غیبت معمولی گناہ نہیں ہے

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

غیبت کو بہت معمولی گناہ سمجھا جاتا ہے، بلکہ بہت سے لوگ تو اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔عوام و خواص سب اس گناہ ِ عظیم میں مبتلا ہیں۔افسر ماتحت کی غیبت میں لگا ہوا ہے اور ماتحت افسر کی غیبت میں مصروف ہے۔ یاد رکھیے کہ غیبت ایک کبیرہ گناہ ہے۔ اس لیے اسے معمولی برائی نہیں سمجھنا چاہیےاور اس سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہماری محافل اس کبیرہ گناہ سے آلودہ نظر آتی ہیں، بلکہ غیبت کے بغیر محفل بے لطف اور نامکمل  محسوس ہوتی ہے۔خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اپنی مسدّس میں کیا خوب منظر کشی کی ہے:



مجالس میں غیبت کا زور اس  قدر ہے

کہ آلودہ اس خون سے ہر بشر ہے

نہ بھائی کو بھائی سے یاں در گزر ہے

نہ ملّا، نہ صوفی کو اس سے حذر ہے

اگر نشّہء مے ہو غیبت میں پنہاں

تو ہو شیار پائے نہ کوئی مسلماں  

 

غیبت کا مفہوم:

کسی شخص کی غیرموجودگی میں  دوسرے لوگوں کے سامنے اس کی برائی کرنا غیبت ہے۔

اردو لغت(تاریخی اصولوں پر ) کے مطابق :"کسی کی عدم موجودگی میں اس کی بد گوئی ، غیر حاضری میں عیبوں کا بیان، پیٹھ پیچھے کی برائی"۔ یہ سب غیبت کی صورتیں ہیں۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں:

"غیبت کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخص کا اس طرح ذکر کیا جائے کہ اگر وہ سنے تو بُرا جانے، خواہ اس ذکر کا تعلق جسمانی نقص سے ہو، یا اخلاقی عیب سے ہو، خواہ اس کے قول کو ہدف بنایا جائےیا اس کے فعل کو ، خواہ اس کے نام میں کیڑے نکالے جائیں یا نسب میں ۔۔۔۔"(احیاء العلوم، جلد سوم، مترجم: مولانا ندیم الواجدی)

 

غیبت اتنا سنگین گناہ کیوں ہے؟

بہ ظاہر معمولی نظر آنے والے گناہ کو قرآن ِ حکیم میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔ کسی اور گناہ کے لیے اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ جس سے بچنا از حد ضروری ہے۔ غیبت کے سنگین گناہ ہونے کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:

          دین ِاسلام نہ صرف انسانوں کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، بلکہ عزت و آبرو کا بھی نگہبان ہے۔ جب ایک شخص دوسرے شخص کی غیبت کرتا ہے تو اس کی عزت پر ڈاکا ڈالتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح دوسروں کے سامنے اسے بے عزت کردے۔ اسلام کا منشا یہ نہیں ہے۔ اسلام ایک انسان کو دوسرے انسان  کا احترام کرنے کا  درس دیتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جس طرح کسی مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہنچانا جرم ِ عظیم ہے، بالکل اسی طرح اس کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنا بھی گناہ ِ عظیم ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے ) مسلمان کا خون ، مال اور عزت حرام ہیں۔"(صحیح مسلم، حدیث نمبر6541)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ دسویں تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا۔ خطبے میں آپ ﷺ نے پوچھا: لوگو! آج کو ن سا دن ہے؟لوگ بولے یہ حرمت کا دن ہے۔آپ ﷺ نے پھر پوچھا: اور یہ شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حرمت کا شہر ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ مہینا کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حرمت کا مہینا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بس تمھار ا خون، تمھارے مال اور تمھاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جیسے اس دن کی حرمت، اس شہر اور اس مہینے کی حرمت ہے۔اس کلمے کو آپ ﷺ نے کئی مرتبہ دہرایا۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر1739)

 

           اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے۔اس  کواپنے پیارے بندوں کی جا جا تذلیل مقصود نہیں ہے۔ رب نہیں چاہتا کہ اس کے بندوں کو جگہ جگہ ذلت و رسوائی ہو۔ اگر ایک شخص کا بیٹا جواری ہو تو وہ خود تو اس کی سرزنش کرے گا، لیکن اگر کوئی دوسرا یہ کہے کہ تیرا بیٹا جواری ہے یا وہ لوگوں زبانوں  سے اپنے بیٹے کا گلہ سنے گا تو اسے بڑا دکھ ہوگا۔ رب کو اپنے بندوں سے اتنی محبت ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندوں کی عزت سے کھلواڑ کیا جائے۔ اس لیے پیارے رب نے غیبت کو گناہ ِ کبیرہ قرار دے دیا، تاکہ اس کے بندے کی عزت محفوظ و سلامت رہے اور جگہ جگہ ان کو ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

          غیبت بہ یک وقت منافقت، حسد، عیب جوئی اور نفرت جیسے  گناہوں کا مجموعہ ہے۔ گویا غیبت کا مرتکب شخص ایک ہی وقت میں چار بڑے گناہ بہ شمول غیبت کر تا ہے۔غیبت کرنے والا شخص منافق اس لیے ہوتا ہے کہ اس میں اتنی جراءت نہیں ہوتی کہ جو باتیں وہ پیٹھ پیچھے کرتا ہے، سامنے کرسکے۔جس شخص کی وہ غیبت کرتا ہے ، اس کے سامنے اس کی تعریف و خوشامد کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ دوغلی پالیسی منافقت کہلاتی ہے اور منافقت بہ ذات ِ خود ایک بہت بڑا گناہ ہے۔غیبت کے مرض میں مبتلا شخص بہت بزدل ہوتا ہے۔ غیبت کرنے والے شخص میں حسد کے جذبات بھی کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ غیبت کرتے ہوئے خوب عیب جوئیاں کرتا ہے اور نفرت کا اظہار کرتا ہے۔اس طرح  غیبت کو مرتکب شخص ایک ہی وقت میں پانچ گناہ ایک ساتھ کرتا ہے۔

           غیبت سے فساد جنم لیتا ہے۔ جس شخص کی غیبت کی جاتی ہے، اگر اسے اس کا علم ہوجائے تو نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح معاشرے میں فساد برپا ہو جا تا ہے۔ اسلام امن کا داعی ہے۔ غیبت سے معاشرے میں بے امنی کی  فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے، جہاں جھگڑا اور فساد برپا ہو، وہاں امن بھلا کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ اس لیے اسلام میں غیبت کی ممانعت کر دی گئی ہے۔

 

 

قرآن و حدیث کی روشنی میں غیبت کی مذمت:

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

"تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہےجو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟اس سے تو خود تم نفرت کرتے ہو۔"(الحجرات، آیت نمبر12)

جس طرح ایک مردہ شخص کا گوشت کھایا جائے تو وہ اپنا دفاع کرنے سے قاصر رہتا ہے، اسی طرح جس شخص کی غیبت کی جاتی ہے، وہ اپنی عزت کا دفاع نہیں کرسکتا ۔ کیوں کہ وہ شخص وہاں موجود نہیں ہوتا۔ غیبت کرنا گویا مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مساوی ہے۔

سورۃ الھمزۃ میں رب ِ کریم فرماتے ہیں:

بڑی خرابی ہےہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔

جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے۔

وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال سدا رہے گا۔

ہر گز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ کردینے والی آگ(حطمۃ) میں پھینک دیا جائے گا۔

اور آپ کو کیا معلوم حطمہ کیا ہے؟

وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔

بے شک وہ ان پر چاروں طرف سے بند کر دی جائے گی۔

لمبے لمبے ستونوں میں۔

اس سورت مبارکہ کی ابتدائی دو آیات میں تین گناہوں کا ذکر کر کے فرمایا گیا ہے کہ ان کے مرتکبین کا ٹھکانا "حطمہ" ہے، جو کہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ان تین گناہوں میں سب سے پہلا نمبر غیبت کا ہے۔  

اب غیبت سے متعلق احادیث ِ مبارکہ کا ذکر کرتے ہیں:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟انھوں نے(یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول خوب جاننے والے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: "اپنے بھائی کا اس طرح تذکرہ کرنا جو اسے ناپسند ہو۔عرض کی گئی :اگر ہمارے بھائی میں وہ عیب موجود ہو؟آپ ﷺ نے فرمایا: جو کچھ تم کہتے ہو، اگر اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی، اگر اس میں وہ عیب موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگا یا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 6593)

"جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھےاور وہ ان سے اپنا منھ اور سینے نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا: جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ کہا: یہ وہ  ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے(غیبت کرتے) اور ان کی بے عزتی کرتے تھے۔(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4878)

 اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا ہے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا۔"(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4880)

 

غیبت سے کیسے بچا جائے

غیبت جیسے بڑے گناہ سے بچنا ہمارے لیے از حد ضروری ہے۔ ذیل میں چند طریقے دیے جا رہے ہیں، جن پر عمل کر کے ہم غیبت سے بچ سکتے ہیں:

·        خشوع و خضوع کے ساتھ تمام نمازیں  ادا کریں۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔(الاحزاب، آیت 45)۔ خشوع و خضوع کے ساتھ تمام نمازیں  پڑھنے والے شخص کو ربّ العالمین برے کاموں سے محفوظ رکھتا ہے۔

·        خاموش رہیں یا بوقت ِ ضرورت ہی بات کریں۔خاموش رہناناممکن ہو تو ربِّ کریم کا ذکر کریں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی برکت سے خاموش رہنا آسان ہو جائے گا۔خاموشی سے ہم زبان کی دیگر آفات سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ زبان آفات کا مجموعہ ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "احیاء العلوم " کی جلد نمبر 3 میں زبان کی 20 آفتوں کا ذکر کیا ہے۔ خاموشی غیبت کا بہترین علاج ہے۔

·        محفل میں دوران ِ گفتگو کوشش کریں کہ غیر حاضر شخص کے بارے میں بات ہی نہ کریں۔ یہاں تک کہ تعریف بھی نہ کریں۔ بسا اوقات ہم غیر حاضر شخص کی تعریف کرتے ہیں تو سننے والا اس کی غیبت کر نا شروع کر دیتا ہے۔ غیبت کرنا اور غیبت سننا دونوں گناہ ہیں۔

·        اگر محفل میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی غیبت کر رہا ہو تو فوراً موضوع تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے نہ صرف آپ غیبت سے بچ جائیں گے، بلکہ وہ شخص بھی بچ جائے گا۔ ان شاء اللہ ،آخرت میں آپ  کو اس نیک کام کا اجر ملے گا۔

·        قرآن و حدیث کی ان وعیدوں کے بارے میں سوچیں جو غیبت کرنے سے وارد ہوں گی۔ سوچیے کہ مردہ بھائی کا گوشت کھانا کتنا کریہہ ہے۔ سوچیے کہ غیبت سے ربِّ کریم اور سرکار علیہ السلام نے غیبت سے منع فرمایا ہے۔ سوچیے کہ غیبت کا مرتکب عذاب ِ الٰہی کا مستحق ہے۔

·        سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 12 میں ربّ کریم نے تین گناہوں سے منع فرمایا ہے: بد گمانی سے، تجسس سے اور غیبت سے۔ غور کیا جائے تو ان تینوں گناہوں میں ایک ربط ہے۔ دراصل غیبت بدگمانی اور تجسس سے جنم لیتی ہے۔ بد گمانی یہ ہے کہ اصل حقیقت جانے بغیر کسی کے بارے میں برا سوچنا شروع کر دینا۔ تجسس یہ ہے کہ کسی سے بہت سارے سوالات کر کے اس کی شخصیت کے اچھے برے سب پہلو معلوم کر لینا۔ اگلا قدم غیبت کا آتا ہے۔ جو کچھ ہم نے بدگمانی اور تجسس سے معلوم کیا، اان میں سے منفی باتیں کشید کرکے دوسرے لوگوں تک منتقل کرنا  غیبت ہے۔ اگر ہم بدگمانی اور تجسس سے ہی بچ جائیں تو غیبت سے خود بہ خود بچ جائیں گے۔ کون کیا کر رہا ہے؟ یہ معلوم کرنے سے اچھا ہے کہ ادراک کیا جائے کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں، کیوں کہ ہم سے ہمارے بارے میں پوچھا جائے گا، نہ کہ دوسروں کے بارے میں۔ دوسروں کے ریب ٹٹولنے سے اچھا ہے کہ اپنے عیب معلوم کر لیے جائیں۔

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا

 

ربّ العالمین ہم سب کو غیبت سے محفوظ رکھے۔(آمین)

     میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے