سورۃ الحجرات کے Dos اور Don’ts

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

قسط نمبر 7

8۔ بُرے نام نہ رکھو

الحجرات کی آیت نمبر 11 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، کسی کے ایمان (لانے )کے بعد اسے فاسق و بد کردار کہنا بہت ہی برا نام ہے۔(49:11)

مذاق اڑانے ، طعنے دینے اور عیب جوئی کی طرح یہ معاشرتی برائی بھی ہمارے اندر عام ہے۔ بلکہ اس کو تو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ جس کا جب جی چاہتا ہے، نام بگاڑدیتا ہے۔ اسلام انسانوں کی عزت کا ضامن ہے۔ سواسلام میں اس کی ممانعت ہے۔ مذاق اڑانے ، طعنے دینے اور عیب جوئی کی طرح یہ بھی وہ  برائی ہے، جو رشتہ ِ اخوت کو کم زور کرتی ہے۔اس لیے  اس سے احتراز از حد ضرور ی ہے۔کسی کو برے القاب سے وہی پکار سکتا ہے، جس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہوئی ہو۔ مہذب شخص کا یہ شیوہ نہیں کہ  وہ ہرکسی کا نام بگاڑتا پھرے۔نام بگاڑنا بد تہذیبی ہے۔


بسا اوقات نام بگاڑنے کے اثرت دور رس ثابت ہوتے ہیں۔ کسی کو دیا جانے والا برا نام عرصہ ِ دراز تک چلتا ہے اور کبھی کبھار تو نسل در  نسل منتقل ہوتا جاتا ہے۔ اس کا گناہ اس  شخص کو ہوتا ہے، جس نے اس برے نام کی بنیاد رکھی ہوتی ہے۔

 نام بگاڑنا عزت پر حملہ ہے اور اسلام میں کسی کی  عزت پر حملہ نا قابل ِ برداشت ہے۔ سرور ِ کائنات ﷺ نے فرمایا: "مسلمان وہ ہے ، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان بچے رہیں۔"(صحیح بخاری، حدیث نمبر10)

ایک اور حدیث ِ مبارکہ کچھ اس طرح ہے: "جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی تو یہ اس کا خون کرنے کے برابر ہے اور جوشخص کسی مسلمان کو کافر کہے تو وہ ایسا ہے، جیسے اس کا خون کیا۔ "(صحیح بخاری ، حدیث نمبر 6047)

 

 

ہمارے ہاں دوسروں کو تنگ کرنےکے لیے بھی برے نام رکھے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دوسروں کو چڑانے کے لیے نام بگاڑتے ہیں۔ جس شخص کا نام باندھا جاتا ہے، وہ ہمہ وقت ذہنی اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔ جب اس بے چارے کے سامنے اس کا نام بگاڑ کر اسے پکارا جاتا ہے تو وہ چڑجاتا ہے اور غصے کا اظہار کرتا ہے۔ اب جس شخص نے نام بگاڑا ہوتا ہے، وہ اس کے اس غصیلے ردِّ عمل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔بہ ظاہر یہ ایک معمولی برائی نظر آتی ہے، مگر اس سے رشتہ ِ اخوت کو ٹھیس پہنچتی ہے اور دلوں میں نفرتوں کے الاؤ روشن ہو جاتے ہیں۔  

 

پھر وہی بات کہ ہم نام اسی کا بگاڑتے ہیں، جسے ہم اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑی روحانی برائی ہے، جو ہماری پارسائی اور نیکی کی راہ میں حائل ہو کر ہماری تمام نیکیوں کو اکارت کر سکتی ہے۔ مادّیت کے غلبے کی وجہ سے ہمارے اندر ایک خطرنا ک قسم کا روحانی خلا روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے۔کسی کو کسی کی عزت کا پاس نہیں ۔ ہمیں یہ حق کسی نے نہیں دیا کہ کسی بھی شخص کے  ظاہر کو دیکھتے ہوئے ہم کسی کو کم تر سمجھ کر اس کا مذاق اڑائیں، اس پر طعنہ زنی کریں ، اس کے چھپے ہوئے عیبوں کی تشہیر کریں اور یہاں تک کہ اس کا نام بھی بگاڑ دیں۔

 

دراصل اسلام کا منشا ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو عزت دی جائے اور کسی  کی بے عزتی نہ کی جائے۔ اسلام احترام کا درس دیتا ہے، اس لیے ان تمام برائیوں کا قلع قمع کر دیتا ہے  جس سے کسی مسلمان کی عزت پر حملہ ہو۔ اسلام میں جس طرح کسی مسلمان کی جان اور مال دوسرے مسلمان پر حرام ہے، بالکل اسی طرح اس کی عزت پر حملہ بھی حرام ہے۔ یہ دین ِ مبین جس طرح مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ کرتا ہے، اسی طرح اس کی عزت کا بھی تحفظ کرتا ہے۔ ہم عزت پر حملے کو معمولی شے سمجھتے ہیں۔ جب جی چاہتا ہے، طعنہ زنی ، عیب جوئی ، تمسخر سے اور نام بگاڑ کر کسی کی بھی عزت پر حملہ آور ہو جاتے  ہیں۔ اگر یہ معمولی گناہ ہوتے تو قرآن و حدیث میں اس کی ممانعت نہ آتی۔


نوٹ:  "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 1 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 3 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 4 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 5پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

"سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 6پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

جاری ہے۔۔۔۔

      میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے