نعیمیات

 


قسط نمبر 2

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

یہ "نعیمیات " کی دوسری قسط ہے۔ "نعیمیات" دراصل اس خا ک سار کے وہ خیالات ہیں ، جن کے بارے میں یہ عاجز سوچتا ہےکہ انسانوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذہن میں جب جب کوئی اچھا خیال آیا ، اس کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔ چند دن قبل خیال آیا کہ کیوں نہ ان کو یک جا کر کے بلاگ پر رکھ دیا جائے، تاکہ کسی حد تک محفوظ رہیں۔ آئیے " نعیمیات" کی دوسری قسط شروع کرتے ہیں۔



·        زیادہ بولنے والے شخص کو اپنے عیب اور راز مت بتاؤ، کیوں کہ یہ شخص زیادہ بولنے کی وجہ سے اپنے عیبوں اور رازوں کی حفاظت نہیں کر پاتا تو آپ کے عیبوں اور رازوں کی کیا حفاظت کر ے گا۔

·        کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہمیں کیا معلوم کہ رب تعالیٰ کے نزدیک کس کا کیا مقام ہے۔

·        جب موت ہر وقت  سر پر منڈلا رہی ہو تو آرزوؤں کو طول دینے کا کیا  فائدہ؟

·        بے سکونی رب تعالیٰ کی تقسیم ِ رزق پر راضی نہ رہنے میں ہے۔

·        بلا ضرورت بولنے سے اچھا ہے ، خاموش رہا جائے۔ خاموش رہنے سے اچھا ہے، ذکر اللہ کیا جائے۔

·        بے عمل داعی کی باتوں میں تاثیر نہیں ہوتی۔

·        کسی سے بلا ضرورت 'کتنا'، 'کتنی'، 'کتنے' والے سوال نہ پوچھیں۔مثال کے طور پر:

آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟

آپ کے بچے کتنے ہیں؟

آپ نے کتنا پڑھا ہے؟

آپ کا موبائل کتنے کا ہے؟

وغیرہ وغیرہ

ہم اکثر اس قسم کے سوالات سامنے والے کی حیثیت جانچنے کے لیے کرتے ہیں۔

ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے کے بعد ہم دل ہی دل میں اپنا اور اس شخص کا موازنہ کرتے ہیں۔ اگر اس کی حیثیت ہم سے کم ہوتی ہےتو ہم اسے اپنے سے کم تر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر اس کی حیثیت ہم سے بر تر ہوتی ہے تو ہم حسد اور نا شکری کا شکار ہو جاتے ہیں۔  کسی کو کم تر سمجھنا ، کسی سے حسد کرنا اور رب تعالیٰ کی ناشکری کرنابہت بڑے گناہ ہیں، جن سے بچنا ضروری ہے۔اس لیے خواہ مخواہ کسی سے ایسے سوالات مت کریں، جو آپ کو گناہوں میں مبتلا کر دیں۔اپنے آپ میں مست رہیں اور خوش رہیں۔

·        اصل تعریف وہ ہے، جو غیر کریں، اپنے منھ سے اپنی تعریف کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

·        عقل مند بولنے سے زیادہ سنتا ہے۔ بے وقوف سننے سے زیادہ بولتا ہے۔

·        انا، محبت کو کھا جاتی ہے۔

·        ذمے داریاں انسان کو سنجیدہ بنا دیتی ہیں۔

·        لادینیت کا مقابلہ دماغ سے زیادہ دل سے کرنےکی ضرورت ہے۔

·        لذت ِ گناہ عارضی  ہے۔ لطف ثواب دائمی ہے۔ عارضی کے لیے دائمی کو قربان نہ کریں۔

·        کام یاب وہ ہے، جس کی آخرت کام یاب ہے۔

·        عبادت کا حقیقی لطف اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن بھی مصروف ِ عبادت ہو۔

·        رب تعالیٰ نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت رکھی ہوتی ہے، جو اسے دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ لہٰذا کوئی کسی سے کم نہیں۔

·        اچھی بات غیر بھی کریں، مان لیں۔ بری بات اپنے بھی کریں، رد کردیں۔ یہ عین انصاف ہے۔

·        جلد بازی میں کیے گئے فیصلوں کے اثرات دیر پا ثابت نہیں ہوتے۔

·        بہت  زیادہ خوشی میں اور بہت زیادہ غصے میں فیصلے کرنے والے شخص کو بعد میں پچھتاوے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

·        جو آپ کے سامنے دوسروں کی برائیاں کرے، جان لیجیے کہ وہ دوسروں کے سامنے آپ کی برائیاں بھی کرتا ہوگا۔

·        حقیقی  امیر وہ ہے، جس کے رزق میں برکت ہے۔

·        ذات ِ باری تعالیٰ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے، جس کی تردید نا ممکن ہے۔

·        قرآن مجید ہمیں 'لا تفرقو' کا درس دیتا ہے۔ پھر ہم نے فرقے کیوں بنا رکھے ہیں؟

·        قرآن حکیم کےمطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقت رب تعالیٰ کو کفر سے بھی زیادہ نا پسند ہے۔ منافقوں کے لیے قرآن مجید میں نہایت سخت الفاظ استعمال کیے گئے اور ان کی خامیوں کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا۔

سورۃ البقرۃ پڑھیے۔ آیت 1 سے 5 تک ایمان والوں کا ذکر ہے۔آیت 6 اور 7 میں کافروں کا ذکر ہے، لیکن جب منافقوں کی باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے پورا رکوع ان کے بارے میں نازل کر دیا۔ آیت 8 سے20 تک ان کا ذکر ہوا۔ سورۃ الکافرون اور سورۃ المناقون کا موازنہ کیجیے۔سورۃ الکافرون محض چھے چھوٹی آیات پر مشتمل ہے، اس کے بر عکس سورۃ المنافقون میں گیارہ بڑی اور تفصیلی آیات ہیں۔

منافقت دو رنگی کانام ہے۔ منافقت یہ ہے کہ انسان کے ظاہر و باطن میں فرق ہو۔ وہ جیسا دکھنے کی کوشش کرے، ویسا نہ ہو۔منافق شخص ظاہری طور پر نیک ہوتا ہے، مگر اس کا  باطن بد ہوتا ہے۔منافق منھ پر آپ کی تعریف کر ے گا، لیکن پیٹھ پیچھے برائی کرے گا اور موقع ملنے پر آپ کو نقصان پہنچائے گا۔ منافق حد درجے کا ریا کار بھی ہوتاہے۔

رب تعالیٰ کو دو رنگی کفر سے بھی زیادہ نا پسند ہے، اس لیے زندگی کی دوڑ دھوپ میں حتی المقدور منافقت سے بچنے کی کوشش کیجیے۔جیسے ہیں ، ویسے ہی خود کو ظاہر کیجیے۔ کسی کونقصان نہ پہنچائیے، تاکہ دنیا و آخرت کی کام یابی نصیب ہو اور ہمارا رب ہم سے ناراض نہ ہو۔

·        اس دور میں قرآن حکیم کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ قرآن فہمی کو عام کیا جائے۔

·        جہالت کا عجز علم کے غرور سے بہتر ہے۔

·        توبہ دراصل رب تعالیٰ اور بندے کے مابین ایک agreement ہے۔ اس agreement کے تحت بندہ اپنے رب سے عہد کرتا ہے کہ وہ اب اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدوں کو نہیں پھلانگے گا اور اس کا فرماں بردار بندہ بن کر رہے گا۔

انسان کے انسان سے کیے گئےagreement کی خلاف ورزی ہو جائے تونوبت لڑائی جھگڑے اور قتل تک جا پہنچتی ہے۔

مگر اللہ تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے۔ انسان کئی بار توبہ کا ایگریمنٹ توڑتا ہے۔ پھر دل میں پشیمانی جاگتی ہےتو توبہ کرتا  ہے۔ توبہ کے ایگریمنٹ کی توڑ جوڑ انسانی زندگی میں جاری رہتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ ہر توبہ کے بعد انسان کو معاف کر دیتا ہے۔بے شک میرا رب بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

                                                                                                                                                جاری ہے۔۔۔۔۔

میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے