اطہر ہاشمی کے کالم کتابی صورت میں شایع کیے جائیں

 نعیم  الرحمان شائق

بہت سال پہلے میں نے اخبار کےایک ٹھیلے سے مشہور ہفت روزہ رسالہ"فرائیڈے اسپیشل" خریدا۔رسالہ پڑھتے ہوئے جب میں آخری صفحے پر پہنچاتو اطہر ہاشمی کا کالم بعنوان "خبر لیجے زباں بگڑی" ملا۔ میں پہلی بار ان کا کالم پڑھ رہا تھا۔ یہ کالم  معاصر اخبارات اور نیوز چینلوں میں ہونے والی اردو کی غلطیوں کی تصحیح پر مشتمل تھا۔ میں حیران رہ گیا کہ پاکستان میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے، جو اردو زبان پر اتنی مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ کالم خشک قسم کی معلومات پر مشتمل تھا، مگر اتنا خوب صورتی سے تحریر کیا گیا تھا کہ میں پڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ پورا مضمون ختم ہوگیا۔پھر میں نے یہ عادت بنالی تھی کہ محض اطہر ہاشمی کا کالم پڑھنے کےلیے ہر ہفتے "فرائیڈے اسپیشل" خریدتا۔




ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اہل ِ علم کی قدر نہیں کرتے۔ ہم میں سے چند لوگ ہی ہوں گے، جو اطہر علی ہاشمی سے واقف ہوں گے۔ جب اہلِ علم حضرات کی قدر ہی نہیں کی جائے گی تو علم کہاں سے پھلے پھولے گا۔ شاید ہم علم میں بھی اس لیے پیچھے ہیں کہ ہم علم والوں کو اس طرح اہمیت نہیں دیتے،جس طرح دینی چاہیے۔ ہم فن کاروں کی قدر کرتے ہیں، گویوں کو سر پہ بٹھاتے ہیں، ناچ گانے والوں کو بریکنگ نیوز میں جگہ دیتے ہیں، اداکاراؤں پر اخبارات کے صفحے لٹا دیتے ہیں،سیاست دانوں پر کئی گھنٹے تبصرے کرتے ہیں،کھلاڑیوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، مگر ان لوگوں کو ہم جانتے تک نہیں جو اپنے آپ کو علم کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ خدا ہمار ے حال پر رحم کرے۔ انصاف یہ ہے کہ جس طرح ہمارا میڈیا سیاست دانوں، اداکاروں، فنکاروں ، گویوں اور کھلاڑیوں کو اہمیت دیتا ہے، بالکل اسی طرح علم پھیلانے والوں کو دے۔ بلکہ ان کی اہمیت زیادہ ہونی چاہیے،کیوں کہ علم ناچ گانے، سیاست اور کھیل   سے زیادہ ان مول اور قیمتی ہوتاہے۔


یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے:   غالب کے سدا بہار اشعار

 

اردو نیوز کی اس خبر کے مطابق اطہر علی ہاشمی  اگست 1947ء کو بہاول پور میں پیدا ہوئے، لیکن اردو وکی پیڈیا کے اس مضمون کےمطابق وہ 1946ء میں پیدا ہوئے۔  ان کےوالد منسٹری آف انڈسٹریز میں تھے۔ بچپن وہیں گزارا۔ میٹرک کے بعد انٹرایف سی کالج لاہورسے کیا۔ پھر جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ "علاؤالدین خلجی کی معاشی پالیسی" پر مقالہ لکھ کراسلام آباد کی ایک یونی ورسٹی سے ایم فل کی  ڈگری حاصل کی ۔تعلیم سے فراغت کے بعد جامعہ کراچی سے شعبہ ِ تدریس سے وابستہ ہونے کی پیش کش ہوئی، لیکن صحافت سے منسلک ہوگئے۔ 44 برس تک کوچہ ِ صحافت کے راہی رہے۔ زبان ِ اردو پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔روزنامہ "جسارت"، "جنگ لندن"اور "امت" سے منسلک رہے۔ دارالعلوم کراچی کے ناظم ِ تعلیمات اور استاذِ حدیث مولانا راحت علی ہاشمی کے بڑے بھائی تھے۔ 6 اگست 2020ء کو انتقال کر گئے۔

 

یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے:   رومی کی باتیں


اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ اطہر علی ہاشمی اردو زبان پر بہترین گرفت رکھتے تھے۔ انگریزی کی بے جا بالا دستی کی وجہ سے ہمارا میڈیا اردو زبان کی باریکیوں سے نا واقف ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی کما حقہ اردو کی تعلیم نہیں دی جاتی۔اطہر علی ہاشمی کی زندگی کا بڑا حصہ اردو زبان کی  غلطیوں کی نشان دہی کرنے میں گزرا۔ اگر ان کے کالم جو "خبر لیجے زباں بگڑی" کےنام سے شایع ہوتے تھے، کتابی شکل میں لائے جائیں  تو یہ فروغِ اردو زبان کے ضمن میں ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اس کتاب سے میڈیا کے ساتھ ساتھ اساتذہ، طلبہ اور دیگر لوگ بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ اردو زبان کے فروغ کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔اس سے ہماری قومی زبان پروان چڑھےگی۔ اطہر ہاشمی پاکستان کے مشہور میڈیا گروپس سےمنسلک رہے۔ان میڈیا گروپس کے پاس ان کی تحریروں کاتمام  تر ریکارڈ موجود ہوگا۔ ان کے لیے اطہر ہاشمی کی تحریروں کی اشاعت کوئی مشکل امر نہیں۔بہ صورت ِ دیگران کا یہ قیمتی علمی سرمایہ ضائع ہو جائےگا۔کتاب خو د بھی زندہ رہتی ہے، علم کو بھی باقی  رکھتی ہے اور اپنے مصنف کو بھی حیات رکھتی ہے۔اطہر  ہاشمی اپنی کتاب کی بدولت حیات رہیں گے۔ میرے خیال میں ان کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کااس سے اچھا طریقہ کوئی نہیں ہے۔


یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: "دانشِ عرب و عجم" 


انگریزوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی زبان کی درست اشاعت کرنے کی بہت کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے میڈیا گروپ ، ان کی درس گاہیں اور جامعات اس تگ ودو میں مصروف نظر آتی ہیں کہ ان کی زبان پھلے پھولے اور ہر جگہ پروان چڑھے ۔ ہمارے ہاں اس طرح کی کوششیں خال خال نظر آتی ہیں ۔ ایک دن لائبریری میں ایک کتاب پر نظر پڑی ۔ کتاب کا نام تھا Write Better, Speak Better:۔ یہ کتاب Reader’s Digest کے ادارے نے شائع کی تھی ۔ اس کتاب میں انگریزی لکھنے اور بولنے کے اصول بڑی مہارت سے یک جا کیے گئے تھے ۔ کتاب کا سرسری جائزہ لینے کے بعد میں نے سوچا کہ ہمارے ہاں کتنے بڑے بڑے میڈیا گروپ ہیں ۔ ان کے ہاں کام کرنے والے کتنے ماہر صحافی ، شاعر اور مصنف ہیں ۔ یہ سب اپنی زبان کو پروان چڑھانےاور نئی نسل کے ذہنوں میں اپنی زبان کی اہمیت و افادیت نقش کرنے کے لیے کیوں اس طرح کی کوششیں نہیں کرتے ۔ ہمارے ہاں اردو کے اصول و ضوابط پربہت کم کتابیں لکھی جاتی ہیں ۔ ہمارے میڈیا گروپس اس طرف بالکل توجہ نہیں دیتے ۔ ہماری جامعات آکسفورڈ اور کیمبریج کی طرح اپنی زبان کی حفاظت واشاعت میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتیں ۔

 

میں یہاں اطہر ہاشمی کے  کالم کے چنداقتباسات  لکھتا ہوں۔ جس سے آپ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ زبان ِ اردو کےکتنے بڑے محقق تھے:

استفادہ حاصل کرنا

اس کی درست صورت استفادہ کرنا یعنی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ استفادہ میں تحصیلِ فائدہ کا مفہوم چونکہ ازخود شامل ہے اس لیے استفادہ کرنا، لغوی اور معنوی اعتبار سے قائل کے مفہوم کا صحیح ترجمان ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ لفظ 'حاصل'  کا اضافہ محض تحصیلِ لاحاصل ہے، یعنی ایسی چیز کی جستجو یا خواہش کرنا جو پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہے۔

 

اشکوں کا سیلاب

سیلاب اصل میں 'سیلِ آب'  کا مرکب ہے جس کا معنی ہے 'پانی کا ریلا'۔ 'اشکوں کا سیلاب'  کی جگہ 'سیلِ اشک' یا 'اشکوں کا سیل'  ہونا چاہیے۔

 

اعلیٰ ترین، ادنیٰ ترین، افضل ترین

اعلیٰ، ادنیٰ اور افضل، افعل التفضیل ہیں۔ 'ترین'  بھی تفضیلِ کُل ہے۔ لہٰذا اعلیٰ، ادنیٰ اور افضل کے ساتھ  'ترین'  کی یکجائی خلافِ قواعد ہے۔

 

ان کا موضوعِ سخن سیاستِ حاضرہ ہے

اس جملے میں 'موضوعِ سخن' کے بجائے 'موضوع'  ہونا چاہیے۔ موضوعِ سخن شاعری کے متعلق ہوتا ہے۔

 

اے لوگو! میری بات غور سے سنو

درست جملہ اس طرح ہوگا: 'لوگو! میری بات غور سے سنو'۔ مخاطب کرکے 'لوگو'  کہا جائے تو اس میں 'اے'  کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ بعض لکھنے والے  'لوگو'  کے ساتھ نون غنہ کا اضافہ کرکے غلط طور پر'لوگوں'  اور 'اے لوگوں' کردیتے ہیں۔

 

بھیڑ جمع ہوگئی/ مجمع جمع ہوگیا

ہمارے ہاں لکھنے پڑھنے میں حشو و زوائد کی غلطیاں عام ہیں۔ 'بھیڑ ہوگئی'، 'مجمع ہوگیا'  میں بات پوری ہوجاتی ہے۔

 

جھاڑو پھرے گا

گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر نے فرمایا کہ عید کے بعد جھاڑو پھرے گا اور خود قرنطینہ میں چلے گئے۔ عید تو کب کی گزر چکی لیکن عرض یہ ہے کہ جھاڑو مذکر نہیں مونث ہے۔ یہ پھرتا نہیں، پھرتی ہے۔ 'جھاڑو پھر گئی' محاورہ ہے۔ البتہ ایک بڑی سی جھاڑو جس کی دُم میں ایک بڑا سا ڈنڈا لگا ہوتا ہے اور خاکروب اس سے سڑکوں کی صفائی کرتے ہیں اس کی جسامت دیکھ کر اسے مذکر کہا جاسکتا ہے۔

 

'ڈکار' مذکر یامونث

23 جون کے ایک اخبار میں بہت جسیم اور قدیم کالم نگار نے 'ڈکار' کو مذکر لکھا ہے۔ ان کی  'ڈکار'  یقیناً مذکر ہوگی۔ ویسے ڈکار مونث ہے اور ہندی کا لفظ ہے۔ موصوف ہمارے پسندیدہ کالم نگار ہیں لیکن غلطیاں کرنے لگے ہیں۔

 

 

آب دیدہ آنکھیں

'وہ اپنی آب دیدہ آنکھوں سے مرحوم والد کی تصویر دیکھتا رہا'۔ اس جملے میں 'آنکھوں' اضافی ہے، دیدہ کا معنیٰ ہی آنکھ ہے۔ آب دیدہ کا معنیٰ ہے 'جس شخص کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوں'۔ دوسری ترکیب 'آبِ دیدہ' ہے جس کا معنیٰ آنکھ کا پانی یعنی آنسو ہے۔ درست جملہ اس طرح ہے: 'وہ آب دیدہ اپنے مرحوم والد کی تصویر دیکھتا رہا'۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں: 'وہ آنسو بھری آنکھوں سے مرحوم والد کی'

 

جس کا کام اسی کو سانجھے

ایک ٹی وی اینکر بتا رہے تھے کہ یہ پرانی کہاوت ہے 'جس کا کام اسی کو سانجھے'۔ یہ کہاوت تو ہے لیکن اس میں 'سانجھے'نہیں 'ساجے' ہے۔ ممکن ہے یہ سجنے سے ہو۔

سجنا ہندی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے موزوں ہونا، آراستہ ہونا، مرتب ہونا۔ بطور فعل متعدی موزوں کرنا، آراستہ کرنا، یعنی جس کا کام ہے وہ ہی اسے ٹھیک طرح کرسکتا ہے۔ اس کہاوت کا دوسرا ٹکڑا ہے 'کوئی اور کرے تو ٹھینگا باجے'۔ اس سے ظاہر ہے کہ باجے کے قافیے میں ساجے آئے گا۔ جہاں تک ساجھے کا تعلق ہے تو اس کی اصل بھی ہندی ہے اور اس کے کئی معانی ہیں۔ معروف معنیٰ اشتراک ہے جیسے ساجھے کی ہنڈیا جو بیچ چوراہے کے پھوٹ جاتی ہے۔ یا ساجھے داری۔ ساجھا لڑنا یعنی کوئی تدبیر ہاتھ آجانا۔ مقولہ ہے 'ساجھے کا کام بُرا'۔

ہمارے خیال میں ساجھے میں نون غنہ پنجاب میں شامل ہوگیا ہے اور سانجھا کہا جانے لگا ہے۔ ویسے ہندی میں ایک لفظ 'سانجھ' بھی ہے جس کا مطلب ہے سورج ڈوبنے کا وقت یعنی شام۔ سانجھ سویرے کا مطلب ہے صبح، شام یا، شام سے صبح تک۔ ایک گیت ہے 'یاد کروں تجھے سانجھ سویرے'۔

 

قوس و قزح

30 مئی کے ایک اخبار میں رنگین تصویر کا عنوان (کیپشن) ہے 'ٹوکیو میں قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں'۔ ایک تو ہمارے صحافی بھائیوں کو بے جا طور پر 'و' کا استعمال بہت پسند ہے۔ جیسے بلند و بانگ، چاق و چوبند اور اب قوس و قزح۔ اصل میں یہ'قوس قُزح' ہے۔

'قوس' کا مطلب کمان اور 'قزح' (ق پر پیش) کا مطلب ہے رنگ، یعنی رنگوں کی کمان۔ چنانچہ 'قُزح کے رنگ' بالکل بے معنی ہے لیکن بار بار پڑھنے میں آتا ہے۔ قوس عربی کا لفظ اور مونث ہے۔ قوس آسمان کو بھی کہتے ہیں، کیونکہ یہ بھی مثل کمان کے ہے۔ آسمان کے نویں برج کا نام بھی قوس ہے جو بشکل کمان مانا گیا ہے۔ اور قزح ماخوذ ہے 'قزحہ'سے، جس کے معنی زرد، سرخ، سبز کے ہیں۔

آفتاب کی شعاعیں جب مینہ (بارش) سے گزرتی ہیں تو سات مختلف رنگوں میں تقسیم ہوکر دھنک کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ اس کے لیے بارش، اور اس پر سورج کی شعاعیں پڑنا ضروری ہے۔

 

طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کر رہاہوں۔

 

ذیل میں links دے رہاہوں، جہاں سے آپ اطہر ہاشمی مرحوم کے دیگرکالم پڑھ سکتےہیں:

 

https://www.dawnnews.tv/authors/2158/athar-hashmi

 

https://www.jasarat.com/blog/author/ather_hashmi/

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے