سیف الرّحمان ادیبؔ اور ان کی "تصویر"

 تحریر: نعیم الرّحمان شائقؔ

ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا رجحان بہ تدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور ملٹی میڈیا نے ہمیں کتابوں سے بہت دور کر دیا ہے۔ مغرب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہے، لیکن وہاں اب بھی کتابیں چھپتی ہیں اور خوب بکتی ہیں۔ کئی کتابیں بیسٹ سیلنگ کے ذمرے میں چلی جاتی ہیں۔ہمارے ہاں یہ روایت نہیں ہے، جو کہ تشویش ناک بات ہے۔ ہم پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔جہاں کتابیں پڑھنے کی روایت دم توڑ دے، وہاں علم و شعور کیوں کر پروان چڑھے گا؟ کتابوں سے دوری واقعی ہمارے لیے تشویش ناک بات ہے۔ اہل ِ علم و ادب  کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔



وہ لوگ واقعی قابل ِ تعریف ہیں، جو اس دور میں بھی کتابوں کی اشاعت پر پیسے خرچ کرتے ہیں۔ یہ جاننے کے با وجود کہ کتابیں پڑھنے کا رجحان اب پہلے کی  طرح نہیں رہا  اور کتابیں اب صرف ایک مخصوص طبقہ ہی پڑھتا ہے۔ خاص طور پر ادب کی کتابیں تو محض ادبا و شعرا ہی پڑھتے ہیں، جن کی تعداد ہمارے ہاں  آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

کچھ دن قبل سیف الرّحمان ادیبؔ کی کتاب "تصویر " شائع ہوئی۔ یہ کتاب در اصل ان کی سو الفاظ کی سو کہانیوں پر مشتمل ہے۔ ادیبؔ صاحب پچھلے تین چار سالوں سے مسلسل سوشل میڈیا  پراور چند ویب سائٹوں پر "سو الفاظ کی کہانی" لکھ رہے ہیں۔ میں انھیں  کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

آپ میں سے بہت سارے لوگ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ سیف الرّحمان ادیبؔ ایک معمر شخص ہوں گے۔ تبھی تو صاحب ِ کتاب ہیں۔ مگر ایسانہیں ۔ وہ 2 فروری 2000ء کو کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے۔اس حساب سے ان کی عمر صرف اکیس سال بنتی  ہے۔ اکیس سال کی عمر میں صاحب ِ کتاب ہو جانا  اور ادیب بن جاناواقعی قابل ِ تعریف کارنامہ ہے، جس کی جتنی ستائش کی جائے ، کم ہے۔ ادیبؔ  کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا از حد شوق رہا ۔ سعادت حسن منٹو ان کے پسندیدہ ادیب ہیں۔ ادیب ؔ  فاضل درس ِ نظامی بھی ہیں۔مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ ان کے اساتذہ میں سے تھے، مگر ادیبؔ، ادیب ہیں۔ وہ ادب پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے نام کے ساتھ "مولانا" نہیں لکھتے۔ ان کی تحریروں  سے  بھی غیر جانب داری جھلکتی ہے۔ وہ مذہبی موضوعات پر لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ انھیں جہاں بھی کوئی خامی نظر آتی ہے، اس کا برملا اظہار کرتے ہیں اور اپنے طنزیہ اور کاٹ دار سو لفظوں سے اس اور اپنے قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

 

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیف الرّحمان ادیبؔ نے اپنے آپ کو "سو الفاظ کی کہانی" کے لیے وقف کر دیا ہے۔ شاذ و نادر ہی وہ کسی اور صنف ِ سخن میں طبع آزمائی کرتےہیں۔ گویا وہ اس حقیقت کا ادراک کر چکے ہیں کہ اب لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس لیے لمبے لمبے ناول، کہانیاں، افسانے وغیرہ لکھنے سے اچھا ہے کہ سو الفاظ کی کہانی لکھی جائے، جسے قاری بغیر کسی بوریت کے ایک ہی نشست میں پڑھ لے ۔

وہ لکھتے ہیں:

"کیوں نہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ کہانی بھی ہو، موبائل میں بھی آجائےاور زیادہ وقت بھی نہ لے۔ لیجیے! حل پیش ِ خدمت ہے۔ سو الفاظ کی ایک کہانی پڑھنے میں زیادہ سے زیادہ بیس سیکنڈ لگتے ہیں۔"(تصویر، صفحہ 17)

 

ادیبؔ صاحب کی" تصویر" واقعی قابل ِ تعریف  ہے۔ "تصویر" میں موجود ہر سو لفظی کہانی ہمیں کوئی نہ کوئی سبق دیتی ہے۔ یہ کہانیاں ارد گرد پھیلے ہوئے ہمارے معاشرتی اور سماجی مسائل کی بہترین عکاس ہیں۔ معاشرے کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کبھی کبھار ادیبؔ کا لہجہ بہت زیادہ طنزیہ ہو جاتا ہے۔ان کی زیادہ تر کہانیاں غریب لوگوں کی دکھ بھری زندگیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔وہ جو مشاہدہ  کرتے ہیں، اپنے سو الفاظ میں سمو دیتے ہیں۔ سو الفاظ میں پوری کہانی کو سمو دینا واقعی مشکل کام ہے، لیکن ادیبؔ اس کا م کو بحسن و خوبی سرانجام دیتے ہیں۔ ادیب ؔ کے سوالفاظ کی کہانیوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ پوری کہانی کا لب ِ لباب آخری جملے میں پنہاں ہوتا ہے۔ گویا جب تک قاری آخری جملہ نہ پڑھ لے، اسے کہانی سمجھ ہی نہیں آئے گی۔

 

"تصویر" کی ہر کہانی خوب ہے، بلکہ خوب تر ہے۔ چند کہانیوں پر تبصرہ کرتا ہوں۔"دو ہزار اکیس"میں ادیب ؔ  ہمیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غریب کے لیے نئے سال کی خوشی اور اس جیسی دیگر خوشیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔"شیر" میں وہ فلسطین کا رونا روتے ہیں۔"منافق" میں وہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں محبت جیسا جذبہ بھی  منافقت سے بھر پور ہے ۔ "جرم " میں وہ پھر غربت کا رونا روتے ہیں۔ "کاروبار" میں وہ ہمیں باور کراتے ہیں جو لوگ سوشل میڈیا پر  دوسروں کو  کام یاب زندگی کے بھاشن دیتے ہیں، ان میں سے اکثر خود ناکام زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ "سایہ "  اور "فرشتے" بھی غریبوں کی دکھ بھری زندگی سے متعلق  ہیں۔ "غیرت" میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ "پارسا" میں بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں زیادہ تر ظاہراً نیک لوگ باطناً  بد ہوتے ہیں۔  "مسجد" میں وہ ہر سوُ پھیلی ہوئی فرقہ واریت پر طنز کرتے ہیں ۔

 

آخر میں میں سیف الرّحمان ادیبؔ سے گزارش کروں گا کہ وہ "سو الفاظ کی کہانی" کو جاری و ساری رکھیں۔ ہو سکتا ہے ، پہلی کتاب کی اشاعت کے بعد انھیں متوقع پزیرائی نہ ملے، کیوں کہ ہر سو ُ قحط العلم کی فضا ہے۔لیکن اگر وہ  مسلسل لکھتے رہیں گے توان شاء اللہ  ایک نہ ایک دن انھیں ضرور پزیرائی ملے گی۔

 

نوٹ: سیف الرّحمان ادیبؔ  کی مذکورہ بالا کتاب کو آن لائن خریدنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں: 03010326582

 

       میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے