7ستمبر یومِ تحفظِ ختمِ نبوت

 

7ستمبر 1974ء کو  پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔

 

قادیانیوں کو غیر مسلم قراردینے میں ہر مکتبہ فکر کے علماء نے بھر پور جدوجہد کی ۔ہر قسم کی فرقہ واریت کو بالائے طاق رکھ کر عقیدہ ِ ختم ِ نبوت کے دفاع کے لیے یک جا ہوگئے۔

 

30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے ایک قرار داد پیش کی۔جس پر مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالمصطفی الازھری، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالحق، چوہدری ظہور الٰہی، شیر باز خان مزاری، مولانا محمد ظفر احمد انصاری، احمد رضا قصوری سمیت چالیس کے قریب ممبرانِ اسمبلی نے دستخط کیے۔

 

اس قرارداد میں کہا گیا کہ قادیان کے آں جہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے حضور نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے بعد اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔لہٰذا اسمبلی مرزا قادیانی کے پیروکار قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر پاکستان کے آئین میں ضروری ترمیم کرے۔

 

قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث شروع ہوئی اور جس طرح کہ طے کیا گیا تھا کہ مرزائی اور لاہوری پارٹی کے بیانات تحریراً لیے جائیں گے اور انہیں زبانی بھی اپنی صفائی کا موقع دیا جائے گا۔ اس کے مطابق قادیانی اور لاہوری گروپ دونوں نے اپنے محضر نامے قومی اسمبلی میں علاحدہ علاحدہ پیش کیے۔

 

ان کے جواب میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی ''قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف '' کے نام سے اپنا تفصیلی موقف پیش کیا۔ مولانا یوسف بنوری کی قیادت میں یہ موقف دو حصوں پر مشتمل تھا۔

 

ایک حصہ مذہبی مباحث پر مشتمل تھا، جسے مولانا محمد تقی عثمانی نے مرتب کیا، دوسرا حصہ قادیانی سیاست اور ان کے عزائم کے بارے میں تھا جسے مولانا سمیع الحق نے مرتب کیا۔

 

ان دو حضرات کی معاونت کرتے ہوئے مولانا محمد شرف جالندھری، مولانا محمد حیات، مولانا تاج محمود او رمولانا عبد الرحیم اشعر نے حوالہ جات کی ترتیب وتدوین کا کام کیا۔

 

 

 

دن میں جتنا کام مرتب کیاجاتا سید نفیس شاہ صاحب الحسینی اس کی کتابت کرتے، جتنا حصہ لکھا جاتا مولانا مفتی محمود ، چوہدری ظہور الٰہی اور مولانا شاہ احمد نورانی اسے سن لیتے اور مناسب ترمیم وضافہ کے بعد اسے پریس بھیج دیا جاتا اس طرح امت اسلامیہ کا ایک مکمل اور مدلل مؤقف سامنے آگیا۔

 

یہ کتاب قومی اسمبلی کے تمام اراکین میں تقسیم کی گئی، مفتی محمود  نے اسے قومی اسمبلی میں پڑھ کر سنایا۔ اسی موقف میں اصولی طور پر قادیانی اور لاہوری گروپ کی طرف سے پیش کیے گئے محضر نامے کے جوابات آگئے تھے لیکن باقاعدہ شق وار جواب مولانا غلام غوث ہزاروی  نے دیے۔

 

قادیانی اور لاہوری گروپ نے صرف تحریری طور پر ہی اپنا موقف پیش نہیں کیا بلکہ انہیں زبانی بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا  قادیانی گروپ کی طرف سے قادیانیوں کےسربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں پیش ہوئے۔

 

5سے 10اگست اور 20سے 24اگست تک ان گیارہ دنوں میں 42گھنٹے مرزا ناصر پرجرح ہوئی۔ لاہوری پارٹی کی طرف سے ان کے سربراہ مسٹر صدر الدین پیش ہوئے 27، 28اگست کو ان کا بیان ہوا اور ان پر 7گھنٹے جرح ہوئی۔

 

صدر الدین چونکہ کافی بوڑھے تھے پوری طرح بات بھی سننے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کا بیان میاں عبد المنان عمر کے ذریعے ہوا۔

 

گواہوں پر جرح اور ان سے سوالات کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو متعین کیا گیا انہوں نے پوری قومی اسمبلی کی اس سلسلہ میں معاونت کی اور بڑی محنت و جانفشانی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔

 

قومی اسمبلی کے ممبران اپنے سوالات لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیتے تھے اور وہ سوالات کرتے تھے، اس سلسلہ میں مفتی محمود ، مولانا ظفر احمد انصاری اور دیگر حضرات نے اٹارنی جنرل کی معاونت کی۔بالآخر پوری جرح بیانات اور غورو خوص کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔

پانچ اور چھے ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے دو روز تک اراکین قومی اسمبلی کے سامنے اپنا مفصل بیان پیش کیا۔

 

7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس کو پولیس اور فوج نے گھیر رکھا تھا۔ 4 بجے فیصلہ کن اجلاس ہوا اور 4 بج کر 35 منٹ پر قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔

 

دستور کی دفعہ 260 میں اس شق کا اضافہ اس طرح درج ہے:
جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو, وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں"۔

 

عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس سلسلے میں آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا ۔

 

یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا۔

 

قرارداد جب بھٹو صاحب کے پاس منظوری کیلئے گئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ لاؤ آج میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر دوں۔

 

بطور وزیر اعظم یہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ایک اور بہت بڑی تاریخ ساز کامیابی تھی کیونکہ انہوں نے پوری قوم کو ساتھ ملا کر ایک نوے سالہ پرانے مذہبی مسئلہ کو حل کر دیا تھا۔


تحریر: نعیم الرحمان شائق

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے