ایم اسلم صدیقی۔۔۔ لیاری کے جواں مرگ صحافی و ادیب

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

پچھلے دنوں میرے ایک فیس بک دوست عطاء اللہ لاسی صاحب نے ایم اسلم صدیقی کے بارے میں پوسٹ  کی۔  مجھےاس پوسٹ کی وساطت سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ موصوف لیاری ٹائمز کے بانی تھے اور ان کو بچھڑے ہوئے 28 سال بیت گئے۔تصویر ایک خوب صورت نوجوان کی تھی، جس سے پتا چلتا تھا کہ مرحوم جوانی میں ہی داغ ِ مفارقت دے گئے تھے۔

 


میں نے فوراً ایم اسلم صدیقی کانام 'گوگل' کیا۔ بدقسمتی سے مجھے ان کے بارے میں کوئی مواد نہ ملا۔ مجھے ایسے لوگوں کو گوگل پر لانا اچھا لگتا ہے، جنھوں نے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہو، لیکن گوگل کی پوری نگری اس سے خالی ہو۔ میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ ایم اسلم صدیقی کے بارے میں ضرور لکھوں گا۔

 یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے:فلسطینیو! ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے

لیاری کا خطہ بڑا زرخیز ہے۔ یہاں کے رہائشی غریب ہونے کے با وجود بہت محنتی ہیں۔ ایم اسلم صدیقی بھی لیاری کے ایک غریب مگر محنتی نوجوان تھے۔ وہ اخبار فروش تھے۔ صبح سویرے اٹھتے اور گھر گھر اخبار پہنچا آتے۔ان کے والد ِ محترم بھی اسی کام سے وابستہ ہیں۔ 

 

میں نےعطاء اللہ لاسی صاحب سے رابطہ کیا کہ وہ مجھے ایم اسلم صدیقی  کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ خوش قسمتی دیکھیے کہ ان کے پاس لیاری ٹائمز کے کچھ شمارے محفوظ تھے۔ کم و بیش 30 سالوں تک اخباروں کو محفوظ رکھنا بہ ذات خود ایک قابل ِ تحسین بات ہے۔ ایم اسلم صدیقی ،عطاء اللہ لاسی کے دوست تھے۔شاید یہ دوست کی محبت تھی کہ انھوں نے "لیاری ٹائمز" کے پرانے شمارے آج تک محفوظ رکھے ہوئے تھے۔مجھے جو کچھ ان اخباروں اور عطاء اللہ لاسی سے معلوم ہوا ، میں یہاں رقم کر رہا ہوں۔

 یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: منٹو کا نادر و نایاب خط، لیاری کے ذوقی بلوچ کے نام

ایم اسلم صدیقی کا تعلق نیو کمہار واڑا ،لیاری میں مقیم کچھی کمیونٹی سے تھا۔ان کااصل نام محمد اسلم اور قلمی نام ایم اسلم صدیقی تھا۔ 7 مئی 1965ء کو لیاری کے علاقے نیو کمہار واڑا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد  کانام  محمد صدیق ہے، جن کو عرف عام میں محمد سر کہا جاتا ہے۔ایم اسلم صدیقی نے انٹر تک  تعلیم حاصل کی تھی۔ "ایم اسلم "کے نام سے آج بھی نیو کمہار واڑا روڈ پرایک  بک اسٹال موجود ہے ، جو اب ان کے بڑے بھائی چلاتے ہیں۔ محمد اسلم محض28 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے دوست عطاء اللہ لاسی بتاتے ہیں کہ انھیں کوئی جان لیوا بیماری  لاحق نہیں تھی ۔ بلڈ پریشر ہائی ہوا اور انتقال کر گئے۔ان کی شادی کو محض د وسا ل ہی ہوئے تھے کہ یکم مارچ 1993ء  کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ عالم ِ فانی چھوڑ کر چلے گئے۔

 

ایم اسلم صدیقی نے لکھنے کی ابتدا مارچ 1979ء میں کی۔ان کی پہلی تحریر "مومنی" تھی۔ ابتدا میں وہ بچوں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ بعد میں وہ صحافت کی طرف آگئے۔ان کی تحریریں روزنامہ امن، جنگ، حریت ، ماہ نامہ ٹوٹ بٹوٹ، ہونہار ، بچوں کا رسالہ ، چاند ستارے، بچوں کا ڈائجسٹ وغیرہ  میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کا انداز ِ تحریر نہایت جاندار اور دل موہ لینے والا تھا، جس کی وجہ سے انھیں متعدد ایوارڈ ملے۔ ان دنوں رسالہ "ٹوٹ بٹوٹ" کافی مقبول تھا اور بہت معیاری سمجھا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب بچے کہانیاں ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ بدقسمتی سے اب انٹرنیٹ اور ملٹی میڈیا نے کہانیاں پڑھنے کا کلچر بالکل ختم کر دیا ہے۔"ٹوٹ بٹوٹ " کے سابق مدیر حنیف سحرؔلکھتے ہیں ،

"لیاری سے آنے والوں میں ایم اسلم صدیقی اور بہرام دہانی بلوچ شامل تھے۔ اکثر دونوں ساتھ آتے تھے اور ساتھ ہی کہانی لاتے تھے اور ساتھ ہی مجھ سے جھگڑتے تھے کہ ان کی کہانیاں کیوں شائع نہیں کی جا تی۔"

 "ٹوٹ بٹوٹ" کی خوبی یہ تھی کہ یہ لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ایوارڈ بھی دیتا تھا، اس لیے لکھاریوں میں مسابقت کا بڑا جذبہ پایا جا تھا۔ "ٹوٹ بٹوٹ" سے ایوارڈ لینا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ ایم اسلم صدیقی کو ٹو ٹ بٹوٹ کی طرف سے ان کی کہانی "تجربے کی قیمت " پر ایوارڈ ملا۔

 یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: اردو کی پانچ مفید علمی ویب سائٹیں

ایم اسلم کے حالات کا بہ غور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص  ادب و صحافت کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا، لیکن جس کو موت ہی مہلت نہ دے تو وہ کیا کرے۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ محمد سر کی بک اسٹال اب بھی نیو کمہار واڑا روڈ پر موجود ہے۔ یہ وہ بک اسٹال ہے جہا ں ایم اسلم صدیقی نے دوستوں کے ساتھ مل کر" درخشاں رائٹرز کلب "کی بنیاد ڈالی تھی۔بعد میں اس کا نام "درخشاں رائٹرز اکیڈمی" رکھ دیا گیا۔ اس اکیڈمی نے علم و ادب کی بہت خدمت کی۔صدیقی مرحوم  کو اپنا رسالہ نکالنے کا بہت شوق تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے دیرینہ دوستوں ،  اسلم محمود گھانچی، عبد الشکور عبد اللہ اور ایم سلیمان سے مشورہ کر کے "درخشاں میگزین" نکالا۔ اس میگزین کا پہلا شمارہ دسمبر 1989ء کو منظر ِ عام پر آیا۔ بعد میں اسی بک اسٹال سے مرحوم نے اپنے دوستوں ایم سلیمان، اسلم محمود گھانچی، محمد الیاس کھتری اور عطاء اللہ لاسی کے ساتھ مل کر 27 مارچ 1991ء کو لیاری سے پندرہ روزہ "لیاری ٹائمز" کا اجراء کیا ، جو کہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ لیاری جیسے غریب علاقے کا ایک غریب رہائشی ۔۔۔ جس کا ذریعہ ِ معاش محض اخبار فروشی ہو۔۔۔اگر دوستوں کے ساتھ مل کر اخبار جاری کر دے تو اس کارنامے کو نہ سراہنا ناانصافی ہی نہیں، ظلم ہوگا۔"لیاری ٹائمز" کے بعد لیاری سے ہنوز کوئی ایساا خبار جاری نہیں ہوا، جو اتنے موثر طریقے سے لیاری کے مسائل سے متعلق عوام کو آگاہی دے سکتا۔ لیاری کی تاریخ میں ایم اسلم صدیقی کا یہ کارنامہ ہمیشہ سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔

 یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: کیا جون ایلیا اور ناصر کاظمی کے اشعار بے وزن ہیں؟

 ہر لکھاری کی طرح ایم اسلم صدیقی کا  خواب تھا  کہ وہ اپنی شائع شدہ کہانیوں کو کتابی صورت میں لائیں۔ لیکن وائے حسرت! موت نے ان کی اس کی مہلت ہی نہ دی۔ ایم اسلم کو لیاری کی بڑی فکر لاحق رہتی تھی۔ ان کے معاصر دوست بتاتے ہیں کہ وہ بڑے حق گو صحافی تھے۔ لیاری کے مسائل اجاگر کر نے کے لیے کسی قسم کی مصلحت کا شکار نہ ہوتے تھے۔ کتاب کی اشاعت کی طرح لیاری کے موضوع پر سیمینار منعقد کرانے کی خواہش بھی ادھوری رہ گئی۔

ابھی جام ِ عمر بھرا نہ تھا، کف ِ دست ِ ساقی چھلک پڑا

رہیں دل کی دل میں حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیا

 یہ بھی زیر ِ مطالعہ لائیے: میری شاعری

ایم اسلم  صدیقی کے جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اپنی زندگی میں بہت سے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بہت سے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا۔ بہت سے لوگوں میں تحریری ذوق پیدا کیا۔اپنے علاقے لیاری سے انھیں محبت تھی۔  وہ ایک سچے صحافی تھے۔ "لیاری ٹائمز" کا اجراء کرنے کے بعد انھوں نے اپنے قلم کو لیاری کے مسائل کے لیے وقف کر دیا تھا ۔ سچائی کے ساتھ لیاری کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے۔ میں یہاں لیاری ٹائمز کے شماروں کی کچھ خبروں کی سرخیاں تحریر کر تا ہوں، جس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس جواں مرگ صحافی کو لیاری کی کتنی فکر تھی اوریہ شخص  کتنی سچائی کے ساتھ  لیاری کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتےتھے۔

·        لیاری میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر

·        لیاری میں آبادی کے درمیان کیمکلز کے کار خانے

·        لیاری کو ایک بار پھر پانی کی شدید قلت کا سامنا

·        لیاری میں پانی کے لیے زبردست مظاہرہ

·        پینے کے پانی میں زہریلے کیڑے۔ لیاری میں گندا پانی اور بلوں سے کیڑے مکوڑے آنا معمول بن چکا ہے۔

·        لیاری جنرل ہسپتال کی زمین پر کارخانے داروں کا قبضہ

·        لیاری آج تک تمام بنیادی سہولتوں سے محروم رہا ہے۔

·        پرائمری اساتذہ کی آسامیوں کے لئےلیاری سے تمام امیدوار نظر انداز

·        بارشوں کے بعد لیاری میں ۸۰ فیصد مین ہولوں کے ڈھکن غائب ہوچکے ہیں۔

 

آخر میں میری طرف سے دو گزارشات ہیں:

پہلی گزارش:

ایم اسلم صدیقی کی وفات پر سینئر صحافی ، شاعراور روزنامہ جنگ کے سابق مدیرمحمود شام نے تاثرات دیتے ہوئے لکھا تھا:

 "لیاری ٹائمز" ایم اسلم صدیقی مرحوم کی یاد دلاتا رہے گا۔لیاری والے احسان مند لوگ ہیں۔ وہ ایم اسلم صدیقی کی اس شمع کو ضرور روشن رکھیں گے۔"

بدقسمتی یہ رہی کہ ایم اسلم صدیقی کی وفات کے بعد یہ اخبار زیادہ عرصے تک نہ چل سکا۔ ایم اسلم صدیقی کے ساتھ ان کے جن دوستوں نے اس اخبار کا اجراء کیا تھا، وہ حیات ہیں۔ میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ اس اخبار کو دوبارہ شروع کریں۔ تاکہ ایم اسلم صدیقی کا نام زندہ رہے۔

 

دوسری گزارش:

ایم اسلم صدیقی  کی خواہش تھی کہ ان کی تحریریں کتابی صورت میں شائع ہو جائیں۔ "لیاری ٹائمز" کے اجراء کے بعد انھیں وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اپنی کتاب شائع کرا سکتے۔ بلکہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اخبار کے اجراء کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو لیاری کے مسائل سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ایم اسلم صدیقی کی کمیونٹی والوں سے گزارش ہے کہ وہ ان کی تحریروں کا مجموعہ شائع کرنے کا انتظام کریں۔ ان کی ساری تحریروں کا ریکارڈ شاید نہ ہو، لیکن جو جو تحریریں دستیاب ہیں ان کو یک جا کر کے کتابی صور ت دی جا سکتی ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے