مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی کا احوال

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

عقیدہ ِ ختم نبوت مسلمانوں کا بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ اس عقیدے کے مطابق حضور ِ اکرم ﷺ اللہ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد تا قیامت کوئی نبی کسی بھی صورت میں نہیں آسکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جھوٹے مدعیان ِ نبوت کے خلاف جہاد کے لیے لشکر بھیجے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو خلیفہ ِ اول پہلے مجاہد ِ ختم ِ نبوت ہیں۔

 

1900ء میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ہندوستان کی سرزمین پر نبوت کا اعلان کیا۔ چوں کہ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی، اس لیے مسلمان ان کے خلاف خلاف علانیہ کارروائی نہ کر سکے، لیکن علمی میدان میں کافی کام کیا۔ بہت سے علماء کرام نے اپنے آپ کو دفاع ِ ختم ِ نبوت کے لیے وقف کر دیا۔

 


یہ علماء اکرا م کی پر خلوص  کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ 7ستمبر1974ء  کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے مابین طویل جر ح کے بعد  قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ واضح رہے کہ قادیانیوں کو اپنا موقف بیان کرنے کا بھر پور موقع دیا گیا۔ اس وقت پاکستان کے وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔

میں اس موضوع پر ایک تحریر پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ جس میں 7 ستمبر 1974ء کی تحریک کا احوال ہے۔ وہ تحریر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

آج کی تحریر میں بانیِ قادیانیت کا ذکر کیا جائے گا،کیوں کہ  قادیانیت کو سمجھنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

 

ابتدائی حالات

علامہ  ثناء اللہ امرت سری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب "تریاق القلوب " کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ وہ 1845ء میں  پیدا ہوئے، مگر مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق وہ 1839ء یا 1840ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے سن ِ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ان کے والد کا نام حکیم مرزا غلام مرتضیٰ ، دادا کا نام عطا محمد اور پردادا کا نام گل محمد تھا۔خاندان مغل برلاس تھا۔مرزا غلام احمد نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی۔اس کے علاوہ مولوی فضل الٰہی ، مولوی فضل احمد ان کے اساتذہ میں سے ہیں۔سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں مولوی گل علی شاہ کو ان کی تعلیم کے لیے ملازم رکھا گیا، جن سے انھوں نے نحو ، منطق اور حکمت کی چند کتب پڑھیں۔ طب کی کتابیں اپنے والد سے پڑھیں ، جو ایک حاذق طبیب تھے ۔ثابت نہیں کہ کسی مشہور درس گاہ سے انھوں نے تعلیم حاصل کی ہو۔ جوان ہو کر تلاش ِ معاش میں نکلے تو  سیال کوٹ کی کچہری میں محرر ہو گئے۔ وہاں ان کی تنخواہ پندرہ روپے ماہانہ تھی۔ ان کو مناظروں سے بڑا شغف تھا۔اس لیے سیال کوٹ میں دوران ِ ملازمت فارغ اوقات میں مسیحیوں سے مناظرے اور مباحثے کرتے تھے۔ سیال کوٹ سے ہی  بہ غرض ِ ترقی قانونی مختار کا امتحان دیا، مگر کام یاب نہ ہو سکے۔ 1868ء میں ملازمت سے استعفا دے کر قادیان آگئے اور زمینداری کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔

مرزا غلام احمد کو زمانہ ِ طالب علمی سے ہی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا بہت شوق تھا ۔وہ خود لکھتے ہیں:

"ان دنوں میں مجھےکتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔"(کتاب البریہ)

ملازمت سے فراغت کے بعد وہ زمینداری کے ساتھ ساتھ زیادہ تر وقت قرآن مجید  پر تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کو دیکھنے میں صرف کرتے تھے۔

 

براہین ِ احمدیہ

مہدیت کا دعویٰ کرنے سے پہلے ان کی تصانیف دفاع ِ مذہب پر مبنی  ہوتی تھیں۔ یہ مذہبی مناظروں کا دور تھا۔ ایک طرف عیسائی پادری مسیحی مذہب کی دعوت و تبلیغ میں مصروف عمل تھے تو دوسری طرف آریا سماجی مبلغ بڑے جوش و خروش کے ساتھ دین ِ اسلام کی تردید کر رہے تھے۔ مرز اغلام احمد نے اس زمانے میں "براہین ِ احمدیہ" کے نام سے کتاب تصنیف کی۔ 1879ء میں انھوں نے اس کتاب کو لکھنے کا آغاز کیا۔یہ ضخیم کتاب پہلی بار چار حصوں میں شائع ہوئی ۔اس کتاب کا پہلا حصہ 1880ء میں، دوسراحصہ 1881ء میں،تیسرا حصہ 1882ء میں اور چوتھا حصہ 1884ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے مرزا صاحب نے بذریعہ اشتہار مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ "براہین ِ احمدیہ"  میں دلائل و براہین کے ساتھ دین ِ اسلام کا دفاع کیا جائے گا، مگر جب کتاب شائع ہوئی تو یکسر مختلف تھی۔ اس کتاب میں مرزا غلام احمد نے  لکھا  کہ وہ اسلام کی صداقت ظاہر کر نے کے لیے خدا کی طرف سے مامور ہیں اور تمام اہل ِ مذاہب کو مطمئن کر نے کے لیے تیار ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب ان  کے بہت سارے الہامات، کشف اور مکالمات خداوندی پر  بھی  مشتمل ہے۔ کتاب کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے بعد الہام کا سلسلہ نہ منقطع ہوا ہے ، نہ ہونا چاہیے۔ اس الہام کے بقاء و تسلسل کے سلسلے میں انھوں نے بہ طور ِ نمونہ اپنے طویل الہامات کا ایک سلسلہ نقل کیا ہے۔ اس کتاب سے مرزا صاحب کو بہت شہرت ملی۔ مرزا بشیر احمد "سیرت المہدی " میں لکھتے ہیں:

"براہین کی تصنیف سے پہلے حضرت مسیح موعود ایک گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے اور گوشہ نشینی میں درویشانہ حالت تھی۔ گو براہین سے قبل بعض اخباروں میں مضامین شائع کرنے کا سلسلہ آپ نے شروع فرما دیا تھا اور اس قسم کے اشتہارات سے آپ کا نام ایک گونہ پبلک میں بھی آگیا تھا مگر بہت کم … دراصل مستقل طور پر "براہین احمدیہ" کے اشتہار نے ہی سب سے پہلے آپ کو ملک کے سامنے کھڑا کیا اور اس طرح علم دوست اور مذہبی امور سے لگاؤ رکھنے والے طبقہ میں آپ کا انٹرو ڈکشن ہوا اور لوگوں کی نظریں اس دیہات کے رہنے والے گمنام شخص کی طرف حیرت کے ساتھ اٹھنی شروع ہوئیں جس نے اس تحدّی اور اتنے بڑے انعام کے وعدے کے ساتھ اسلام کی حقانیت کے متعلق ایک عظیم الشان کتاب لکھنے کا اعلان کیا، اب گویا آفتاب ہدایت جو لاریب اس سے قبل طلوع کر چکا تھا، افق سے بلند ہونے لگا۔ اس کے بعد براہینِ احمدیہ کی اشاعت نے ملک کے مذہبی حلقہ میں ایک غیر معمولی تموّج پیدا کر دیا۔ مسلمانوں نے عام طور پر مصنف براہین کا ایک مجدد ذی شان کے طور پر خیر مقدم کیا اور مخالفین اسلام کے کیمپ میں بھی اس گولہ باری سے ایک ہلچل مچ گئی۔"

 

مسیح ِ موعود کا دعویٰ

1891ء میں مرزا غلام احمد نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بذریعہ اشتہارکیا۔ مسیح موعود کا مطلب ہوتا ہے : ایسا مسیح جس کے آنے کا وعدہ کیا گیا ہو۔اسلامی تعلیمات کے مطابق مسیح موعود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ جو قرب ِ قیامت کے قریب تشریف لائیں گے۔ اور دجال کا مقابلہ کریں گے۔ مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ وہی تمثیل ِ مسیح اور مسیح ِموعود ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ (نعوذ باللہ) انھوں نے یہ دعویٰ اپنی کتاب "فتح ِاسلام" میں کیا ۔ وہ لکھتے ہیں:

"سو اس عاجز کو اور بزرگوں کی فطرتی مشابہت سے علاوہ جس کی تفضیل براہین ِ احمدیہ میں بہ بسط تمام مندرج ہیں حضرت مسیحؑ کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اور اسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا۔تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ ۔۔۔میں آسمان سے اترا ہوں ۔ ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔"

"توضیح مرام" میں  لکھتے ہیں:

"مسلمانوں اور عیسائیوں کا کسی قدر اختلاف کے ساتھ یہ خیال ہے کہ حضرت مسیح بن مریم ؑ اس عنصری وجود سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر وہ کسی زمانہ میں آسمان سے اتریں گے۔ میں اس خیال کا غلط ہونا اپنے اسی رسالہ میں لکھ چکا ہوں کہ اس نزول سے مراد درحقیقت مسیح بن مریم ؑ کا نزول نہیں  بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل ِ مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے جس کا مصداق حسب اعلام و الہام یہی عاجز ہے۔"

تاریخ بتاتی ہے کہ مرزاغلام احمد  کو مسیح موعود کا دعوا کرنے کی طرف  حکیم نور الدین بھیروی نے رغبت دلائی تھی۔ حکیم  نور الدین   مرزا غلام احمد   کے اولین مرید تھے اوران کے انتقال کے بعد ان کے جانشین ہوئے۔ جب حکیم نورالدین نے مرزا غلام احمد کو مسیح موعود کا دعویٰ کرنے کے لیے خطوط لکھے تو اول اول انھوں نے امنع کیا ، مگر بعد میں وہ اس طرف مائل ہوگئے۔

 

نبوت کا دعویٰ

ظِلّی و بُروزی نبی

مرزا غلام احمد نے 1900ء میں اپنے نبی ہونے کا دعوا کیا۔ 1900ء کے بعد کی اپنی تصانیف میں وہ جا بجا اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان پر وحی کا نزول ہوتا ہے، جس طرح پیغمبر اکرام علیہم السلام پر ہوتا تھا۔ اپنے رسالے "تحفۃ الندوہ " میں لکھتے ہیں:

"پس جیسا کہ میں نے بار بار بیان کردیا ہے کہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں  یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہےاور میں خدا کا ظِلّی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہےاور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھیراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اورنہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے وہ آسمان پر قابل ِ مواخذہ ہےکیونکہ جس امر کو اس نے اپنے وقت پر قبول کرنا تھا رد کر دیا۔ میں صرف یہ نہیں کہتا کہ میں اگر جھوٹا ہوتا تو ہلاک کیا جا تابلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ موسیٰ و عیسیٰ اور داؤد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی طرح میں سچا ہوں اور میری تصدیق کے لئےخدا نے دس ہزار سے زیادہ نشان دکھلائے ہیں۔ قرآن نے میری گواہی دی ہے۔ پہلے تینوں نے میرے آنے کا زمانہ متعین کر دیا ہےکہ جو یہی زمانہ ہےاور قرآن بھی میرے آنے کا زمانہ متعین کرتا ہےکہ جو یہی زمانہ ہے اور میرے لئے آسمان نے بھی گواہی دی ہے اور زمین نے بھی ، اور کوئی نبی نہیں جو میرے لیے گواہی نہیں دے چکا۔"

 

ظِلّی اور بُرُوزی نبی کا مطلب

مذکورہ بالا اقتباس میں مرزاغلام احمد   نے دو الفاظ استعما ل کیے ہیں: ظلی اور بروزی۔

ظل  عربی میں سائے کو کہتے ہیں۔ قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد نبی کریم ﷺ کی اتباع کی وجہ سے آپ کا سایہ ہوگئے۔ (نعوذ باللہ)  گویا دونوں کی ذات متحد ہو گئی۔خطبہ الہامیہ میں مرزا صاحب لکھتے ہیں: "میرا اور ان کا وجود ایک ہی ہوگیا۔"

بُرُوز عربی میں ظہور کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی چھپی ہوئی چیز کے نظر آنے کا عمل یا کیفیت بُروز ہوتی ہے، جب کہ بُرُوزی کا مطلب ہوا: اصل کا دوبارہ ظہور ہونا۔اب بروزی نبی کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ِ اکرم ﷺ مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں دوبارہ ظاہر ہو گئے۔(استغفر اللہ)

مرزا غلام احمد   "ایک غلطی کا ازالہ " میں لکھتے ہیں:

"مجھے بروزی صورت میں نبی و رسول بنایا گیااور اس بناء پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں ۔میرا نفس درمیان میں نہیں، بلکہ محمد ﷺ کا ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور حامد ہوا۔ پس نبوت و رسالت کسی اور کے پاس نہیں گئی ۔ محمد کی چیز محمد کے پاس رہی۔"

مستقل نبوت کا دعویٰ

مرز ا غلام احمد قادیانی نے خود کو ظلی و بروزی نبوت تک محدود نہیں کیا ، بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھا یا اورمستقل صاحب ِ شریعت نبی ہونے کا دعوا کر دیا۔ انھوں نے "اربعین "میں تشریعی یا صاحب ِ شریعت نبی کی تعریف کی ہے کہ جس کی وحی میں امر و نہی ہو اور وہ کوئی قانون مقرر کرے۔ انھوں نے جہاد کا حکم منسوخ کر دیا۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے آپ کو صاحب شریعت اور صاحب ِ امر و نہی نبی سمجھتے تھے۔ "تبلیغ ِ رسالت " میں لکھتے ہیں:

"آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم کی نافرمانی کرتا ہے، جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہوجائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا۔"

 اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔

   میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے