سورۃ الحجرات کے Dos اور Don’ts

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

قسط نمبر5

6۔ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤ

الحجرات کی آیت نمبر 11 میں فرمان ِ باری تعالیٰ ہے:

"اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ۔ممکن ہےکہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں۔(49:11)

 

سابقہ آیت میں بتایا گیا کہ مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، سو بھائیوں کے مابین لڑائی جھگڑا ہو جائےتو صلح کر ادیا کرو۔ اس آیت ِ مبارکہ سے رشتہ ِ اخوت کو مضبوط  سے مضبوط تر بنادینے والے عناصر سے متعلق الہامی ہدایات فراہم کی جا رہی ہیں۔معاشرے کو پر سکون بنانے کے لیے ان الہامی ہدایات پر عمل کرنا از حد ضروری ہے۔  

 


حکم دیا گیا کہ ایک دوسرے کامذاق نہ اڑایا کرو۔  ہو سکتا ہے جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا مقام و مرتبہ آپ کے مقام اور مرتبے سے زیادہ ہو۔ہو سکتا ہے، جس کا ہم مذاق اڑا رہے ہوں، وہ ربِّ کریم کے ہاں ہم سے زیادہ مقبول ہو، ہم سے زیادہ نیک ہو، ہم سے زیادہ نماز روزے کا پابندہو، ہم سے زیادہ عبادت گزار ہو، ہم سے زیادہ معاملات میں اچھاہواور قیامت کے روز میزان میں اس کی نیکیاں ہماری نیکیوں سے زیادہ ہوں۔ یاد رکھیے! ربّ العالمین کے ہاں مقام اور مرتبے کی کسوٹی نہ حسن ہے، نہ دولت ہے، نہ علم ہے، نہ رنگ ہے، نہ نسل ہے، نہ کچھ اور۔۔۔ بلکہ تقویٰ ہے، کیوں کہ تقویٰ تمام نیکیوں کی جڑ ہے ۔تقویٰ اختیار کرنے سے نیکیاں کرنا آسان ہو جاتا ہے اور گناہوں سے بچنا بھی مشکل نہیں رہتا۔خدا ظاہری صورتوں کو نہیں دیکھتا ، بلکہ وہ باطن میں پنہاں نیکیوں پر نظر کرتا ہے۔ وہ جانچتا ہے کہ کس کا باطن کتنا پاک و صاف ہے۔ربّ العالمین کے ہاں ظاہری حسن کی کوئی وقعت نہیں ، اگر باطن حسین نہ ہو۔ حدیث نبوی ﷺ ہے: "اللہ تعالیٰ نہ تمھارے جسموں کو دیکھتا ہے ، نہ تمھاری صورتوں کو، بلکہ تمھارے دلوں کو دیکھتا ہے۔"(صحیح مسلم، حدیث نمبر2564)

 

مردوں اور عورتوں کا الگ ذکر کیوں؟

یہاں ایک قابل ِ غور بات یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کا الگ الگ  ذکر کیا گیا ہے۔ مردوں کے لیے "قوم" کا لفظ استعمال کیا گیا اور عورتوں کے لیے "نساء" کا لفظ لایا گیا۔ حالاں کہ صرف "قوم" ہی استعمال کر دیا جاتا تو اس میں مرد و عورت دونوں کا ذکر ہو جاتا ، کیوں کہ قوم میں مردو عورت دونوں آجاتے ہیں۔ عورتوں کا ذکر الگ کر کے دراصل سمجھایا جا رہا ہے کہ اسلام سرے سےمر دوعورت کی مخلوط محفلوں  کا قائل ہی نہیں ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش ہی  نہیں ہے کہ مرد و عورت باہم مل کر مخلوط محفلیں سجائیں ،اس میں پر تکلف قسم کی باتیں ہوں ، مرد عورتوں پر اور عورتیں مردوں پر جملے کسیں اور طنر و مزاح کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ برائی بھی عام ہوتی جارہی ہے۔ اس کا ازالہ از حد ضروری ہے، کیوں کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور اس سے کئی فتنے جنم لیتے ہیں۔

 

مذاق اڑانا ہماری محفلوں کا لازمی جزو بن چکا ہے

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ  ہماری محفلوں میں جب تک کسی  کا مذاق نہ اڑایا جائے، بے کار اور پھیکی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ گویا ہماری محفلوں کی رنگینی ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور ایک دوسرے پر طنزیہ جملے کسنے میں پنہاں ہے۔ کوئی کسی کےچھوٹے قد یا لمبے قد پر طنز کرتا ہےتو کوئی کسی کے رنگ کو تضحیک کا نشانہ بناتا ہے ۔کوئی کسی کی نسل اور زبان پر ہنستا ہےتو کوئی کسی کا نام بگاڑ کر اہل ِ محفل کو ہنسانے کی سعی کرتا ہے۔ حالاں کہ ذات ، پات، رنگ، نسل، قد۔۔۔سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات ہیں ۔ ان پر ہنسنا اور ان قدرتی  امتیازات پر طنز اور طعن کے نشتر برسانا گویا اس بات کی منادی کرنا ہے کہ ہمیں خدا کی صنعت پر اعتراض ہے یا نعوذ باللہ رب تعالیٰ کا صنّاعی میں خامی ہے۔

 

سوشل میڈیا اور مذاق

سوشل میڈیا نے مذاق اڑانامزید آسان کر دیا ہے۔ آرا(کمنٹس) کے ذریعے کسی بھی شخص کو بلا سوچے سمجھے طنر و مزاح کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اچھی پوسٹ بھی کرے تو اس پر بھی اعتراض کر دیا جاتا ہے۔ گویا سماجی میڈیا مذاق اڑانے کا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے، جہاں ہر ایرے غیرےنتھو خیرے کو طنز اور مذاق کے ذریعے کسی کی بھی عزت و ناموس سے کھلواڑ کر نے کی سو فی صد رسائی حاصل ہے۔ ہمیں یہ حق کسی نے نہیں دیا کہ ہم کسی کی بے عزتی کریں۔ اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ٹھوس دلائل کی بنیاد پر نظریاتی اختلا ف تو کیا جا سکتا ہے، مگر شخصیت پر حملہ نا مناسب ہوتا ہے۔اسلامی تعلیمات کے  مطابق مسلمان کی عزت پر حملہ حرام ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ دسویں تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے منیٰ  میں خطبہ دیا۔ خطبے میں آپ ﷺ نے پوچھا: لوگو! آج کو ن سا دن ہے؟لوگ بولے یہ حرمت کا دن ہے۔آپ ﷺ نے پھر پوچھا: اور یہ شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حرمت کا شہر ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ مہینا کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حرمت کا مہینا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بس تمھار ا خون، تمھارے مال اور تمھاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جیسے اس دن کی حرمت، اس شہر اور اس مہینے کی حرمت ہے۔اس کلمے کو آپ ﷺ نے کئی مرتبہ دہرایا۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر1739)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"کسی آدمی کے بُرے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر( دوسرے ) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر2564)

 

 

اپنے آپ کو بہتر سمجھنا شیطانی و فرعونی وصف ہے

ہم مذاق اسی کا اڑاتے ہیں، جسے ہم اپنے آپ سے کم تر سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو بہتر سمجھنا اور دوسروں کو حقیر جاننا شیطانی  اور فرعونی صفت ہے۔ یہی وہ صفت ہے ،جس کی وجہ سے 'ابلیس'، 'شیطان' بن گیا تھا۔ جب پروردگار نے سیدنا آدم علیہ السلام کو تخلیق کر لیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ اس پیکر ِ خاکی کو سجدہ کرو۔ سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے۔ رب تعالیٰ نے ابلیس سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: انا خیر منہ  (یعنی  میں اس سے بہتر ہوں) (القرآن الحکیم، 17:12)

فرعون نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اپنے آپ کو بہتر جانا اور کہا: "میں اس شخص سے کہیں بہتر ہوں جو بڑا حقیر قسم کا ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا۔"(القرآن الحکیم، 43:52)

 

مذاق اڑانا کافروں کا شیوہ ہے

قرآنی تعلیمات بتاتی ہیں کہ جب انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو دعوت ِ حق دی تو سر کش لوگوں نےنہ صرف ان کی  تعلیمات کو جھٹلایا، بلکہ  ان کا مذاق بھی  اڑایا ۔ معلوم ہوا کہ مذاق اڑانا کافروں کا شیوہ ہے۔

جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا نوح علیہ السلام کشتی بنا رہے تھےتو ان کے قوم کے کافر سرداروں نے ان کا مذاق اڑایا۔ "وہ (نوح علیہ السلام) کشتی بنانے لگے۔ ان کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی ان کے پاس سے گزرتا تھا، ان کا مذاق اڑاتا تھا۔"(القرآن الحکیم، 11:38)

سیدنا ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو راہ ِ حق کی طرف بلایا تو قوم کے سخت دل لوگوں نے کہا: کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ کی عبادت کریں اور انھیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں؟اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو سچا ہے۔"(القرآن الحکیم، 7:70)

"اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو لایا نہیں اور ہم صرف تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں  اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں۔ہم تو یہ سمجھتے ہیں تیرے اوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔(القرآن الحکیم، 11:53،54)

سیدنا صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سرداروں نے  غرور و تکبّر بھرے لہجے میں ان سے کہا: "لے آو ہ عذاب  جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو پیغمبروں میں سے ہے۔(القرآن الحکیم، 7:77)

سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم نے بھی ان پر پر زبانی حملے کیے۔ جب پیغمبر علیہ السلام نے انھیں سمجھایا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پس کہنے لگے: "لوط کے گھر والوں کو بستی سے نکال باہر کرو، یہ بڑے پاک باز بنتے ہیں۔"(القرآن الحکیم، 27:56)

سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان پر طنز و تنقید کے نشتر برساتے ہوئے کہا: "اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں ، جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہمیں اپنے مال میں سے اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے!"(القرآن الحکیم، 11:87)

جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئےاپنی قوم کوایک گائے زبح کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا: "کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو۔ موسیٰ(علیہ السلام ) نے کہا: "میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں جیسی باتیں کروں۔"(القرآن الحکیم، 2:67)

رسول اللہ ﷺ کو بھی حق اور سچ بات پہنچانے کی پاداش میں تمسخر اور استہزا کا نشانہ بننا پڑا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "یہ منکرین تجھے جب بھی دیکھتے ہیں تو تمھارا مذاق ہی اڑاتے ہیں کہ کیا یہی وہ ہےجو تمھارےمعبودوں کا ذکر برائی سے کرتا ہے اور وہ خود ہی رحمان کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں۔"(القرآن الحکیم، 21:36)

درج بالا قرآنی آیات سے معلوم ہوا کہ مذاق اڑانا اور استہزا کرنا اہل ِ کفر کا شیوہ رہا ہے۔ لہذا س معاشرتی برائی سے احتراز از حد ضروری ہے۔

 

انسان تکبر کی وجہ سےدوسروں کا مذاق اڑاتا ہے

جب انسان کے دل میں تکبّر آجائے تو وہ  دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ یاد رکھیے، عزت عاجزی میں ہے، تکبر میں نہیں۔ متکبر شخص کو لوگ دل سے پسند نہیں کرتے۔ مغرور آدمی دوسروں کا مذاق اڑانے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتا۔ سر ِ عام دوسروں کی بے عزتی کردیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نےا رشاد فرمایا: "جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔" ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔" آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر ،حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔"(صحیح مسلم، حدیث نمبر 91)

 

مذاق اڑانے سے متعلق چند احادیث

ذیل میں چند احادیثِ مبارکہ تحریر کر رہا ہوں، جن میں تلقین کی گئی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا مذاق نہ اڑائے، کیوں کہ مذاق اڑانا کوئی معمولی گناہ نہیں ہے۔

مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان بچے رہیں۔(یعنی کوئی تکلیف نہ پائیں۔)(صحیح بخاری، حدیث نمبر 10)

ایک مرتبہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ام المونین سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آں حضرت ﷺ کے سامنے پستہ قد کہہ دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو کڑوا ہو جائے۔"(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4875)

اماں فرماتی ہیں کہ میں نے ایک شخص کی نقل کی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں، اگرچہ میرے لیے اتنا اور اتنا (مال ) ہو۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4875)

سیدنا   عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسواک کے درخت سے رسول اللہ ﷺ کے لیے مسواک توڑ رہا تھا۔ لوگ میری باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تم کس چیز سے ہنس رہےہو؟" انھوں نے کہا: "ان کی پنڈلیوں کی باریکی سے۔آپ ﷺ نے فرمایا: "اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (قیامت کے دن) ترازو میں یہ پنڈلی احد پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوگی۔ (سلسلہ احادیثِ صحیحہ، حدیث نمبر3358۔انصار السنہ پبلیکشنز لاہور)

 

اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل  کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

 

نوٹ:  "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 1 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 3 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 4 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

جاری ہے۔۔۔۔

      میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے