سورۃ الحجرات کے Dos اور Don’ts

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

قسط نمبر 3

3۔ اپنی آوازپست رکھو

سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"اے ایمان والو!اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرواور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو، جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمھارے اعمال اکارت جائیں اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔"(49:2)

یہ حکم اگر چہ زمانہ ِ نبوت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیا گیا، مگرقرآن ِ حکیم کی تعلیمات تاقیامت ہیں۔ اس آیت میں یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جس طرح رسول ِ اکرم ﷺ کی حیات ِ طیبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ادب و احترام کو تقاضوں کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے آپ ﷺ کے سامنے اپنی آواز پست رکھتے تھے، اسی طرح آج بھی رسول اللہ ﷺ کا ادب و احترام ضروری ہے۔الحمد للہ، امّت ِ  محمدیہ  نے رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد بھی آپ ﷺ کے ادب و احترام کا سلسلہ جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ آج بھی روضہ ِ رسول ﷺ کے سامنے نہایت ادب و احترام کے ساتھ اور اپنی آواز پست رکھ کر سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔



اب رسول اللہ ﷺ ہم میں نہیں ہیں۔ یہ آیت ِ مبارکہ تقاضا کرتی ہے کہ جہاں بھی حضور ِ اکرم ﷺ کا ذکر ِ خیر ہو رہا ہو یا جہاں بھی حضور اکرم ﷺ کی احادیث سنائی جارہی ہوں وہاں خاموشی اختیار کی جائے اور ادب و احترم کے ساتھ آپ ﷺ کا ذکر سنا جائے۔

 اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ  اگر رسول ِ اکرم ﷺ کا ادب نہ کیا گیا تو اعمال برباد ہوجائیں گے۔ بہ ظاہر نیک عمل کرنے والا  بھی بے ادبی کا مرتکب ہو گیا اور تھوڑی سی بھی بے احتیاطی برتی تو اس کی نیکیوں کا اجر ضائع ہو جائے گا اور اسے معلوم بھی نہیں ہو گا۔

اس حکم کامرکزی نکتہ ادب ہے۔ ادب ضروری ہے۔ ادب محبت کا پہلا قرینہ ہے۔علامہ اقبال نے خوب کہا تھا:

خموش اے دل بھری محفل میں چلّانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

 ادب کرنے والا زور زور سے نہیں بولتا ۔ اس کا لہجہ شائستہ ہو جاتا ہے۔جو شخص  محفل میں بلا ضرورت زور سے بولے تو جان لیجیے کہ اس میں ادب کی کمی ہے۔ قرآن حکیم میں نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا گیا، بلکہ آپ ﷺ کا ادب کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔


نزول ِ آیت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا احتیاط

اس آیت ِ مبارکہ کے نزول کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت زیادہ محتاط ہو گئےتھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی آواز رسول ِ اکرم ﷺ کی آواز سے کم رکھنے لگے۔

اس آیت  مبارکہ کے نزول کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نبی اکر م ﷺ سے گفتگو کرتے ہوئے اتنا آہستہ بولتے کہ بعض اوقات آپ ﷺ کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا ۔(جامع ترمذی، حدیث نمبر3266)

اس آیت کے نزول کے بعد سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر میں بیٹھ گئے  اور کہنے لگے: "میں تو جہنمی ہوں۔رسول ِ اکرم ﷺ نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: "ابو عمر ، ثابت کوکیا ہوا؟کیا وہ بیمار ہیں؟" سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: "وہ میرے پڑوسی ہیں اور مجھے ان کی کسی بیماری کا پتہ نہیں چلا۔ سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کےبعد سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کی بات بتائی  تو ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے: "یہ آیت اتر چکی ہے اور تم جانتے ہو کہ تم سب میں میری آواز رسول اللہ ﷺ کی آواز سے زیادہ بلند ہے،  اس بنا پر میں جہنمی ہوں۔ سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس (جواب ) کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: "بلکہ وہ تو اہل ِ جنت میں سے ہے۔"(صحیح مسلم، حدیث نمبر 119)

درج بالا دو احادیث سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی پرہیز گاری کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس آفاقی حکم پر عمل کر کے امّت  کو تا قیامت یہ درس دے دیا کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب و احترام نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ الہامی حکم ہے۔


بڑوں کا ادب

گو درج بالا آیت ِ مبارکہ میں خاص طور پر مسلمانوں کو رسول ِ اکرم ﷺ کا ادب کرنے اور آپ ﷺ کی آواز سے اپنی آواز کو پست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن  عام طور پر ہر بڑے شخص کا ادب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔یعنی سکھایا گیا ہے کہ والدین کی آواز سے اپنی آواز کم رکھیں ۔ اساتذہ کے سامنے زور سے نہ بولیں۔ خاندان کاکوئی معزز بزرگ موجود ہو تو اس کے سامنے بھی اپنی آواز پست رکھ کر مہذب ہونے کا ثبوت دیں۔  علماء و صوفیا کی محافل میں بھی اگر بولنے کی ضرورت پیش آئے تو آہستہ اور شائشتگی سے بات کریں۔

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز ِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے ، در اصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے۔اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔"(تفہیم القرآن)


اسلام آہستہ بولنے کا درس  دیتا ہے

اسلام آہستہ اور شائستگی سے بولنے کا درس دیتا ہے۔ یہی تہذیب ہے اور یہی ادب ہے۔ بدتہذیبی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ بلا ضرورت زور سے بولا جائے۔  مہذب لوگ اپنی آواز پست رکھتے ہیں۔ جب کہ بد تہذیب لوگ زور زور سے بول کر دوسروں کو پریشان کرتے ہیں۔قرآن حکیم کی اکتیسویں سورت، سورہ ِ لقمان ہے۔ اس سورتِ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی ان نصیحتوں کا تذکرہ ہے، جو انھوں نے اپنے بیٹے کو کیں۔ یہ بڑی سبق آموز اور زندگی کو سنوار دینے والی نصیحتیں ہیں۔ حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیٹے کوایک نصیحت یہ بھی کرتے ہیں:

"اپنی آواز آہستہ رکھو۔ یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔"(31:19)

گدھے کی آواز کو برا اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بہت زور سے رینکتا ہے۔ اس لیے انسان کو اس کی مثل نہیں ہونا چاہیے۔ نیز سمجھایا گیا ہے کہ گدھے کی طرح اپنی آوازوں کو بہت زیادہ بلند کر کے دوسروں کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ شائستہ لہجہ اختیار کر کے بات کرنی چاہیے۔

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس آیت ِ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "آواز آہستہ رکھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان اتنا آہستہ بولے کہ سننے والے کو دقت پیش آئے، بلکہ مرادیہ ہے کہ جن کو سنانا مقصود ہے، ان تک تو آواز وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے ، لیکن اس سے زیادہ چیخ چیخ کر بولنا اسلام اداب کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص درس دے رہا ہو، یا وعظ کر رہا ہو، تو اُ س کی آواز اتنی بلند ہونی چاہیے جتنی اس کے مخاطبوں کو سننے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اُ س سے زیادہ آواز بڑھانے کو بھی اس آیت کے تحت بزرگوں نے منع فرمایا ہے۔اس حکم پر خاص طور سے اُن حضرات کو غور کرنے کی ضرورت ہے جو بلا ضرورت لاؤڈ اسپیکر استعمال کر کے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔(آسان ترجمہ ِ قرآن)

 نوٹ:  "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 1 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 "سورۃ الحجرات کے Dos  اور Don’ts" کی قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

جاری ہے۔۔۔۔

      میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے