منٹو کا نادر ونایاب خط، لیاری کے ذوقی بلوچ کے نام

 تحریر و تحقیق: نعیم الرّحمان شائق

ایک مرتبہ ایک اخبار کے دفتر میں جانا ہوا۔ مدیر صاحب نے مجھے اخبار دکھایا۔میری ایک  بُری عادت یہ ہے کہ میں ہر شے کوتنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ مصلحت  آڑے نہ آئے تو بلا جھجھک کہہ دیتا ہوں کہ صاحب آپ نے یہاں غلطی فرمائی ہے۔ تصحیح کر لیجیے۔ بعض اوقات شرمندگی اٹھانی پڑ جاتی ہے، مگر عادت سے مجبور ہوں۔ کیا کروں؟مدیر صاحب نے جب مجھے اخبار دکھا یا تو اس میں سعادت حسن منٹو کے افسانے کا ایک اقتباس بھی شامل تھا، مگر غلطی یہ تھی کہ "سعادت حسن منٹو" کی بہ جائے "سعادت حسین منٹو" لکھا ہوا تھا۔ یعنی "حسن" کو "حسین" لکھ دیا گیا۔ میں نے فوراً مدیر صاحب کی توجہ اس غلطی کی جانب مبذول کرائی۔ انھوں نے کمپوزر کو بتایا کہ اس نے یہ غلطی کی۔ کمپوزر نے ہنستے ہوئے جواب دیا،"سر کیا ہو ا جو میں نے "حسن " کی جگہ" حسین " لکھ دیا۔ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں بھائی ہی تو تھے۔ "اس پر سب ہنس پڑے۔ میں سعادت حسن منٹو کے خطوط سے متعلق تحریر  کا پلاٹ بنا رہا تھا تو یہ واقعہ  یاد آگیا۔ سوچا، یہ شگوفہ یہاں سجا دوں۔



یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: اردو کی پانچ مفید علمی ویب سائٹیں 

سعادت حسن منٹو اردو ادب کی ایک قدآور شخصیت ہیں۔افسانہ نگاری میں ان کی خدمات فراموش نہیں کی جا سکتیں۔اپنے بے باک انداز ِ تحریر کی وجہ سے ہمیشہ متنازعہ رہے۔ ان کو زیادہ تر شہرت ان کے انتقال کے بعد ملی۔ وہ اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں سے ایک ہیں۔  ان کی پیدائش  11 مئی 1912ء کو انڈیا کے شہر لدھیانہ میں ہوئی۔ 18 جنوری 1955ء کو انتقال کر گئے۔قیام ِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں آگئے اور لاہور میں رہائش اختیار کی۔ جب تک وہ انڈیا میں تھے ، ان کی مالی حالت کسی حد تک اچھی تھی۔ پاکستان میں انھوں نے نہایت کس  مپرسی  کی زندگی گزاری۔یہاں وہ کتنے کرب میں تھے، اس کا اندازہ "چچا سام کے نام" منٹو کے خطوط سے لگایا جا سکتا ہے۔ بہر حال یہ ایک  الگ موضوع ہے۔ اس کی گہرائی میں نہ جانا ہی بہتر ہے۔

 یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: میری شاعری

منٹو محض 43 سال کی عمر میں ہی انتقال کر گئے۔ بعض دفعہ بڑے لوگ جلدی مر جاتے ہیں۔جیسے سکندر ِ اعظم محض 33 سال کی عمر میں چل بسے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے ادیب و شاعر حیرت انگیز طور پر جلدی مر گئے۔انگریزی کے مشہور ڈراما نویس  کرسٹوفر مار لو 29، مشہور انگریزی روما نوی شاعر جان کیٹس 25 اور معروف شاعر شیلے 29 سالوں کی عمروں میں انتقال کر گئے۔ یہ تو مغربی ممالک کے ادیبوں کی مثالیں ہیں۔اس ضمن میں اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مشہور شاعر قابل اجمیری 31، شکیب جلالی32،عبد الرّحمٰن بجنوری 33، حیات امروہی 43، نسیم لکھنوی 34، مصطفیٰ زیدی 40،پروین شاکر بھی 40،اختر شیرانی 43، مجید لاہوری 44، اسرار الحق مجاز 44 اور عظیم بیگ چغتائی 26 سالوں کی عمروں میں  داغِ مفارقت دے گئے۔

 یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے:  کیا جون ایلیا اور ناصر کاظمی کے اشعار بے وزن ہیں؟

اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جس طرح منٹو کے افسانے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں، اسی طرح ان کے خطوط بھی شائقین ِ ادب کی دل چسپی کا مرکز رہتے ہیں۔  منٹو کے خطوط پر احمد ندیم قاسمی اور محمد اسلم پرویز ممبئی نے بڑا جامع کام کیا۔ اس کے علاوہ فاروق اعظم قاسمی نے " منٹو کے نادر خطوط" کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی۔

  

احمد ندیم قاسمی نے "منٹو کے خطوط" کے نام سے ایک کتاب مرتب کی، جس میں منٹو کے  وہ خطوط جمع کیے، جو انھوں نے احمد ندیم قاسمی کے نام تحریر کیے۔ ندیم سے ان کی بہت دوستی تھی۔ اس لیے انھوں نے اپنی زندگی  میں انھی کو سب سے زیادہ خطوط لکھے۔ میری نظر سے احمد ندیم قاسمی کا جو مجموعہ گزرا ہے، اس میں آخری خط وہ ہے،جو انھوں ندیم کو فروری 1948ء میں لکھا۔

 

بھارتی مصنف محمد اسلم پرویز ،ممبئی نے "آپ کا سعادت حسن منٹو" کے نام سے منٹو کے خطوط کا ایک مجموعہ ترتیب دیا ۔ جس  کے صفحہ 11 پر وہ لکھتے ہیں:

"آپ کا سعادت حسن منٹو" منٹو کے خطوط کی یہ کتاب شروع ہوتی ہے اختر شیرانی کو لکھے گئے خط سے اور ختم ہوتی ہے مہدی علی خان کے نام لکھے گئے سفارشی خط پر۔ پہلا خط لکھا گیا تھا جنوری ۱۹۳۷ء میں جبکہ آخری خط پر ۱۷ جنوری ۱۹۵۵ء کی تاریخ ثبت ہے یعنی اپنے انتقال سے صرف ایک دن پہلے۔ پہلے اور آخری خط کے درمیان محض اٹھارہ سال کا وقفہ ہی حائل نہیں ہے بلکہ منٹو کا ذہنی اور فنی ارتقاء بھی سانسیں لے رہا ہے۔ "

 

فاروق اعظم قاسمی نے "منٹو کے نادر خطوط" کے نام  سے کتاب ترتیب دی۔ بد قسمتی سے میں یہ کتاب نہ پڑھ سکا۔ البتہ انٹرنیٹ پر اس کتاب سے متعلق ایک تبصرہ ملا، جس کے مطابق اس کتاب میں کل 33 خطوط ہیں۔اس کتاب میں کل آٹھ لوگوں کے  نام منٹو کے خطوط ہیں۔

 

 یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے طلبہ اور اساتذہ کو ہونے والے نقصانات

مجھے ایک ایسے خط کے بارے میں معلوم ہوا، جو درج بالا تینوں  کتابوں میں موجود نہیں ہے، لیکن منٹو کے آخری خطوط میں سے ایک ہے۔یہاں ایک بار پھر یہ بات واضح کردوں کہ فاروق اعظم قاسمی کی کتاب میری نظر سے نہ گزر سکی، لیکن انٹرنیٹ پر جو تبصرہ میں نے پڑھا، اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ خط اس کتاب میں بھی نہیں ہوگا۔ شاید یہ خط درج بالاتینوں مرتبین  کی نظروں سے نہ گزرا ہو، کیوں کہ جن کے نام منٹو نے یہ نامہ لکھا تھا، وہ اتنا مشہور نہیں ہیں اور کم لوگ ان کو جانتے ہیں۔ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو سے اُن کی بہت دوستی تھی۔ تبھی منٹو نے وقت ِ آخر انھیں یاد کیا۔ اس خط کی اصل تصویر (منٹو کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ) درج ذیل ہے:

 


 نوٹ: تصویر کو زوم کر کے دیکھنے کے لیے اس پر کلک یا ٹچ کریں۔ پھر زوم کریں۔

 

 

منٹو اس خط میں لکھتے ہیں:

محترم ذوقی بلوچ صاحب

اس اُمید پہ یہ نامہ لکھ رہا ہوں

  شاید یہ میری آخری تحریر ہو____

میرا آخری وقت قریب ہےمیں آپ سے اُمید کرتا ہوں  میرے آخری رسمات(میری آخری رسومات) آپ ادا کریں کیونکہ بہت ممکن ہے  کہ میری تحریروں کی وجہ سے شاید کوئی  مُلا میری میت کو غسل نہ دے اور میرا نماز ِجنازہ بھی نہ پڑھائے۔ آپ اسلام سے واقفیت رکھتے ہیں۔ دونوں کام آپ کے لئے گراں نہ ہونگے۔

آپ کے آنے تلک زندہ رہنے کی کوشش کرونگا۔

فقط آپ کا دوست

سعادت حسن منٹو

یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: آہ! مولانا وحید الدین خان! موت انھیں بھی اچک کر لے گئی

عین ممکن ہے کہ یہ منٹو کی آخری تحریر ہو۔جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں "شاید یہ میری آخری تحریر ہو"۔ مگر محمد اسلم پرویز نے منٹو کے خطوط کا جو مجموعہ شائع کیا، اس میں آخری خط وہ ہے، جو منٹو نے مہدی علی خان کے نام لکھا۔اس خط میں جو تاریخ درج ہے ،وہ 17 جنوری 1955ء  ہے، جب کہ منٹو کا انتقال اس خط کے ایک دن بعد 18 جنوری 1955ء کو ہوا۔ میرے دیے گئے خط میں تاریخ درج نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت تک ذوقی بلوچ کے نام منٹو کے اس خط کو آخری خط نہیں کہا جا سکتا، جب تک اس بارے میں ٹھوس ثبوت موجو د نہ ہو۔ ہم اس خط کو "منٹو کا آخری خط" تو نہیں کہہ سکتے، مگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ منٹو کے لکھے گئے "آخری خطوط میں سے ایک" ہے۔

 

منٹو نے یہ خط "ذوقی بلوچ" کے نام تحریر کیا تھا۔ مجھے بھی یہ خط ان کے خاندان کے ایک فرد کی وساطت سے حاصل ہوا۔ ذوقی بلوچ کا خاندان کراچی کے علاقے لیاری میں مقیم ہے۔

بسیار تلاشی کے بعد بھی مجھے انٹرنیٹ اور کتابوں میں ان کے بارے میں مستند مواد نہ مل سکا۔ جو کچھ تھوڑا بہت معلوم ہوا، وہ ان کے خاندان کےایک فرد سے معلوم ہوا۔ ان کے مطابق ان کا پورا نام داد محمد ذوقی تھا۔ 1925ء میں پیدا ہوئے اور 1957ء میں انتقال کر گئے۔ کراچی کے قدیم علاقے لیاری سے ان کا تعلق تھا۔اردو کے معروف شاعر شیخ محمد ابراہیم ذوق کی شاعری سے اُنسیت کی وجہ سے  اپنے نام کے ساتھ ذوقی بہ طور تخلص  استعمال کیا کرتے تھے۔ صاحب ِ ذوق تھے۔ شعر و شاعری بھی کرتے تھے۔ اکثر شادیوں میں سہرے بھی لکھتے تھے۔مولانا ظفر علی خان کے اخبار "زمیندار" میں  کام کرتے تھے۔ گھڑ دوڑی یعنی ریس کورس ان کا ہی نہیں، ان کے خاندان کا بھی پسندیدہ ترین مشغلہ تھا۔ ان کے خاندان کے بہت سے افراد  گھڑ دوڑی  کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ذوقی بلوچ  کبھی ممبئی، کبھی مدراس، کبھی لاہور ، کبھی دوسرے شہروں میں جایا کرتے تھے۔ چوں کہ ادب سے لگاؤ تھا، اس لیے ان شہروں میں موجود   بڑے بڑے ادیبوں سے ان کی دوستی ہو گئی تھی۔بدقسمتی سے آخری عمر میں انھیں گلے کا سرطان ہو گیا تھا۔ بول نہیں سکتے تھے۔ یہ لمحات ان کے لیے  بہت دردناک تھے۔ ان درد و رنج سے بھرے لمحات میں وہ بہت اداس رہتے تھے اور اپنی اداسی کا مداوا کرنے کے لیے شعر و شاعری کا سہارا لیتےتھے۔  گوان کے لکھے گئے اشعار اصول ِ شاعری پر پورے نہیں اترتے، لیکن ان سے ان کے اُس کرب کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جس سے وہ زندگی کے ان مشکل ترین   لمحات میں گزر رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

یہ آواز کیسی میری آواز کھو رہی ہے

اب مجھے محسوس ہو رہا ہے میں اپنا وجود کھو رہا ہوں

 

کوئی بند کرے اس  آواز کو

میں ڈر کے کانپ رہا ہوں

 

بلوچ الگ ذوقی الگ میں الگ

نہ جانے کسی بددعا کی تعبیر ہو چکا ہوں

 

تیری آواز کھو گئی تھی کہاں

تجھے چھوڑ کر اکیلے یوں جا رہے ہیں ہم

 

دل کی حالت نینوں سے دیکھو

تیرے بغیر کچھ نہیں ہم

 

لاہور بمبئی لکھنؤ مدراس کوئی کام نہ آیا آج

ہم کیا تعریف کریں سب کے لیے خوب سیرت فرشتہ تھے تم

 

تیری یاد ہمیں ستائے گی ہر پل

دنیا بدل جائے ذوقی نہیں آؤ گے تم

 

آخر کار گلے کے سرطان کے باعث انتقال کر گئے۔ ان کی وفات لاہور میں ہوئی ۔ان کے جنازے میں پاکستان بھر سے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ بعد میں ٹرین کے ذریعے ان کی میت لیاری میں لائی گئی۔ وہ میوہ شاہ قبرستان ، کراچی میں آسودہ ِ خاک ہیں۔

 

منٹو کے درج بالا خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف  مذہبی رجحان کے حامل تھے۔ تبھی منٹو جنازے  اور تجہیز و تکفین کے سلسلے میں انھیں یاد کر رہے ہیں۔

 

میری خواہش ہے کہ لیاری کے ذوقی بلوچ کے  نام منٹو کا یہ  نایاب خط منٹو کے خطوط کے کسی بھی مجموعے کی زینت بن جائے، کیوں کہ جو شے کتاب میں آجاتی ہے، تادیر رہتی ہے اور تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔  اگر متعلقہ پبلشرز یا مرتبین کی نظروں سے یہ تحریر گزرے اور پھر بھی وہ اس خط  کو کتاب میں جگہ نہ دیں تو ناانصافی ہوگی۔

تبصرے

بہہہہہہہت ہی اعلی تحریر۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔۔۔ آمین

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے