خود کشی کرنے والے اردو شعرا

نعیم الرحمان شائق

جب انسان زندگی سے بہت زیادہ مایوس ہوجاتا ہے تو وہ حیات پر موت کو ترجیح دے دیتا ہے۔ ظاہر ہے، جب زندگی کے رنگ پھیکے پڑجائیں تو جینے کا کیا فائدہ۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو زندگی سے نفرت ہو جاتی ہے تو وہ  بھی موت کو گلےلگا لیتے ہیں۔

 



وہ واقعی پر اسرار لوگ ہوتے ہیں، جو زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو کئی سوال ذہن میں ابھرتے ہیں۔ کیا انھیں ڈر نہیں لگتا؟ کیا انھیں موت سے پیار ہو جاتا ہے کہ جلد از جلد اس کی آغوش میں چلےجانا چاہتے ہیں؟ کیا ان کے لیے مرنا فقط ایک بازیچہِ اطفال ہوتا ہے؟ کیا ان کے لیے جینا بہت مشکل ہوتا ہے؟ یہ اور اس جیسے کئی سوال مجھے کافی دیر تک پریشان کرتے رہتے ہیں۔


یہ بھی زیرِ معالعہ لائیے:   تعلیم ذہنی میلان کے مطابق حاصل کرنی چاہیے

 

نیرنگیِ جہاں دیکھیے کہ کوئی موت سے ڈرتا ہے، کوئی اسے سینے سے لگاتا ہے۔ کوئی کانٹا چبھنے پر شور مچانا شروع کر دیتا ہے تو کوئی ٹرین کے نیچے آکر بھی خاموشی سے موت کو قبول کر لیتا ہے۔ خدا کی قدرت کے بھیدانسانی عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا:

پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت ،ہزاروں سیانے

جو خوب دیکھا تو یار آخر خدا کی باتیں خدا ہیں جانے

 

مشرق اور مغرب میں بہت سے  ایسے شاعر و ادیب گزر چکے ہیں، جنھوں نے زندگی کی قید سے آزاد ہونے کے لیے اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیا۔ پاکستان کے  کچھ شاعروں نے بھی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہوئے جان لٹا دی۔اس موضوع پرکسی حد تک لکھا جا چکا ہے، مگر میری خواہش ہے کہ یہ پر اسرار موضوع میرے بلاگ کی زینت بھی بنے۔ چلیے شروع کرتے ہیں:

آنس معین

آنس معین 29 نومبر 1960ء  کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ 17 برس کی عمر میں شاعری شروع کی اور کافی مشہور ہوگئے۔تصوف کی طرف ان کا میلان بہت زیادہ تھا۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ سلجھا ہوا انسان بھی خود کشی کرے گا، مگر تقدیر کی لکھی ہوئی کو کون مٹا سکتا ہے۔ ۔ 4 فروری 1986ء کو انھوں  نے محض 26   برس کی عمر میں ایک ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کرلی۔ان کی خود کشی کے بعد مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کی گئیں۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ یہ درست نہیں ہیں۔ خود کشی کے بعد ان کا آخری خط منظر ِ عام پر آیا۔ جو انھوں نے اپنی والدہ کےنام لکھا تھا۔اس خط میں انھوں نے واضح کیا کہ وہ محض اس لیے خود کشی کر رہےہیں کہ زندگی کے ایک ہی طرح کے طرزِ عمل سے اکتا گئے ہیں۔

ستائیس سال کی عمر میں ہی وہ اتنے مقبول ہوگئے تھےکہ  جوش ملیح آبادی نے انھیں کم سن سقراط اور فیض احمد فیض نےزیرک  دانش ور قرار دیا۔

 

نمونہ کلام

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا 

نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا 

 

تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی 

ملیں گے اب بھی مگر انتظار کم ہوگا 

 

میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا 

کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہوگا 

 

پلٹ تو آئے گا شاید کبھی یہی موسم 

ترے بغیر مگر خوش گوار کم ہوگا 

 

بہت طویل ہے آنسؔ یہ زندگی کا سفر 

بس ایک شخص پہ دار و مدار کم ہوگا 

 

یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: اطہر ہاشمی کے کالم کتابی صورت میں شائع کیے جائیں


ثروت حسین

ثروت حسین 9 نومبر 1949ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ کراچی یونی ورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ پھر جامعہ ملیہ کالج ملیر میں تدریس سےوابستہ ہوگئے۔انھوں نےستمبر 1993ء میں ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کی کوشش کی اوردونوں پاؤں سے محروم ہو گئے۔ 3 برس بعد 1996ء میں  پھر خود کشی کی کوشش کی ۔ اس دفعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ان کی موت نے ادبی حلقے کوکئی روز تک سوگ وار رکھا۔ تہذیب حافی کا مشہور شعر ہے:

میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروت پر

اور اس میں ریل کی پٹری  نہیں بناؤں گا

 کہا جاتا ہے کہ انھیں پروین شاکر سے محبت ہو گئی تھی۔ مگر وہ انھیں مسلسل نظر انداز کرتی رہیں۔ جس کی وجہ سے انھوں نے خود کشی کر لی۔ ان کا مشہور شعر ہے:

موت کے درندے میں ایک کشش تو ہے ثروت

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کشی کے بارے میں

نمونہ کلام

لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا
بادل تھا اور جَل پریوں کے ساتھ رہا


کون تھا میں، یہ تو مجھ کو معلوم نہیں
پُھولوں، پتّوں اور دِیوں کے ساتھ رہا


مِلنا اور بچھڑ جانا کِسی رستے پر
اک یہی قصّہ آدمیوں کے ساتھ رہا


وہ اک سُورج صبح تلک مرے پہلو میں
اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا


سب نے جانا بہت سبک، بے حد شفّاف
دریا تو آلودگیوں کے ساتھ رہا

 

یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: غالب کے سدا بہار اشعار


شکیب جلالی

شکیب جلالی یکم اکتوبر1934ء کو علی گڑھ کےایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 15یا 16سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی۔ ہجرت کے بعد پاکستان آگئے۔ پہلے راولپنڈی میں اور پھر لاہور میں مقیم رہے۔ محض 32 سال کی عمر میں سر گودھا اسٹیشن کے پاس ایک ریل گاڑی کے نیچے آکر خوش کشی کر لی۔ کہتے ہیں کہ شکیب کے والد کی ذہنی بیماری کے باعث ان  کی ماں نے ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کر لی تھی۔ شکیب اس وقت 10 سال کے تھے۔ انھوں نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ ہول ناک منظر دیکھا تھا۔ اس منظر نے کبھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔

نمونہ کلام

کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے

بدل رہا ہے جنوں زاویے اڑانوں کے

 

یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا

شگاف پر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے

 

چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام

پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے

 

ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں

مرے رفیق ہیں مطرب گئے زمانوں کے

 

کبھی ہمارے نقوش قدم کو ترسیں گے

وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے


یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: رومی کی باتیں


سارا شگفتہ

ساراشگفتہ 31 اکتوبر 1954ء کو گوجراں والا میں میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی تھیں۔ غریب خاندان کی اس لڑکی کی خواہش تھی کہ وہ بہت زیادہ پڑھ لکھ کر معاشرے میں اہم مقام حاصل کرے۔ مگر میٹرک تک بھی تعلیم حاصل نہ کر سکی۔ سوتیلی ماں کے ناروا سلوک اور کم عمری کی شادی نے انھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا۔ 4 جون 1984ء کو انھوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی۔

 

نمونہ کلام

پرندے کی آنکھ کھل جاتی ہے

 

کسی پرندے کی رات پیڑ پر پھڑپھڑاتی ہے

رات پیڑ اور پرندہ

اندھیرے کے یہ تینوں راہی

ایک سیدھ میں آ کھڑے ہوتے ہیں

رات اندھیرے میں پھنس جاتی ہے

رات تو نے میری چھاؤں کیا کی

جنگل چھوٹا ہے

اس لئے تمہیں گہری لگ رہی ہوں

گہرا تو میں پرندے کے سو جانے سے ہوا تھا

میں روز پرندے کو دلاسہ دینے کے بعد

اپنی کمان کی طرف لوٹ جاتی ہوں

تیری کمان کیا صبح ہے

میں جب مری تو میرا نام رات رکھ دیا گیا

اب میرا نام فاصلہ ہے

تیرا دوسرا جنم کب ہوگا

جب یہ پرندہ بیدار ہوگا

پرندے کا چہچہانا ہی میرا جنم دن ہے

فاصلہ اور پیڑ ہاتھ ملاتے ہیں

اور پرندے کی آنکھ کھل جاتی ہے

 

 

قمر بشیر

انگریزی کے مشہور شاعری William Wordsworth نے اپنی شہرہ آفاق نظم Resolution and Independence  میں  Thomas Chatterton  کا ذکرکیا۔ یہ انگریزی شاعر تھے۔ انھوں نے محض 17 سال کی عمر میں خود کشی کر لی تھی۔ اردو کے بھی ایک شاعر ہیں، جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ان  کا نام قمر بشیر تھا ۔ انھوں نے محض انیس سال کی عمر میں ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کر لی۔ ان کا تعلق خانیوال سے تھا۔ وہ آنس معین اور شکیب جلالی سے کافی حد تک متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھی  ان دو شاعروں کو طرح زندگی پر موت کو ترجیح دی۔ انھوں نے 6 جون 1991ء کو خود کشی کی۔ کہتے ہیں کہ ان کی موت سے ایک دن قبل ایک اخبار میں ان کی یہ غزل شائع ہوئی:

آسماں در آسماں بھٹکوں گا میں
تب کہیں تکمیل کو پہنچوں گا میں


کب رہائی مل سکے گی قید سے
جسم کی مٹھی سے کب نکلوں گا میں



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے