مصوّر علی بلوچ مرحوم۔۔۔کچھ یادیں کچھ باتیں

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

پچھلے چند ہفتوں سے میں سورۃ الحجرات پر لکھ رہا تھا، مگر اب کے ایک سانحہِ جاں کاہ نے میری ساری توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیاہے۔ یہ سانحہ صحافی، ادیب، شاعر اور استاد  ، محترم سر مصور علی بلوچ کی  مرگ ِ نا گہاں کا ہے۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں ان کے بارے میں  لکھوں۔ آج کی تحریر میں کوشش کروں گا کہ وہ لکھوں، جو میرے ذہن میں ان کے بارے میں محفوظ ہے۔



نہ جانے جب بھی کسی ایسے شخص کی موت واقع ہوتی ہے، جو میرے بہت قریب ہوتا ہے تو مجھے آغا شورش کا شمیری کی وہ نظم کیوں یاد آجاتی ہے،جو انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر کہی تھی؟ مولانا وحید الدین خان رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر میں نے جو بلاگ لکھا تھا، اس میں بھی یہ نظم لکھی تھی۔ آج سر مصور علی بلوچ کے انتقال پر بھی مجھے رہ رہ کر وہ نظم یاد آرہی ہے۔  سولکھ ہی دیتا ہوں:

عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

زمیں کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تری جدائی پہ مرنے والے وہ کو ن ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے



اگر چہ حالات کا سفینہ اسیر ِ گرداب ہو چکا ہے

اگر چہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے

اگر چہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سو چکا ہے

مگر تری مرگ ِ نا گہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

 

کئی دماغوں کا ایک انساں، میں سوچتا ہوں کہا ں گیا ہے

قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے، زباں کا زور ِ بیاں گیا ہے

اتر گئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا؟ کارواں گیا ہے

مگر تری مرگ ِ نا گہاں کا مجھے ابھی تک یقیں  نہیں ہے

 

یہ کون اٹھا کہ دَیر و کعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہنچے

جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم، خواص پہنچے، عوام پہنچے

تری لحد پر خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے

مگر تری مرگ ِ نا گہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

 

سرورِ کائنات ﷺ کی حدیث ِ مبارکہ ہے: "فوت شدہ لوگوں کو بُرا مت کہو، کیوں کہ انھوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پا لیا۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر 1393)

ایک اور حدیث ِ  مبارکہ کچھ اس طرح ہے: " تم اپنے فوت شدہ لوگوں کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو۔(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4900)

درج بالا  احادیث سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنےفوت شدہ لوگوں کی برائیوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ان کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔

سر مصور علی بلوچ کا تعلق کراچی کے علاقے لیا ری سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بہ یک وقت ایک معلم، ادیب، شاعر اور صحافی تھے۔ اتنی ساری صلاحیتوں کا ایک شخص میں جمع ہوجانا لاریب کمال کی بات ہے۔

 

میری اور ان کی پہلی ملاقات آج سےتقریباً آٹھ سے نو سال قبل لیاری میں واقع اسکول نوبل اکیڈمی میں ہوئی تھی۔ گومیں اس سے پہلے بھی ان کے نام سے واقف تھا، مگر آمنے سامنے پہلی بار ملاقات ہورہی تھی۔ اس پہلی ملاقات میں میں نے محسوس کیا کہ ان کے ظاہرو باطن میں بہت فرق ہے۔ ان کا باطن دین ِ اسلام کی محبت سے لبریز ہے اور ان کی باتوں سے دین ِ اسلام اور مسلمانوں کی حالت ِ زار کے بارے میں وہ موتی جھڑ رہے تھے، جن میں سے چند تو میں پہلی بار چن رہا تھا۔انھوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں اپنی نظم بھی سنائی۔

 ہماراالمیہ ہے کہ ہم کسی بھی شخص کے ظاہر کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اس کا باطن بھی ایسا ہی ہوگا۔یہاں پھر مجھے آقا علیہ السلام کا ایک فرمان یاد آگیا۔ سرکار ِ دو جہاں ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نہ تمھارے جسموں کو دیکھتا ہے، نہ تمھاری صورتوں کو۔ لیکن وہ تمھارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے۔ " (صحیح مسلم، حدیث نمبر2564)

یعنی ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم کسی کی ظاہری صورت پر نظر کر کے اسے برا سمجھنے لگیں۔ ہمیں کیا معلوم ، کہ ربّ ِ کریم کے ہاں اس کا کیا مقام ہے۔

جن دنوں سر مصور مرحوم القادر اسکول میں پڑھاتے تھے تو دوپہر کو ان سے راستے میں اکثر میری ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ میں  اس وقت پرائڈ زون اکیڈمی میں  جارہا ہوتا تھا اور وہ شاید نوبل اکیڈمی میں۔ اکثر بات چیت ہوتی۔ان دنوں میں  نے لکھنا ترک کررکھا تھا۔ مصور صاحب مجھے تحریک دلاتے اور لکھنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ۔ بسا اوقات لکھنے کے حوالے سے ضروری باتیں بھی بتاتے اور میں ان کی باتوں سے کافی حد تک مستفید ہوتا۔

اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ سوشل میڈیا پرکافی  حد تک متحرک ہوگئے۔ گو وہ پہلے بھی تھے۔ لیکن اب زیادہ ہوگئے۔ پھر انھوں نے وش نیوز  کوجوائن کیا اور اہم شخصیات کے انٹر ویوز لیے۔ان کے پروگرام کا نام "مئے کراچی " تھا۔ "مئے کراچی"ان کا ایک عظیم کار نامہ ہے، جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سر مصور علی بلوچ صاحب  میں بلا کی خود اعتمادی تھی، جس کا منھ بولتا ثبوت "مئے کراچی"کے پروگرام ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت اچھے مقرر بھی تھے۔ ان کی تقریروں کے ایک ایک لفظ سے خود اعتمادی جھلکتی تھی۔

بعد میں میں نے انھیں "سلامتی نیوز" میں جگمگاتے دیکھا۔ وہ جس طرح خوب لکھتے تھے، اسی طرح خوب بولتےتھے۔ "سلامتی نیوز" کو بھی انھوں نے اچھے اچھے  اور معلوماتی پرگرامز دیے۔ وفات سے ایک دوروز قبل ان کا آخری پرگرام بھی "سلامتی نیوز " پر دیکھا گیا۔

میری ایک عادت ِ بد یہ ہے کہ   میں ہر شے پر تنقیدی نگاہ ڈالتا ہوں۔ خاص طور پر علمی مواد کو۔ ایک بار سر مصور علی نے اپنی کوئی نظم یا غزل فیس بک پر پوسٹ کی تو مجھے اس میں کچھ جھول محسوس ہوا۔  ادب کا تقاضا یہ تھا کہ میں خاموش رہتا ۔ مگر میں نے کمنٹ بکس میں لکھ دیا کہ فلا ں شعر بے وزن ہے اور ان کی طرف سے ایک ایک گرما گرم قسم کے کمنٹ کا انتظا ر کرنے لگا۔ مگر مجھے  اس وقت حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا، جب  انھوں نے میرے اس کمنٹ کو سراہا۔  بار ہا ایسا ہوا کہ لوگ ان پر کمنٹ کے ذریعے تنقید کرتے، مگر وہ انھیں نہایت نرمی سے جواب دیتے۔

ایک بار  میں نے انھیں اپنے بلاگ کا لنک سینڈ کیا تو انھوں نے بلاگ کی چند تحریر یں پڑھ کر جواب دیا : "ما شاء اللہ مختار ثقفی کے بارے میں بلاگ بہت معلوماتی ہے۔"

ان سے میری آخری ملاقات مورخہ پانچ دسمبر 2021ء کو گل ِ نور اسکول میں ہوئی۔ یہ در اصل عبد العزیز آسکانی صاحب کی کتاب کی  تقریب رونمائی تھی۔ وہ مجھ سے پچھلی سیٹ میں بیٹھ گئے۔ میں نے انھیں سلام کیا۔ خاصے کم زور لگ رہے تھے۔ چوں کہ وہ مہمان ِخصوصی تھے، اس لیے بعد میں انھیں اسٹیج پر بلایا گیا۔ جاتے ہوئے وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملے اور کہا: "ماشاء اللہ خوب لکھ رہے ہو۔لکھتے رہا کرو۔" پھر وہ ہمیشہ کی طرح مسکرا دیے۔ اگر چہ بیماری کی وجہ سے  ان کی آواز میں لغزش تھی،مگرچہرہ پھر بھی کھلکھلا رہا تھا۔

 

معلوم ہوا ہے کہ جان جان آفریں کو سپرد کرنے سے قبل انھوں نے کلمہ طیبہ پڑھا۔ ربّ العالمین انھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر ِ جمیل عطا فرمائے۔(آمین)


      میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے