو معمولی گناہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس سے بچنا بے حد ضروری ہے۔

ہادی ِ عالم ﷺ کی ایک اور حدیث ِ مبارکہ کچھ اس  طرح ہے: "حسن ِ ظن حسن ِ عبادت میں سے ہے۔"

یعنی اپنے بھائی بہن  کے بارے میں اچھا گمان رکھنا عبادت  کی خوب صورتی ہے۔ گویا اچھا حسن ِ ظن بھی عبادت ہے۔

خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا: "حاکم جب لوگوں کے معاملات میں بدگمانی اور تہمت پر عمل کرے گاتو انھیں بگاڑ دے گا۔" (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4889)

ام المونین سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں جب رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ سے ملنے مسجد میں آئیں۔ تھوڑی دیر تک باتیں کیں۔پھر واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئیں۔ نبی کریم ﷺ بھی انھیں پہنچانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں  تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریمﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کسی سوچ کی ضرورت نہیں ، یہ تو (میری بیوی) صفیہ بنت حیی (رضی اللہ عنہا) ہیں۔" ان دو صحابیوں نے عرض کیا، "سبحان اللہ! یا رسول اللہ! ان پر آپ کا جملہ بڑا شاق گزرا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا  رہتا ہے۔مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمھارے دلوں میں وہ کوئی بد گمانی نہ ڈال دے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر 2035)

اس حدیث ِ مبارکہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اگر کسی شخص کو اس بات کا اندیشہ ہوکہ لوگ ظاہری حالات پر نظر کرتے ہوئے اس سے بد گمانی کر سکتے ہیں  تو اسے اپنا دفاع ضرور کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بد گمانی سے بچائے اور حسن ِ ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

نوٹ: 

"سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 1 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 3 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 4 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 5پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

"سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 6پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

"سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 7پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

جاری ہے۔۔۔۔

      میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے