سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے چند گزارشات


نعیم الرّحمان شائق

صوبہ ِ سندھ میں سرکاری سطح پر نصابی کتب تیار کرنے کے ذمے دار ادارےسندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے اس سال اچانک جماعت نہم کی اسلامیات، کیمیا، طبیعیات اور ریاضی کی کتابیں اور جماعت دہم کی حیاتیات اور کمپیوٹر کی کتابیں تبدیل کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ پچھلے سال اس ادارےکی جانب سے جماعت نہم کی حیاتیات ،انگریزی اور کمپیوٹر کی کتابیں تبدیل کی گئی تھیں۔

 


سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ وقتاً فوقتاً نصابی کتابوں میں تبدیلی لاتا رہتا ہے، جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے۔جدید دور کے تقاضوں کو ملحوظ ِ خاطر رکھ کر نصاب تیار کرنا بہت اچھا ہوتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں  کہ اس ادارے کی کتابیں نہایت معیاری ہوتی ہیں۔ ایک  ایک کتاب لکھنے کے لیے پورا بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے۔ کتاب کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا۔کتاب کی تیاری کے بعد ایک اور بورڈ نظر ِ ثانی کرتا ہے۔ آخر میں"بیورو آف کریکولم " بھی کتاب پر نظر ِ ثانی کرتا ہے۔

 

اگر جماعت ِ ہشتم تک کی کتابیں تبدیل ہوتی ہیں تو اس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا ، کیوں کہ ہمارے ہاں اکثر پرائیویٹ اسکول کے مالکان آٹھویں جماعت تک پرائیویٹ پبلشرز کی کتابیں چلاتے ہیں، لیکن جب نویں ، دسویں جماعتوں  کی کتابیں تبدیل ہوتی ہیں تو بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ جو اسکول مالکان آٹھویں جماعت تک نجی پبلشرز کی کتابیں چلاتے ہیں ، انھیں جماعت نہم اور دہم میں مجبوراً سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں چلانی پڑتی ہیں، کیوں کہ ان کے اسکول بورڈ سے رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور بورڈ والے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں سے پرچے بناتے ہیں۔

 

اس وقت ستمبر کا مہینا چل رہا ہے اور کراچی میٹرک بورڈ کے امتحانات اپریل یا مئی  میں متوقع ہیں۔ کورونا کی وبا اور پے درپے لاک ڈاؤن کی صورت حال نے تعلیم کا بیڑا پہلے سے غر ق کر دیا ہے۔ ایسے موقع پر ایک ساتھ بغیر اطلاع دیے  اتنی ساری کتابوں کا تبدیل کر دینا اور تاخیر سے کتابوں کی اشاعت کرنا عجیب محسوس ہوتا ہے۔اگر پہلے سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا توبہتر ہوتا۔ مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔بلکہ اس سال کتابیں تبدیل ہی نہ کی جاتیں تو اچھا ہوتا۔ والدین کورس خرید چکے ہیں۔ اب ان پر اضافی بوجھ پڑے گا۔بچے بھی دس سے پندرہ فی صد تک پرانی کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ اب انھیں نئے سرے سےپڑھنا پڑے گا۔اسلامیات کی کتاب کی تعداد ِ اشاعت 60 ہزار، طبیعیات کی 70 ہزار ہےاور ریاضی کی صرف 25 ہزار ہے۔ جب کہ لاکھوں بچے بورڈ کے پیپرز دیتے ہیں۔ کم تعداد میں کتابیں شائع کرنے کی وجہ سے بہت جلد کتابیں ختم ہو جاتی ہیں۔ شنید ہے کہ اسلامیات کی کتاب جو پچھلے مہینے شائع ہوئی تھی، اب بازار میں نہیں ہے۔ دوکان دار بتاتے ہیں کہ انھیں صرف پانچ کتابیں دی جاتی ہیں اور اس کے لیے بھی انھیں لائن لگنا پڑتا ہے۔

 

سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں معیاری ضرور ہوتی ہیں، لیکن بروقت مارکیٹ میں نہیں آتیں ۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ کتابوں پر اتنا منافع بھی نہیں دیتا ۔ جسکی وجہ سے پرائیویٹ پبلشرز بازی لے جاتے ہیں ۔پرائیویٹ پبلشرز کی کتابیں بر وقت دست یاب ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ پبلشرز پھل پھو ل رہے ہیں اور پروان چڑھ رہے ہیں۔

 

گزارشات

·        سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سوشل میڈیا پر فعال نہیں۔اس کی اشد ضرورت ہے۔ اگر سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے سے اس بات کی اطلاع دی جا تی کہ کتابیں تبدیل کی جا رہی ہیں تو والدین تاخیر سےکورس  خریدتےاور ان پر پیسوں کا اضافی بوجھ نہ پڑتا۔ اس لیے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے عہدیداران کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا  سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ، تاکہ والدین ، اساتذہ اور طلباءکو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور انھیں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی تمام تعلیمی سرگرمیوں کا علم ہو سکے۔

·        سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ویب سائٹ میں اکثر اہم کتابیں نہیں ہیں۔بہتر یہ ہے کہ پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کی تمام کتابیں  اپ لوڈ کی جائیں ۔اس وقت ، جب کہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، باربار سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی آفیشل ویب سائٹ کھولنے کی کوشش کر رہا ہوں،  لیکن ویب سائٹ نہیں کھل رہی۔ کچھ دن قبل مجھے جماعت دہم کی حیاتیات، جماعت نہم  کی طبیعیات  اور کیمیا کی کتابیں بھی کسی اور ذرائع سے موصول ہوئیں۔ یہ کتابیں مجھے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی آفیشل ویب سائٹ سے نہ مل سکیں۔یہ جدید دور ہے، اس لیے ویب سائٹ کو معیاری بنایا جا ئے۔

·        کوشش کی جائے کہ سیشن شروع ہونے سے قبل ہی کتابیں مارکیٹ میں دست یاب ہوں، تاکہ طلباء   کی پڑھائی میں کوئی حرج نہ آئے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ بچوں کو تاخیر سے کتابیں مل رہی ہیں۔ اب تو تقریباً ہر سال ایسا ہی ہور ہا ہے۔ تاخیر سے کتابیں دست یاب ہونے کی وجہ سے پڑھائی میں شدید مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔بچے پورا کورس نہیں پڑھ پاتے کہ امتحان سر پر آجاتے ہیں۔ اس مرتبہ  صورت حال پہلے سے زیادہ  گمبھیر ہے، کیوں کہ  بہ یک وقت نویں اور دسویں جماعتوں کی چھے کتابیں تبدیل ہوئی ہیں، اور تقریباًآدھاسال گزر چکا ہے۔

·        سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں پورے سندھ میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اس لیے ان کتابوں کو ہزاروں نہیں ، بلکہ لاکھوں کی تعداد میں شائع کی جائیں۔ایک پبلشر کو کا م سونپنے کے بجائے تین سے چار پبلشرز سے کو کام دیا جائے۔ اس طرح کتابیں لاکھوں میں شائع ہو ں گی تو طلباء کے لیے پورا سال کتابیں دست یاب ہوں گی۔ اب چوں کہ کتابیں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو تی ہیں، جس کی وجہ سے ایک مہینے میں ہی کتابیں ختم ہوجاتی ہیں اور طلباء کو پڑھائی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

·        سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں نہایت معیاری ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں پرائیویٹ پبلشرز کی کتابوں سے بھی زیادہ معیاری ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کو آٹھویں جماعت تک کوئی پزیرائی نہیں ملتی۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کی کتابوں میں منافع نہیں دیا جاتا۔ اگر کتابوں  کو تھوڑا سا مہنگا کر دیا جائے اور پرائیویٹ پبلشرز کی طرح سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ بھی 25 سے 30 فی صد تک منافع دینا شروع کردے تو اس ادارے کو خاطرخواہ مالی فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ کتابوں کی رسائی بروقت کی جائے۔

    میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے