دنیوی خیالات سے پاک نماز۔۔۔کیوں اور کیسے؟

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

نماز کی اہمیت

نماز دین ِ اسلام کا دوسراہم اور بنیادی  رکن ہے۔ قرآن مجید اور احادیث ِ مبارکہ میں بہ کثرت نماز کا ذکر آیا ہے۔

 سورۃ البقرۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔"(2:43)

سورۃ الرّوم میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"نماز کو قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ۔ "(30:31)

رسول ِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب ہوگا۔اگر وہ ٹھیک رہی تو کا م یاب ہوگیا اگر وہ خراب نکلی تو وہ نا کام و نامراد رہا۔"(جامع ترمذی، حدیث نمبر 413)

درج بالا قرآن و حدیث کی تعلیمات سے نماز کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 


ہماری نمازیں بے اثر کیوں ہیں؟

 

سورۃ العنکبوت میں ربِّ کریم فرماتے ہیں:

"بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔"(29:45)

سورۃ الرّعد میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

یاد رکھو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔(13:28)

نماز سراپا ذکر ِ الٰہی ہے۔ درج بالا آیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو نماز پڑھنے کے دو فائدے ہیں۔

1۔ نماز برائیوں سے روکتی ہے۔

2۔ نماز سے دل کو سکون ملتا ہے۔

اگر ہمیں نماز پڑھنے سے درج بالا دو فوائد حاصل نہیں ہو رہے تو غور و فکر کی ضرور ت ہے۔ ہم نماز پڑھ کر بھی بے سکو ن رہتے ہیں اور برائیوں کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔یعنی ہماری نمازیں بے اثر ہیں۔ مگر کیوں؟ کیوں کہ ہماری نماز میں ظاہر ہے، باطن نہیں۔ جسم ہے، روح نہیں۔ روح کی غذا ربِّ کریم کا ذکر ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری روحیں دوران ِ نماز بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف مائل نہیں ہوتیں۔ جب ہماری نمازیں دنیوی خیالات سے پُر ہوں گی، تو ان سے کیوں کر فائدہ ہو گا؟ نمازوں کو پُر اثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان میں رب تعالیٰ کو یاد کیا جائے۔

 

دین ِ اسلام دنیوی خیالات سے پاک نماز کا خواہاں ہے

 

دین ِ اسلام کا منشا ہے کہ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی مصروف ِ عبادت ہو۔ جب جسم اور روح دونوں کا تعلق اللہ سے ہو تو حقیقی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ عبادت ، اعمال پر اسی وقت اثر انداز ہوتی ہے ، جب خالص ربِّ کریم کے لیے کی جائے۔ رب تعالیٰ کی سب سے اہم عبادت نماز ہے، اس لیے اس میں خشوع و خضوع لازمی ہے، یعنی ایسی نماز ، جس میں ہمارا تعلق رب تعالیٰ سے ہو  اور دنیوی خیالا ت سے پاک ہو۔

سورۃ المؤمنون میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔(23:1،2)

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سورۃ المومنون کی آیت نمبر 2 کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"خشوع کے معنی ہیں دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنا۔ "(آسان ترجمہء قرآن )

مولانا صلاح الدین اس آیت کی تفسیر میں  لکھتے ہیں:

"خشوع سے مراد ، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے۔"(احسن البیان)

جو شخص بہ  دل و جان نماز قائم کرے گا، اس پر نماز پڑھنا بھاری نہیں گزرے گا۔ ہمارے ہاں لوگ نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں، پھرکچھ دنوں کےبعد چھوڑ دیتے ہیں۔ وجہ خشوع و خضوع کی کمی یا بالکل نہ ہونا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے، مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع(یعنی دھیان اور عاجزی)سے پڑھتے ہیں۔"(2:45)

قرآنی تعلیمات کے مطابق جو نماز میں ربِّ کریم کو کم یاد کرتے ہیں ، وہ منافق ہیں۔سورۃ النساء میں ربِّ کریم فرماتے ہیں:

"بے شک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انھیں اس چال بازی کا بدلہ دینے والا ہے۔ اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے۔ اور یاد ِ الٰہی تو یوں ہی برائے نام سی کرتے ہیں۔"(4:142)

حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر دو رکعتیں اس طرح پڑھتا ہےکہ دل نماز کی طرف متوجہ رہے اور اعضاء میں بھی سکون ہو تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 906)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "آدمی (نماز پڑھ کر ) لوٹتا ہے تو اسے اپنی نماز کے ثواب کا صرف دسواں، نواں ، آٹھواں ساتواں، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا، تیسرا اور آدھا ہی حصہ ملتا ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 796)

یعنی نماز میں جتنا خشوع و خضوع زیادہ ہوگا، اتنا زیادہ ثواب ملے گا۔

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اللہ تعالیٰ بندے کی طرف اس وقت تک توجہ فرماتے ہیں ، جب تک وہ نماز میں کسی اور طرف متوجہ نہ ہو۔جب بندہ اپنی توجہ نماز سے ہٹا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی توجہ ہٹا لیتے ہیں۔" (نسائی، حدیث نمبر 1196)

درج بالا قرآن و حدیث کی تعلیمات سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے نماز میں قلبی میلان کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے۔ اس نماز کے کیا کہنے جو دنیوی خیالات سے مکمل طور پر پاک ہو اور جس میں انسان کا تعلق صرف رب تعالیٰ سے ہو۔

 

نماز میں دنیوی خیالات سے بچنے کے طریقے

نمازوں کو دنیوی خیالات سے پاک رکھنے کے لیے درج ذیل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں:

1۔ آخری نماز

نماز ادا کرنے سے پہلے سوچیں کہ یہ میری آخری نماز ہے۔ اس نماز کے بعد میں اپنے رب کے پاس چلا جاؤں گا۔ جہاں میرے ساتھ کوئی نہیں ہوگا، سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ اس لیے مجھے اس نماز میں رب تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا چاہیے اور تمام خلائق سے کٹ کر اپنا دل رب تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دینا چاہیے۔

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا ، آکر کہا: "اللہ کے رسول! مجھے کچھ بتائیے اور مختصر نصیحت کیجیے۔" آپ ﷺ نے فرمایا: "جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوتو ایسی نماز پڑھو ، گویا دنیا سے جا رہے ہواور کوئی ایسی بات منھ سے نہ نکالوجس کے لیے آئندہ عذر کرنا پڑے، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے پوری طرح مایوس ہو جاؤ۔"(سنن ابن ِ ماجہ، حدیث نمبر 4171)

 

2۔ نماز کا ترجمہ:

عربی سے نا واقفیت کی وجہ سے ہمیں نماز میں پڑھے جانے والے کلمات کاترجمہ نہیں آتا۔ جب ہمیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں تو دل نماز کی طر ف کیسے متوجہ ہوگا۔ اس لیے نماز کا ترجمہ یاد کر لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ نہیں توکم ازکم قرآن مجید کی آخری دس سورتوں کو ترجمے کے ساتھ یاد کر لینا چاہیے۔ جب نماز ادا کریں تو جو کلمات پڑھیں ان کے ترجموں کو ذہن میں رکھ کر پڑھیں۔ ان شاء اللہ اس عمل سے توجہ نماز کی طرف ہی رہے گی۔

 

3۔ احسان

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ درجہ حاصل نہ ہوتو پھر یہ تو  سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔"(صحیح بخاری، حدیث نمبر50)

یعنی نماز میں ہر وقت یہ احساس رہے کہ ہم ربِّ کریم کی بارگاہ میں کھڑے ہیں ۔ وہ ہمارے سامنے ہے۔ وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ وہ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اس لیے ہمیں بہ دل و جان اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ یہ ظلم ہے کہ ہم اس کے سامنے کھڑے ہیں، لیکن دل میں احساس تک نہیں ہے۔ ہم اس کے سامنے موجود ہیں ، لیکن دنیا کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔اس بات کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر کسی ادارے  کا سربراہ ملازموں کے درمیان موجود ہوتو وہ نہایت دل جمعی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔ سستی اور کاہلی ان سے دور ہو جائے گی۔ ہر ایک کی کوشش ہو گی کہ وہ سربراہ کے عتاب کا شکار نہ ہو۔ادارے کے سربراہ کی عدم موجودگی میں  بھی ملازمین کام کریں گے، لیکن اس طرح نہیں، جس طرح اس کی موجودگی میں کر رہے تھے۔

 درج بالاحدیث ِ مبارکہ میں  "عبادت" کا لفظ آیا ہے۔ گویا رب تعالیٰ کی ہر عبادت میں احسان ہونا چاہیے۔

 

اللہ تعالیٰ ہم سب کو خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)


     میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے