سورۃ الحجرات کے Dos اور Don’ts

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

قسط نمبر 6

7۔ عیب جوئی نہ کرو/طعنے نہ دیا کرو

سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 11 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ۔"(49:11)

 

لفظ "لمز" کی تحقیق:

درج بالا جملے کی تشریح کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لفظ "لمز" کی صراحت کی جائے۔ کیوں کہ بعض مترجمین  و مفسرین نے اس کا ترجمہ "طعنہ دینا" کیا ہے اور بعض نے "عیب جوئی اور عیب چینی کرنا" کیا ہے۔

درج بالا ترجمہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کی  تفسیر ِ مظہری سے لیا گیا ہے۔

لیکن مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے : "آپس میں طعنہ نہ کرو۔"( کنز الایمان)

مولانا محمد جونا گڑھی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے: "آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ۔(احسن البیان)

مفتی  محمدتقی عثمانی صاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے: "تم ایک دوسرے کو طعنے نہ دیا کرو۔" (آسان ترجمہ  قرآن)

اصل میں یہاں "لمز" استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے، "زبان سے طعن کرنایعنی کسی پر عیب نہ لگائے۔"(تفسیر ِ مظہری، قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ)



"لمز عیب جوئی کو کہتے ہیں، لیکن لفظ کے تلفظ میں ایک ترنم  اور ایک رنگ ہے۔یہ معنوی عیب جوئی نہیں بلکہ جسمانی مار ہے اور آنکھوں سے بھی اشارہ ہے۔"(فی ظلال القرآن، سید قطب شہید)

"(اللمز) قول کے ذریعے سے عیب چینی کرنا (الھمز) فعل کے ذریعے سے عیب چینی کرنا۔ یہ دونوں امور ممنوع اور حرام ہیں جن پر جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔(تفسیر السعدی، شیخ عبد الرّحمٰن بن ناصر السعدی رحمۃ اللہ علیہ)

"اصل میں لفظ لمز استعما ل ہوا ہے جس کے اندر طعن و تشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مفہومات بھی شامل ہیں، مثلاً چوٹیں کرنا، پھبتیاں کسنا، الزام دھرنا، اعتراض جڑنا، عیب چینی کرنا ، اور کھلم کھلا یا زیر لب اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا۔ (تفہیم القرآن ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ)

درج بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ "لمز"کا مطلب طعنہ زنی کرنا بھی ہے اور عیب چینی کرنا بھی۔ سو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ لمز کا مطلب ہے : طعنہ زنی کرتے ہوئے عیب جوئی کرنا یا عیب چینی کرتے ہو ئےطعنہ زنی کرنا یا طعنہ زنی اور عیب جوئی کرنا۔ اب ان مطالب  کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے دیے گئے الہامی جملے کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

 

لا تلمزو انفسکم کی توضیح

پہلے ہدایت د ی گئی کہ مذاق میں  بھی کسی مسلمان کی عزت پر حملہ نہ کیاجائے۔اب سمجھایا گیا کہ غصے میں آکر عیب جوئی کرتے ہوئے طعنہ زنی کرنا بھی رشتہ ِ اخوت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لہذا اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔کبھی کبھار ہماری زبانوں کے حملے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ ان کی چوٹوں سے حاضرین کے دل زخموں سے چور چور ہوجاتے ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔درج بالا الہامی حکم کے تناظر میں دیکھا جائے تو دل توڑنا گناہِ کبیرہ ہے۔ یہ حق تلفی کے ذمرے میں آتا ہے۔ جب تک ہم حق تلفیاں کرتے رہیں گے، کامل مومن نہیں ہو سکتے۔عیب جوئی اور طعنہ زنی وہی شخص کرتا ہے، جس کو اس کے غصے نے مغلوب کر رکھا ہو۔پھر ہمیں غصہ بھی اس پر زیادہ آتا ہے، جسے ہم حقیر یا کم تر سمجھتے ہیں۔گویا مذاق اڑانے کی طرح طعنہ زنی اور عیب جوئی کے پیچھے بھی حقارت کا قبیح جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔عیب جوئی اور طعنہ زنی سے نفرت کا جوالاؤ روشن ہوتا ہے وہ اکثر و بیشتر ایک ہنستے کھیلتے معاشرے کے امن اور سکون کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے۔

سورۃ الھمزہ میں عیب جو شخص کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"بڑی خرابی ہے اس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے والا(اور) منھ پر طعنے دینے والا ہو۔

جس نے مال اکٹھا کیا ہو، اور اسے گنتا رہتا ہو۔

 وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

ہر گز نہیں!وہ شخص تو چکنا چور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔

اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کردینے والی جگہ؟

وہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی۔

جو دلوں تک پہنچے گی۔

وہ ان پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی۔

بڑے بڑے ستونوں میں۔"

 

طعنہ زنی کرنا منافقین کا شیوہ ہے

سورۃ التوبہ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "(یہ منافق وہی ہیں) جو خوشی سے صدقہ کرنے والے مومنوں کو بھی طعنے دیتے ہیں، اور ان لوگوں کو بھی جنھیں اپنی محنت (کی آمدنی) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے۔ اس لیے وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے۔اور ان کے لیے درد نا ک عذاب ہے۔ "(9:79)

سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ِ صدقہ نازل ہوئی تو ہم بوجھ ڈھونے کا کا م کیا کرتے تھے  (تاکہ اس طرح جو مزدوری ملےاسے صدقہ کر دیا جائے۔) اسی زمانے میں ایک شخص آیا اور اس نے صدقے کے طور پر کافی چیزیں پیش کیں۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ آدمی ریا کار ہے۔ پھر ایک شخص آیا اور اس نے ایک صاع کا صدقہ کیا۔ اس کے بارے میں لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک صاع صدقے کی کیا حاجت ہے۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی: الذین یلمزون المطوعین من المومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جھدھم  (صحیح بخاری، حدیث نمبر 1415)

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس آیت ِ مبارکہ کی تفسیر کے ضمن میں لکھتے ہیں: "آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو صدقات نکالنے کی ترغیب دی تو ہر مخلص مسلمان نے اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ لا کر پیش  کیا، منافقین خود تو اس کار ِ خیر میں کیا حصہ لیتے، مسلمانوں کو طعنے دیتے رہتے تھے۔اگر کو ئی شخص زیادہ مال لے کر آتا تو کہتے کہ یہ تو دکھاوے کے لیے صدقہ کر رہا ہے اور اگر کوئی غریب مزدور اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی سے کچھ تھوڑا سا صدقہ لے کر آتا تو منافقین اس کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ یہ  کیا چیز اٹھا کر لایا ہے۔ اللہ اس سے بے نیاز ہے۔(آسان ترجمہِ قرآن)

درج بالا بحث سے معلوم ہوا کہ طعنہ زنی کرنا  مسلمانوں کا طریقہ نہیں ، بلکہ منافقین  کا شیوہ ہے۔ اس لیے اس سے احتراز ضرور ی ہے۔

 

ایک قابل ِ غور نکتہ

یہاں "لا تلمزو انفسکم" آیا ہے، جس کے ترجمہ ہے: "اپنے اوپر طعن نہ کرو۔"یا "اپنے اوپر عیب نہ لگاؤ"۔ یعنی رب تعالیٰ نے "ایک دوسرے پر طعن نہ کرو" کی جگہ "اپنے اوپر طعن نہ کرو۔"کا حکم دیا۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں:

1۔ سابقہ آیت میں کہا گیا کہ مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ رحمت ِ عالم ﷺ نے صدیوں پہلے مسلمانوں کے رشتہ ِ اخوت کو جسدِ واحد سے تعبیر فرما کر خون کے پیاسوں  کو بھائی بھائی بنا دیا۔ فرمایا: "مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت، ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہےتو باقی سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعےسے (سب اعضا کا ایک  دوسرے کے ساتھ ملاکر) اس کاسا تھ دیتا ہے۔"(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2586)

چوں کہ تمام مسلمان جسد ِ واحد ہیں، اس لیے ایک مسلمان دوسرے پر طعنہ زنی کرے یا عیب جو ئی کرے تو جان لیجیے کہ اس نے اپنے آپ پر طعنہ زنی کی ہے اور اپنی ہی عیب جوئی کی۔

2۔ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیب جوئی کرتا ہے، تو گویا اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ سامنے والا بھی اس کی عیب جوئی کرے۔ چوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے،  اس لیے یہ نا ممکن ہے کہ جو عیب جوئی کررہا ہو، وہ ہر قسم کے عیبوں اور برائیوں سے مبرا ہے۔ جب سامنے والا بھی عیب جوئی اور طعنہ زنی پر اتر آتا ہے تو وہ شخص ، جس نے اس فعلِ قبیح کی ابتدا کی تھی،  گویا اپنے آپ پر خود عیب جوئی کر رہا ہے۔

دلوں کو زخم نہ دو حرف ِ نا ملائم سے

یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے

میں شہر میں کسے الزام ِ نا شناسی دوں

یہ حرف خود مرے کردار پر بھی آتا ہے

(شاعر: امید فاضلی)

 

دوسروں کے بجائے اپنے عیبوں پر نظر کیجیے

سمجھ دار وہ ہے، جو دوسروں کے بجائے اپنے عیبوں  اور خامیوں کو تلاش کرتا ہے اور پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم سب انسان ہیں  اور خامیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ جو وقت ہم دوسروں کی عیب جوئی میں صرف کرتے ہیں، وہ اپنے عیبوں کو تلاش کرنے میں لگا دیں۔ یقین کیجیے، جب ہم اپنے عیبوں کو تلاش کرنا شروع کریں گےتو ہمیں اتنی فرصت ہی نہیں ملے گی کہ دوسروں کی خامیوں پر نظر کریں، کیوں کہ ہمیں اپنے اندر ہی اتنی خامیاں نظر آئیں گی کہ محسوس ہوگا کہ ہم تو اس شخص سے بھی زیادہ خطا کار ہیں۔ کسی حقیر نہیں جاننا چاہیے۔ ہمیں کیا معلوم کہ ر بّ العالمین کا ہاں کس کا کیا مقا ہے۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے کیا خوب کہا تھا:

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

 

اس بارے میں احادیث:

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بے حیا اور بدزبان نہیں ہوتا۔" (جامع ترمذی، حدیث نمبر 1977)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺمنبر پر تشریف لائے، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا: "اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی (وہ)جماعت جن کے دلوں  تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیےکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھوندتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگر چہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔(جامع ترمذی، حدیث نمبر 2032)

اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جن کے دلوں میں اسلام داخل نہیں ہوتا، دراصل وہی لوگ مسلمانوں کو تکلیف دیتے ہیں، ان کو عار دلاتےہیں اور ان کے عیوب تلاش کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اسلام جن کے دلوں میں راسخ ہوجاتے ہیں وہ اس طرح کے برے افعال کرکے اپنے مسلمان بھائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ (رمضان میں)سفر کیا کرتے تھے۔(سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بے روزہ ہوتے ) لیکن روزے دار ،بے روزہ دار پر اور بے روزہ دار، روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر 1947)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جوشخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر 2442)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ایک دوسرے سے ترک ِ تعلق مت کرو، ایک دوسرے سے رو گردانی نہ کرو، دوسروں کے عیب تلاش نہ کرو، تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے ایسے بندے بن جاؤ، جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2563)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو کوئی کسی کا عیب دیکھے ، پھر اس کی پردہ پوشی کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہے، جس نےکسی زندہ دفنائی گئی لڑکی کو نئی زندگی بخشی۔(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4891)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کردے، تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور فرمائے گا، اور جس نے کسی نادار و تنگ دست کے ساتھ آسانی و نرمی کا رویہ اپنایا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا و آخرت میں آسانی کا رویہ اپنائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا، تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے، جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4946)

معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ربذہ (مدینہ کا قریب ایک گاؤں)میں دیکھا۔ وہ ایک موٹی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور ان کے غلام کے (جسم پر ) بھی اس جیسی چادر تھی۔ لوگوں نے سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: ابو ذر! اگر تم وہ (چادر) لے لیتے، جو غلام کے جسم پر ہے اور اپنی چادر سے ملا لیتے تو پوراجوڑا بن جاتا اور غلام کو اس چادر کے بدلے کوئی اور کپڑا پہننے کو دے دیتے (تو زیادہ اچھا ہوتا)۔ اس پر سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: "میں نے ایک شخص  کو گالی دی تھی۔ اس کی ماں عجمی تھی۔ میں نے اس کی ماں کے غیر عربی ہونے کا اسے طعنہ دیا۔ اس نے میری شکایت رسول اللہ ﷺ سے کردی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "ابو ذر! تم میں ابھی جاہلیت  (کی بو باقی) ہے۔وہ (غلام، لونڈی) تمھارے بھائی بہن ہیں۔ اللہ نے تم کو ان پر فضیلت دی ہے۔ اللہ کی مخلوق کو تکلیف نہ دو۔"(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 5157)

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہتے ہیں  کہ میں نے سرور ِ کائنات ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا "اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑو گے تو تم ان میں بگاڑ پیدا کر دو گے۔(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4888)

 

اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

 

نوٹ:  "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 1 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 3 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 4 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 5پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

جاری ہے۔۔۔۔

      میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے